The news is by your side.

صوبہ جنوبی پنجاب۔۔۔ پہلی خوشخبری آگئی

انتخابات2018سے قبل پاکستان تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی پریس کانفرنس پر عمل درآمد یوں تو حکومت کے پہلے 100 دن میں ہونا تھا مگر دیر آید درست آید کے مصداق قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کی آئینی ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی ۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی حق میں ووٹ دیا تاہم پاکستان مسلم لیگ ن نے خلاف بر توقع ایک کے بجائے دو صوبوں کا مطالبہ کردیا، گویا انہوں نے انتظامی لحاظ سے نئے صوبے بنانے کے لیے ہونی والی پہلی کاوش میں ہی رکاوٹ بننے کی کوشش کی ، جہاں تک مسلم لیگ ن کے نئے آنے والے مطالبے کا تعلق ہے وہ حقائق سے برخلاف ہے ،بہاولپور اور ملتان دو علیحدہ صوبے کا مطالبہ بچگانہ ہے، بہاولپوراب ماضی کی طرح وسیع و عریض ریاست نہیں ہے بلکہ تین اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن ہے ، جس کو بطور صوبہ چلانا ناممکن ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ مطالبہ کرنے کے بجائے لاہور ، فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژن پر مشتمل نئے صوبے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ تاہم بات اب چل نکلی ہے تو دور تلک جائے گی، 1969میں صوبہ بلوچستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک ہم صوبوں پر بحث کا آغاز نہیں کرسکے، یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اب کھل کر نئے یونٹس بنانے پر بحث و مباحثہ اور آئینی ترامیم کی راہ کھلی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں صوبے یا نئی ریاست بنانے کے کیلئے ریفرنڈم کا طریقہ رائج ہے، امریکہ کی11ریاستیں تھیں آج پچاس ہیں، جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ہی مثال لے لیں ، انہوں نے نئے صوبے بنانے کیلئے آسان طریقہ کار اپنارکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے وقت ان کے 11صوبے تھے اب ان کی تعداد29ہے، بھارت میں لوک سبھا میں سادہ اکثریت ملنے پر نیا صوبہ بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

تحریک انصاف کو آئینی بل کے بعد میں اب کئی پاپڑ بیلنے پڑیں گے، میری اطلاعات کے مطابق جلدی تحریک انصاف کی قیادت کو بھی نہیں ہے وہ اس کام کو اپنی حکومت کے چوتھے سال کے آخر تک مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ پنجاب میں ان کی اکثریت قائم رہے جو بمشکل حاصل کی گئی ہے، پنجاب کی انتظامی لحاظ سے تقسیم کے بعد صوبہ خیبرپختونخواہ میں صوبہ ہزارہ جبکہ سندھ میں کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالے سے بھی بحث زور پکڑے گی، تاہم نئے صوبے کے مطالبے کو لسانیت سے پاک رکھنا ہوگااور یہ عمل خالص انتظامی بنیادوں پر کیا جائے، انتظامی بنیادوں پر صوبے 4سے8بھی ہوجائیں تو اس سے فیڈریشن مضبوط ہوگی، عوام کیلئے عدل وانصاف کی فراہمی یقینی ہوگی۔

جیسا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے سے ڈی جی خان یا وزیراعلیٰ کے آبائی حلقے سے 8سے10گھنٹے کی مسافت طے کر کے پھر کسی کو لاہور نہیں آنا پڑے گا، بلکہ وہ اپنی قریبی مرکز ملتان ”ہائیکورٹ “ یا ڈی جی خان میں ہائیکورٹ بینچ میں اپنے مسائل کے لیے آسانی سے پہنچ پائے گا، نئے صوبوں کی عوام زیادہ خوشحال ہوں گی، صوبے کے وسائل وہیں خرچ ہوں گے اور پھر کوئی یہ شکوہ نہیں کرے گا کہ ملتان کا بجٹ لاہور میں خرچ کردیا گیا ہے۔

سب سے پہلے پنجاب کی تقسیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ 12کروڑ کی آبادی کو ایک صوبے کے تحت چلانا انتظامی طور پر کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ عوام کے ساتھ انتظامی ظلم ہے جو ستر سال سے جاری ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے شروع ہونے والا یہ سفر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گا اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی فائدے اور نقصان کی فکر کے بجائے قومی فائدے اور نقصان کی بات کریں گی اور جنوبی پنجاب صوبے کیلئے مکمل راہ ہموار کی جائے گی تاکہ آئندہ انتخابات میں پاکستان میں پانچ صوبوں کی اسمبلیوں کیلئے الیکشن ہوں اور مجھے امید ہے کہ سفر پانچ سے 8کی جانب بڑھے گا، جیسے جیسے شعور کے دریچے کھلیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں