میں طالب علم ہوں
کتاب سے ہے رشتہ
میرا ہتھیار میرا قلم
میری مسکان مرا عزم
بارود کی زبان سے
ڈرا نہ پاؤ گے
مجھے علم کی لگن سے
ہٹا نہ پاؤ گے
میں ماں کی امید ہوں
باپ کا لخت جگر ہوں
میں قوم کا کل ہوں
میں کہاں بے خبر ہوں
پشاور میں قیامت ٹوٹ پڑی ۔8عربی بولنے والے غیر ملکی دہشت گرد آئے اور میرے چمن کی 134 کونپلوں کو مسل گئے۔ وہ پھول مرجھا گئے جو ابھی کامل کھلے ہی نہ تھے۔ وہ خواب ٹوٹ گئے جو پورے دیکھے ہی نہ تھے ۔ 7دہشت گردوں نے134 ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں ۔ان ہی میں سے میں ایک منیب شاہ آفریدی بھی تھاجس نے شہادت کے کچھ روز قبل ہی اپنے فیس بک کے کور فوٹو کے ذریعے دہشت گردوں کو پیغام دیا۔۔۔ Our Smile is more stronger then your Guns ۔۔۔ اور میں نے اس کی پروفائل میں لگی ہوئی ایک ایک تصویر کو دیکھا ۔ہرتصویر میں وہ مسکراہٹیں بکھیر رہا تھا۔ اس کی مسکان اس کے خوابوں کا پتہ دیتی تھی ۔ اس کے خواب امن اور علم کے رشتے سے قوم کو پیوستہ کرنا تھا۔ وہ شہید ہوگیا مگر اس کے خواب زندہ ہیں ۔134بچے چل بسے مگر ان کے والدین کے ماتھے پریقین زندہ ہے اور سینکڑوں بچے جو زخمی ہوئے ان کے چہروں پر ابھی امید باقی ہے۔دہشتگردی کے خاتمے کا یقین اور امن کی امید۔۔ پوری قوم کے اتحاد اور ان بچوں کا جذبے نے دہشت گردوں کو شکست دے دی وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوگئے۔ وزیراعظم ،چیف آف آرمی سٹاف،تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ،پاکستان عوامی تحریک،متحدہ قومی موومنٹ اور تمام چھوٹی بڑی جماعتیں، شخصیتیں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے یک زبان ہوگئے۔ پوری قوم کی آواز گو گو کے بجائے’دہشت گردی ختم کرو‘بن گئی ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے زخمی بچوں سے یہی وعدہ کیا آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ رہے گئی۔ اللہ کے رسول کی تلوار کی ضرب سے کوئی دہشت گرد نہیں بچ پائے گا۔ ضرب عضب جاری رہے گی۔ مزید یہ پیش رفت ہوئی کہ تمام جماعتیں اگلے ہی دن مل بیٹھیں اور وہ فیصلہ ہوئے جو میری دانست میں ایک سال قبل ہی ہوجانے چاہئے تھے مگر ہماری قومی بے حسی اور مضبوط داخلہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے 134بچوں کی شہادت ہوئی اب دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے احکامات جاری ہوئے۔ افغانستان سے ملا عمرکی حوالگی کی بات ہوئی۔ اچھے برے طالبان کا فرق ختم ہوا ۔ کیونکہ ظالم سب ایک جیسے ہوتے ہیں کوئی اچھا برا نہیں ہوتا۔ ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور مجھے اپنے سپہ سالار پہ یقین ہے کہ وہ بچوں سے کیا وعدہ نبھائیں گے۔
یہاں ایک فکری مغالطے کا ازالہ کرتا چلوں کچھ عناصرموضوع بحث اس سوال کو لاتے ہیں کہ کیا وہ دہشتگرد مسلمان تھے؟ واضح رہے دہشت گرد کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق صرف دہشت گردی سے ہوتا ہے جس کی سزا صرف اورصرف موت ہے۔ بچوں کے قاتل مسلمان کیا انسان بھی نہیں ہوسکتے ۔ اللہ کے رسول صلی علیہ وآلہ وسلم نے تو حالت جنگ میں بھی دشمن کے بچوں اور خواتین کو مارنے سے منع کیا اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تشبیع دی۔ وہ درندے تھے جن کے بارے میں نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے نشانیاں بتاتے ہوئے فرما دیا ’خوارج جہنم کے کتے ہوں گے‘۔
وطن عزیز پاکستان گزشتہ 14سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اورعالمی دہشت گردی انڈیکس کے مطابق پاکستان دہشت گردی کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے ۔دوسری جانب پاکستان دنیا کے ذہین ترین طلبہ کا بھی مرکز ہے یہاں اعلیٰ دماغ اور باصلاحیت طلبہ کی تعداد لاکھوں میں ہے پاکستان کی یوتھ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی یوتھ نہیں۔ پاکستان کے نوجوان خطے کا فخر ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے سے خوشحالی کی راہ شروع ہوتی ہے۔ پرامن معاشرہ باصلاحیت دماغ کی پرورش کا باعث بنتا ہے۔ دہشت گردوں نے مساجد، مزاروں، تبلیغی مراکز، بازاروں، مذہبی عمارتوں ، سرکاری عمارتوں کو پہلے نشانہ بنایا اس بار دہشت گردوں نے مکتب کو نشانہ بنایا جس مکتب نے اس قوم کو ہیرو دیئے اور ان معصوم جانوں کو نشانہ بنایا جن کا ہتھیار قلم ہے ۔وہ پڑھ لکھ کر اس قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں مصروف تھے ۔اب بہت ہوچکا۔ اس دردناک سانحے کے بعد قوم کے بچے بچے کے حوصلے مزید جوان ہوگئے ہیں ۔ جذبے اور ولولے پرعزم ہوگئے ہیں ۔ ہر طالب علم اپنی پاک افواج کے ساتھ کھڑا ہے ۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک۔۔ دہشت گردوں کے تمام سپورٹرز کو منطقی انجام پر پہنچانے تک ۔۔ اور قد م قدم علم و امن کے دیپ جلانے تک جدوجہد اب مزید تیز ہوگئی ہے۔اور دکھ کی اس تاریک رات کے بعد بھی ہمارے چہرے کی مسکان ہمارے عزم کا پتہ دیتی ہے ۔2015میں پاکستان کا ایک ایک فرد یہ عزم لے کر داخل ہو کہ یہ سال دہشت گردوں کا آخری سال ہے۔