The news is by your side.

کوپ 30: کیا دنیا واقعی تیاری کر چکی ہے؟

دنیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں موسمیاتی بحران محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ انسانی بقا، معیشت، صحت، خوراک، اور عالمی سیاست کے مستقبل سے جڑا ہوا سوال بن چکا ہے۔

ہر سال ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس آف دی پارٹیز (COP) ایک نئی امید جگاتی ہے کہ شاید اس بار دنیا حقیقی تبدیلی کی طرف بڑھے گی۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا دنیا واقعی تیاری کر چکی ہے؟

کوپ کانفرنسز کا پس منظر، وعدے اور حقیقت کا فرق


موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کا آغاز 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والی ارتھ سمٹ (Earth Summit) سے ہوا، جس نے یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کی بنیاد رکھی۔ تب سے اب تک 29 کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں، جن میں پیرس معاہدہ (2015) سب سے بڑا سنگ میل قرار دیا گیا۔

پیرس معاہدے کا مقصد عالمی درجۂ حرارت کو صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیس کے اندر رکھنا تھا۔ مگر حالیہ رپورٹس (IPCC، 2024) کے مطابق زمین کا درجۂ حرارت پہلے ہی 1.48 ڈگری تک پہنچ چکا ہے، اور موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2030 تک یہ 1.8 ڈگری سے تجاوز کر جائے گا۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ وعدے تو بہت ہوئے، مگر عملی تیاری اب بھی ناکافی ہے۔

کوپ 30— امید، مایوسی یا محض بیانیہ؟


عالمی کانفرنس، کوپ 30، برازیل کے شہر بیلم (Belem) میں اگلے مہینے منعقد ہورہی ہے۔ COP 30 نومبر کی 10 تاریخ سے 21 تاریخ تک جاری رہے گی۔ میزبان ملک کے طور پر برازیل کا انتخاب علامتی بھی ہے کیونکہ ایمیزون کے جنگلات جنہیں ”دنیا کے پھیپھڑے“ کہا جاتا ہے تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ کوپ 30 کے ایجنڈے میں چند اہم نکات کا زیرِ بحث آنا متوقع ہے:

لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کا عملی آغاز، تاکہ غریب ممالک کو ماحولیاتی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے فنڈنگ مل سکے۔ کاربن نیوٹرل اہداف پر نظرِ ثانی اور گرین فنانسنگ اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے طریقۂ کار۔ تاہم، اگر ماضی کی کانفرنسز کا ریکارڈ دیکھا جائے تو اکثر یہ وعدے رپورٹوں تک محدود رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ کوپ 28 (دبئی) میں بھی “فاسل فیول فیز آؤٹ” پر اتفاق نہ ہو سکا۔ کوپ 29 (آذربائیجان) میں فنانسنگ کے مسائل حل نہ ہوئے۔ تو کیا کوپ 30 واقعی ایک نیا موڑ ثابت ہوگی؟

ترقی پذیر دنیا کا مقدمہ— انصاف کہاں ہے؟


ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر ان ممالک پر پڑتا ہے جو خود اس بحران کے ذمہ دار نہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجر، ایتھوپیا، اور فلپائن جیسے ممالک کل عالمی کاربن اخراج کا 4 فیصد سے بھی کم حصّہ رکھتے ہیں، مگر نقصان سب سے زیادہ انہی ممالک کو اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان کی مثال لیں تو 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کی جی ڈی پی کا 2 فیصد ختم کر دیا، اور 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے جب کہ 2025 میں بھی صورتِ حال اس سے ملتی جلتی رہی، اس کے علاوہ دیگر موسمیاتی آفات جن میں گلیشئر کا پگھلاؤ سب سے اہم ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جو ایک ایسا ملک ادا کر رہا ہے جس کا عالمی گرین ہاؤس گیسز میں نہ ہونے کے برابر کردار رہا۔ اسی لیے ترقی پذیر ممالک کو اب ”Climate Justice“ کے تحت ایک مضبوط آواز کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر فیصلہ سازی میں برابری کا کردار ادا کیا جا سکے۔

کیا دنیا واقعی تیار ہے؟ سائنس کا کڑوا سچ


تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق 2024 دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہوا۔ یورپ، چین، اور امریکا میں شدید گرمی کی لہریں معمول بن چکی ہیں۔ قطب شمالی کی برف ریکارڈ حد تک کم ہوئی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں درجۂ حرارت 52 ڈگری سیلسیس تک جا پہنچا۔ یو این ای پی (UNEP) کی ایمیشن گیپ رپورٹ 2024 کے مطابق اگر ممالک اپنے وعدوں پر بھی مکمل عمل کر لیں، تب بھی درجۂ حرارت 2.5 سے 2.8 ڈگری تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ دنیا کی تیاری ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

توانائی کی منتقلی — خواب یا حقیقت؟


دنیا بھر میں متبادل توانائی میں سرمایہ کاری ضرور بڑھی ہے، مگر اب بھی فاسل فیولز پر انحصار غالب ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA) کے مطابق: کُل توانائی کا صرف 31 فیصد حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ سرمایہ اب بھی تیل اور گیس کے شعبوں میں لگایا جا رہا ہے۔ یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ اقتصادی مفادات ماحولیاتی وعدوں پر غالب ہیں۔

مستقبل کا راستہ— امید باقی ہے


اگرچہ عالمی قیادت کی رفتار مایوس کن ہے، مگر سول سوسائٹی، نوجوانوں، سائنسدانوں اور میڈیا پر آواز بلند ہو رہی ہے۔ مقامی سطح پر متبادل توانائی کے منصوبے، شجر کاری مہمات، پلاسٹک کے متبادل، اور ماحولیاتی آگاہی کی تحریکیں اب ایک عالمی دباؤ کی صورت اختیار کر رہی ہیں۔ پاکستان میں کلائمٹ ایکشن سینٹر، فروزاں میگزین، اور مختلف این جی اوز کی کاوشیں اس بات کی علامت ہیں کہ تبدیلی نچلی سطح سے شروع ہو چکی ہے۔

وقت کم ہے، سوال باقی ہے!


دنیا کے پاس وقت بہت کم ہے۔ ہر گزرتا سال ہمیں اس تلخ حقیقت کے قریب لے جا رہا ہے کہ اگر ہم نے اب فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو موسمیاتی تباہی ناگزیر ہو جائے گی۔ لہٰذا، کوپ 30 محض ایک اور اجلاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہونا چاہیے۔ سوال وہی ہے…..کیا دنیا واقعی تیاری کر چکی ہے یا اب بھی ہم صرف وعدوں اور بیانات کے سائے میں جی رہے ہیں؟

محمود عالم خالد
+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں