The news is by your side.

پاکستان کے جنگلات – تباہی کے دہانے پر‘ سدباب کیسے ہو

جنگلات وہ خوب صورت و دلکش سبز غلاف ہیں جو کہ ماحول کی حفاظت کرتے ہیں۔ جانداروں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی فراہمی کے علاوہ جنگلات بہترین تفریح گاہ بھی ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں جنگلات معاشرے کی فلاح و بہبود اورمعاشی ترقی کے لئے بہت سودمند ہوتے ہیں اورزندگی کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔World Bank اور WWF کے مطابق دنیا کے 300 ملین افراد جنگلات میں رہائش پذیر ہیں اور 1.6بلین سے زائد لوگ اپنے ذریعہ معاش اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے لئے جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دنیا بھرمیں ہر سال 2کروڑ کے لگ بھگ درخت ایندھن اوردوسرے مقاصد کے لئے کاٹے جاتے ہیں جو کہ لمحہءفکریہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے عالمی غذائی ادارے (FAO) کے اندازے کے مطابق ہر سال جنگلات کی کٹائی کے باعث دنیا 1 لاکھ 30ہزارکلومیٹر جنگلات سے محروم ہوجاتی ہے جب کہ اشرف المخلوقات اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہر درخت انسان کے لئے آکسیجن سلنڈر کا درجہ رکھتا ہے جو ہمارے اردگردسے فضائی آلودگی جذب کرکے ہمیں صاف ستھری آکسیجن فراہم کرتا ہے۔

جنگلات ماحول کو درپیش کئی مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں مثلاًیہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدارکو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ یہ بہت زیادہ اور بہت کم بارش کے اثرات میں اعتدال پیدا کرتے ہیں اور پھر یہ جنگلات ہی ہیں جو قدرتی آبی راستوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور جو توانائی کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہیں اور زمین بردگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔

جنگلات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔عالمی بینک کے مطابق عالمی حدّت کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا 20فیصد تک جنگلات کی کٹائی کے باعث ہوتا ہے۔IUCN اور Global Partnership on Landscape Restoration کے مطابق ،”دنیا بھر میں 1ارب ہیکٹرز سے زائد ختم اور کٹے ہوئے جنگلات کی اراضی موجود ہے۔“جنگلات کو غیرماحول دوست انداز میں کاٹنے سے ماحولیاتی توازن خراب ہوتا ہے اور عالمی حدّت میں اضافے کے ساتھ ساتھ زراعت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔علاوہ ازیں لاکھوں کروڑوں لوگ ذریعہءمعاش سے محروم ہوجاتے ہیں،جنگلی حیات ختم ہونے لگتی ہے اور مویشیوں کو چارہ دستیاب نہیں ہوتا۔

پاکستان میں جنگلات غیریقینی کیفیت سے دوچار ہیں اورجنگلاتی وسائل بہت تیزی سے کم ہورہے ہیں کیوں کہ جنگلات کے ہزاروں درختوں کو ملک کے مختلف حصّوں میں بے دردی سے کاٹا جارہا ہے جس کی رفتار اب گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔WWFکے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 2.5فیصد ہے اور بد انتظامی اور غیر موثر پالیسیز بھی جنگلات کا رقبہ گھٹا رہی ہیں۔عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO)کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی سالانہ شرح 2.1فیصد ہے جو کہ ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جنگلات کے رقبے کے حوالے سے پاکستان کا نمبر110ہے۔وطنِ عزیز کے ساحلی علاقوں کو موسمی تبدیلی کے حوالے سے سازگار بنانے کے لئے WWFپاکستان نے اپنے Indus for All Program کے ذریعے سندھ کے ساحلی علاقوں میں 7,500ہیکٹرز پر تیمر کے درخت لگائے اور اپنے پراجیکٹ Climate Change in Coastal Areas of Pakistan کی مَد میں مزید 550 ہیکٹرز پر تیمر کے درخت لگائے۔ان شجر کاریوں کا مقصد موسمی تغیرات کے اثرات کو کم کرنا ہے۔

تاہم یہ سب اقدام ناکافی ہیں۔درختوں کی حفاظت کے لئے حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔بد قسمتی سے آبادی میں اضافہ ،ایندھن کی بڑھتی ہوئی طلب ، ریاستی جنگلات پر غاصبانہ قبضہ ،زراعت کے لئے استعمال ہونے والے غیرسائنسی طریقہءکار اور شعور و آگہی کی کمی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے پاکستان جنگلات سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی وزارتِ ماحولیات نے National Bank کی مالی مدد اور سندھ کے محکمہءجنگلات اور مقامی رضاکاروں کے تعاون سے کیٹی بندر کے ساحلی علاقے میں جنگلات میں اضافے کے لئے ایک دن میں 6لاکھ کے لگ بھگ پودے لگا کر ایک دن کی شجرکاری میں بھارت کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا تھا جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور ہمارے ملک کو ایسے ہی مثبت اقدام کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ملک کا Forest Coverبڑھانے میں کامیاب ہوسکیں۔اگر از سرِنوجنگلات کی دوبارہ تعمیر شروع نہ کی گئی تو پاکستان میلینیئم ڈیویلپمنٹ گول (MDG) کے تحت جنگلات کے رقبے میں اضافے کے بین الاقوامی معاہدے کو پوراکرنے میں ناکام رہے گا۔

جنگلات کی ماحولیاتی قدروقیمت سے متعلق عوام الناس کو بیدارکرنا بہت ضروری ہے اور اس بات کا احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ ہ درخت معاشی اہمیت کا حامل ہے اوراس کو کاٹنے سے ان کی روزی روٹی متاثر ہوسکتی ہے۔ جنگلات قدرتی اثاثہ ہیں اور فطرت کی طرف سے دیا ہوا ایک خوب صورت تحفہ ہیں ان کی ہرحال میں حفاظت کرنی چاہیئے کیوں کہ یہ نہ صرف GDP کا ایک خاص حصّہ تشکیل دیتے ہیں بلکہ خوراک، جائے پناہ، پانی اور ادویات جیسی بے شمار سہولتیں بھی مہیا کرتے ہیں لہٰذا ان کی قدر کرنی چاہیئے اور غیر قانونی جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لئے سخت حفاظتی اقدام اختیار کئے جائیں مزید یہ کہ ریاستی جنگلات کو زبردستی قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے آزاد کرایا جائے اور جنگلات کاری کی مہم چلائی جائے ۔اس کے علاوہ اگر شہری غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف اپنے قدرتی خزانے کو محفوظ کرنے کے لئے متحد ہو جائیں اور حکومت بھی موثر پالیسیاں نافذکرے تو پاکستان کےجنگلات کا رقبہ بڑھ سکتا ہے اور یہ خوش حالی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعلیمات میں بھی درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لئے فائدہ مند ہو جائیں اسی لئے مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔

(سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ،الجہاد فی الاسلام،دہلی1974،ص 227-231)۔

اس سے ہمارے مذہب میں درختوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں جنگلات کی کٹائی کا حل اُن قدرتی وسائل کو محفوظ بنانے کے راستوں کو تلاش کرنے میں ہے جو کاربن کے خاتمے اور انسانوں اور جنگلی حیات کے لئے قدرتی مسکن کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔تمام سطحوں پر درختوں کی غیر قانونی کٹائی پر نظر رکھنے کی اور متعلقہ قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان کو بھرپور قوت کے ساتھ نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مثالی سزائیں دی جانی چاہئیں کیوں کہ قدرتی وسائل کے خود غرضانہ استعمال کی بنی نوع انسان کو عادت ہوگئی ہے اور یہ عادت نہ صرف انسان کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ دوسری حیات اور ماحول کے لئے بھی سخت مضر ہے۔

کئی حکومتوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے درخت لگانے کو اپنے منصوبوں کا ایک بنیادی حصّہ بنالیاہے۔چین بھی درختوں کی عظیم سبز دیوار(Great Green Wall)تعمیر کررہاہے جو کہ مکمل ہونے کے بعد 400ملین ہیکٹرز پر مشتمل ہوگی ۔اگر کارپوریشنز دنیا کے جنگلات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو اتنی اہلیت بھی رکھتی ہیں کہ انہیں محفوظ کر سکیں۔کارپوریشنز جنگلات کی کٹائی کے مخالف پالیسیزلاگو کرسکتی ہیں تاکہ سپلائرز اور اسٹیک ہولڈرز اس طرح کام کریں کہ ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔اس کے علاوہ کارپوریشنز میں کاغذ کے صارفین کی کثیر تعداد ہوتی ہے، انتظامیہ اگر چاہے تو بغیر کاغذ کے بھی کام کرسکتی ہے وہ اس طرح کہ کاغذ کے ذریعے ہونے والے کام کو ای میل اور سافٹ کاپیز کے ذریعے کیا جائے اور اپنے ملازمین کو بھی Recycleکرنے کی تلقین کریں۔علاوہ ازیں حکومت اس قابل ہوتی ہے کہ جنگلات سے متعلق اولولعزم ،داخلی اور بین الاقوامی پالیسیز بنائے جس کے دور رس اثرات ہوں مزید یہ کہ جو درخت کاٹے جارہے ہیں ان کی جگہ نئے درخت لگائے جائیں۔اگرچہ ہر سال درخت لگائے جاتے ہیں پھر بھی اُن کی تعداد جتنے درخت کاٹے جا چکے ہیں ان کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔حکومت کے پاس ایسے وسائل بھی ہوتے ہیں کہ وہ جنگلات کی کٹائی کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو کام کرنے،اپنا پیغام پھیلانے اور اثر و رسوخ کے دائرہ کار کو بڑھانے کی اجازت دے۔یہ بھی جنگلات کو بچانے کا ایک بالواسطہ طریقہ ہے۔

انفرادی طور پر ہم بھی جنگلات کو بچانے کے لئے کوششیں کر سکتے ہیں ۔اگر ہم اپنے طرزِزندگی اور عادات کو تھوڑا بدل لیں یعنی چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لائیں اور ایسی چیزیں خریدیں جو دوبارہ استعمال ہوسکیں تو ہم بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ہر شخص یہاں تک کہ بچّوں کو بھی اس بات سے آگاہی ہونا ضروری ہے کہ چیزوں کوضائع کرنے کے بجائے انہیں دوبارہ استعمال میں لایا جائے۔ کاغذ کو پھینکنے کے بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ اگر یہ کسی بھی طرح دوبارہ قابلِ استعمال ہے تو اسے ضائع نہ کیا جائے۔اس کے علاوہ ہم ایسی چیزیں جو کہ Recyclable ہوں خرید کر کمپنیز کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایسی ہی مصنوعات بنایا کریں اور ہمارے جنگلات اور ماحول کو کم سے کم نقصان ہو، چیزیں کم ضائع ہوں اور نئی چیزوں کا بھی مطالبہ بھی کم ہو۔مزید یہ کہ زراعت کے لئے جدید طریقہءکاراورٹیکنالوجیز رائج کی جائیں اور جنگلاتیات اور جنگلی حیات کے شعبوں میں سیاسی مداخلت کم کی جائے۔اس کے ساتھ ہی جنگلات ،جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع (Biodiversity)کے وسائل کی پائیدار ترقی کے لئے دوسرے اداروں اور محکموں کو بھی بہتر بنایا جائے۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ اگر ہم خود اپنے آپ کو، اپنی عادتوں اور رہن سہن کے طور طریقوں کو نہیں بدلیں گے اور اپنی ذمّہ داریوں کو نہیں سمجھیں گے اور صرف حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہی موردِالزام ٹھہراتے رہیں گے تو نقصان ہمارا اپنا ہے اس لئے ہمیں بھی اپنے حصّے کا کام کرنا ہوگا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں