The news is by your side.

بچے ہم سب کی ذمہ داری ہیں

ہماری قومی المیہ ہے کہ ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس تو نہیں مگرہم صبح شام ریاستی اداروں، پولیس اور عدلیہ کو کوستے رہتے ہیں، حال میں ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی کیس سامنے آئے جس کے بعد سوشل میڈیا پر اکثیریت میں عوام الناس نے ریاست، عدلیہ اور پولیس پر سوالات اٹھائے، مگرکسی نے بھی اپنے آپ سے کچھ نہیں پوچھا، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو اس وقت تک نہیں روکا جاسکتا جب تک ہم خود اپنے ذمے یہ ذمہ داری نہیں لیتے، کیونکہ بچے صرف ریاست کی ہی نہیں ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔

یہ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ ہم ایسا ماحول ، نگہداشت اور معاشرہ فراہم کریں جس میں ہمارے بچے محفوظ ہیں، ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ جنسی اور ہر قسم کے ذہنی ، جسمانی استحصال اور زیادتی کے بغیر پروان چڑھنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اسے نہ صرف ہر مذہب دیتا ہے بلکہ آئین پاکستان اور پاکستان کے قوانین بھی بچوں کی حفاظت کے ضامن ہیں۔

اس سے قبل کہ ہم ذمہ داریوں پر بات کریں، اگر بات کی جائے اعداد وشمار کے مطابق تو ایک نجی ادارے ساحل کے مطابق پاکستان میں ہر روز 10بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ سال 2018 کے دوران ملک بھر میں 3832 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے جب کہ روزانہ کی بنیاد پر جنسی تشدد کےاسطاً 10 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں 2094 لڑکیاں اور 1738 لڑکے شامل تھے۔

سال 2017 میں بچوں کے اغوا کے 1039 واقعات سامنے آئے جبکہ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 467، لڑکوں کے ساتھ ریپ کے 366، زیادتی کی کوشش کے 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 158 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔پاکستان واحد ملک نہیں جہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے، ایک مغربی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایشیا میں 4 فیصد بچوں اور 11 فیصد بچیوں کو چھوٹی عمر میں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ریسرچ کے مطابق امریکا میں آٹھ فیصد بچوں اور بیس بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، جبکہ برطانیہ میں ہر 20 بچوں میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے یہی نہیں کیتھولک مسیحیوں کا مرکز ویٹی کن سٹی یہاں کے پادری بھی بچوں کے ساتھ جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے۔

یہ بات مشاہدے کے طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے زیادہ افراد ان کے قریبی رشتہ دار شامل ہیں، اسی طرح مدرسین، قریبی محلہ دار بھی اس گھناؤنے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسے عناصر سے واقف نہیں ؟ کیا ایسے عناصر کو بے نقاب کرنا، ان سے اپنے بچوں کو دور رکھنا ہماری ذمہ داری نہیں؟ کیا ہم اکثر ایسے عناصر کو خود سے نظرانداز نہیں کرتے ؟ ہمارے ارد گرد ایسے شخص موجود ہیں جن کے اندر یہ جراثیم پائے جاتے ہیں مگر ہمارا ان کو نظرانداز کرنا ان کے حوصلے میں اضافے کا سبب بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتتے ہیں اور ہمارے بچے بڑے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ہم سب کو بحیثیت قوم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جو بچوں کے ساتھ زیادہ میل ملاپ رکھنا چاہتے ہیں، ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی جس کے بارے میں آپ کو شک گزرے کہ اس کی بچوں پر بری نظر ہے، ایسے افراد کے ساتھ بچوں کو نہیں بھیجنا چاہیے جن کے بارے میں رائے عامہ غلط ہو، اسی طرح مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے حوالے سے ان کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ ہفتہ وار اپنے بچے کو ایک گھنٹہ اپنے ساتھ بٹھائیں اوراس کے ساتھ مدرسے یا سکول کے ماحول، اساتذہ کے رویے سے متعلق دوستانہ لہجے میں سوالات کریں، اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کا بچہ ڈر رہا ہے، خاموش رہنے لگا ہے، چڑچڑا ہورہاہے تو اسے نظرانداز نہ کریں بلکہ فوری طور پر بچے کا مدرسہ یا سکول تبدیل کریں ، اگر ٹھوس ثبوت مل جائیں تو پولیس کو فوری اطلاع کریں ، اسی طرح ہمیں اپنے معاشرے کو ایسے عناصر کیلئے جہنم بنانا ہوگا ۔

وہ ایسے ہی ممکن ہے کہ جو افراد ایسی گھناونی حرکتیں کرتے نظر آئیں انہیں پولیس کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے، ان سے میل ملاپ ختم کیا جائے، اس شخص کو معاشرے میں تنہا کردیا جائے، ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی بنیادی تربیت کریں، تاکہ بچے خود بھی اس قابل ہوں کہ اگر کوئی انہیں ہراساں کرنا چاہے تو وہ فوری طور پر بغیر ہچکچاہٹ کے اپنے والدین کو بتائیں ، حکومت کو بھی چاہیے کہ بچوں کے جنسی استحصال کے خاتمے کیلئے سزائیں سخت اور بروقت دی جائیں، سکولوں کے اندر تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے اور مدارس کے حوالے سے قوانین مرتب کیے جائیں۔

اگر ہم بحیثیت قوم اپنے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو پاکستان میں آئندہ جنسی زیادتی کا کوئی کیس سامنے نہیں آئے گا مگر شرط یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ بچے ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں