The news is by your side.

مہاتما گاندھی اورمذہبی سیاست

ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان سمیت خطے کے بیشتر ممالک اپنی تاریخ کے اہم اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، دہشت گردی،مذہبی منافرت اور عدم رواداری نے پورے خطے میں زندگی کے تقریباََ سارے شعبوں کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا ہے، ہمیں ان تاریخی حقائق اور وجوہات پر سے پردہ اٹھا نے کی ضرورت ہے ،جو بوجوہ یا تو ہمارے مصنفین، دانشوروں اور اخبار نویسوں کی آنکھوں سے بوجھل رہی یا پھر جان بوجھ کر ان پر پردہ ڈالاگیا ۔ویسے بھی ہمارے معاشرے میں تاریخ کو بحیثیت سائنس پڑھنے اور تاریخی حقائق پر بے لاگ اور پسند وناپسند سے بالاتر ہو کر تحقیق کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ گنے چنے دانشوروں نے تاریخی حقائق کو بیان کرنے کی جسارت کی تو وہ غدار اور لادینیت کے فتوؤں سے قابلِ گردن ز نی ٹہرے۔ حقائق سے شتر مرع کی طرح آنکھیں چرانے کی وجہ سے ہی آج ہم تباہی کے ایک ایسے غار کے دھانے کھڑے ہیں ، جہاں سے آگے تباہی ہی تباہی اور پیچھے ہٹنے کی یا تو کوشش ہی نہیں کرتے یا پھر پیچھے ہٹنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔

پاکستان ،افعانستا ن سمیت پورے خطے میں جاری اس عدم برداشت اور تخریب کاری و منافرت کو ابھی تک سطحی انداز سے دیکھا گیا اور مجموعی رائے یہ ہے کہ اس سب کے ذمہ دار ضیا الحق کے ظلم وبربریت پر مبنی حکومت ہے ۔یہ بات درست ہے کہ ضیاء کے دور میں مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج کو پہنچی لیکن اس کی جڑیں کافی پرانی ہے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس شدت پسندانہ سیاست کا آغاز 1918ء میں امن کے پیامبر کانگریسی سیاست دان مہاتماگاندھی نے کیا تھا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہمیں اس وقت کی  ہندوستانی سیاست اورخاص کر آل انڈیا نیشنل کانگریس،مسلم لیگ ،محمد علی جناح اور گاندھی کے سیاست اور سیاسی رتبے کو زیرِ بحث لانا ناگزیر ہے۔

بنیادی طورپر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی کیرئیر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا‘  اپنی قابلیت اور ذہانت وپرسنالٹی کے بل بوتے پر بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں وہ کانگریس میں بلند رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1910ء میں اپنی آئین میں بنیادی تبدیلی لائی اور پہلی مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس سے مل کر سیاسی جدجہد کرنے کی کوشش کی، 1912ء میں آل انڈیا مسلم کونسل کے اجلاس میں جناح کو جو کہ مسلم لیگ کا رکن نہیں تھےخصوصی طورپر مدعو کیا گیاتھا، اس اجلاس میں ان کی طرف سے متعدد تجاویز سامنے آئی جنہیں من وعن تسلیم کیا گیا ۔لیگی قیادت کی اصرار پر 1913ء میں مسٹر جناح مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، اور بیک وقت مسلم لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں کی رکن رہے۔

اس کے بعد انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے بھر پور کوشش شروع کی جس کا ثمر 1916ء میں ملا جب آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کا مشترکہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا اس اجلاس میں کانگریس نے مسلم لیگ کے بہت سارے مطالبات تسلیم کئے، اس کامیابی کے بعد محمد علی جناح کو انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کا خطاب ملااور یوں قائد اعظم کی شہرت ہندوستان بھر میں بلندیوں کو چھونے لگی ٹھیک اسی وقت جبکہ پہلی عالمی جنگ اپنے آخری مراحل میں تھے۔

حمزہ علوی کا شمار ان دانشوروں میں ہوتاہے جو کہ تاریخ کو طبقاتی نقطہ نظر سے جانچنے کے ساتھ بیسویں صدی کے ابتدائی اور وسطی دور میں ہندوستان میں وقوع پزیر ہونے والی واقعات کو باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا لکھتے ہیں’’ گاندھی اپنا سیاسی مقام بنانے کی کوشش کر رہے تھے ان کی تمام تر کوششوں کو دراصل اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ ان کا مطمعِ نظر دراصل اپنے لئے نئے سیاسی مقام کی تلاش تھی ‘‘ ۔(پروفیسرحمزہ علوی، تخلیق پاکستان صفحہ23)۔

مغلوں کے دور حکومت میں سرکاری زبان چونکہ فارسی اور عربی تھی اور جدید سائنسی وادبی علوم سرے سے ناپید تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور کے علماء کو بہت سارے اختیارات حاصل تھے ۔سیاست ،عدالتی معاملات ،تعلیم اور سماج مولویوں کے ہاتھ تھی، 1857ء کی بغاوت کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستان کی سیاست پر مکمل قبضہ جمانے کے بعد انگریزی قوانین اور زبان کو نافذ کیا، تو روایتی علما ء کا کردار معاشرے سے تقریباََ ختم ہو گیا بقول حمزہ علوی ’’ علما ء نہ صرف شدت سے انگریزی زبان اور حکمرانوں کے ثقافت کی مخالفت کی بلکہ انگریز حکومت کی بھی کلی طورپر مخالف ہو گئے ا س کے ساتھ ہی بڑی شدت سے پیشہ وروں، تنخواہ داروں اور ان مسلمان معلموں کی بھی مخالفت شروع کر دی جنہوں نے انگریزی زبان اور مغربی ثقافت کو اپنانا شروع کردیا تھا۔ علماء اور مولوی ابتدا میں شدت پسند تھے لیکن ان کو پسپائی اس وقت اٹھانا پڑی جب 1857ء کو قومی بغاوت کے اختتام پر انہیں ناکامی کے بعد مدرسوں تک محدود ہو نا پڑا‘‘ (حمزہ علوی، تخلیق پاکستان صفحہ9-10)۔

1857ء کی بغاوت سے لیکر 1918ء تک علماء کا سیاسی کردار نہ ہونے کے برابر رہا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد انگریزاو اتحادیوں نے ترکی کے حصے بخرے کئے تو عثمانی سلطنت کی ڈوبتی ہوتی کشتی کو بچانے کی غرض سے ہندوستانی علماء خلافت تحریک شروع کی ۔  ہندوستان میں خلافت کمیٹیاں تشکیل دے کر خلافت تحریک کا آغاز ہوایہ تحریک اس وقت بام عروج کو پہنچی جب  گاندھی نے اس کی قیادت شروع کی ہندوستانی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے لئے گاندھی جیسے چالاک وکیل ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھےاو ر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس ساری تحریک کے سپہ سالار بن گئے ’’گاندھی کے اپنے قول کے مطابق وہ اس تحریک کے آمربن گئے تھے تحریک کے دیگر اکابرین بشمول عبدالباری فرنگی محل،انصاری،شوکت علی اور محمد علی گاندھی سے راہنمائی اور ہدایت لیتے تھے ۔یہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہوگا کہ اس تحریک میں گاندھی کے کردار کا جائزہ لیا جائے جو کہ اس تحریک کے لئے پیربن گئے تھے‘‘‘(حمزہ علوی،تخلیق پاکستان صفحہ 23)۔

1918ء سے لیکر 1924ء تک جاری رہنے والی خلافت تحریک نے نہ صرف گاندھی کی سیاسی کیرئیر کو عروج تک پہنچایا بلکہ علماء کو بھی متحد کرکے ہندوستانی سیاست میں اپنے پنجے گاڑھنے کا موقع دیا ۔یہی نہیں انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کے بعدجو روشن خیالی کا دور شروع ہوا تھا ،خلافت تحریک نے اس کے سامنے دوبارہ ماضی پرست اور رجعتی نظریات کو لاکھڑا کیا۔ شائد مسلم لیگ اور جناح کے ابھرتے ہوئے کردار کو زائل کر کے ہندوستان کی آزادی کا بلاشرکت غیر سپہ سالار بننے کے لئے گاندھی جی نے علماء کو الگ سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیاتھا۔ ’’گاندھی کی اس تحریک(خلافت تحریک)نے مسلم لیگ کے سیکولر قیادت کو شدید دھچکا پہنچایا اسکے بدلے مولویوں کو سیاست کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا ۔ گاندھی نے مولویوں کو 1919ء میں علیٰحدہ جماعت ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کے نام سے قائم کرنے میں بھی مدد کی‘‘۔(حمزہ علوی،تخلیقِ پاکستان صفحہ 23)۔

خلافت تحریک انگریزوں اور بعد کے جدید ہندوستانی اصلاح پسندوں کے ہاتھوں شکست خوردہ علماء کو دوبارہ سیاست میں لے آئے جوں جوں وہ سیاست کے رموز واوقاف کو سمجھتے ہوئے اپنے مفادات کی تحفظ میں کامیاب ہوئے اسکے ساتھ ہی ان میں شدت پسندی اور عدم رواداری بھی اسی تناسب سے بڑھتی رہی عمومی طورپر مختلف مکتبہ فکر کے علما ء کبھی بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے لیکن جہاں ان سب کے مفادات پر آنچ آنے کا خدشہ پیدا ہوجائے ،فوراََ سب ملکر’’ اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں کودتے ہیں ۔1918ء سے لیکر 1947ء تک کے عرصے میں چار مذہبی جماعتیں جمعیت علمائے ہند،جماعت اسلامی ،مجلس احرار اور بعد میں مسلم لیگی لیڈرشپ کی ایماء پر 1946ء میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیادڈالی گئی۔

اول الذکر تینوں مقبول جماعتیں قائد اعظم ،مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی کھلم کھلا مخالفت کررہے تھے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے مفادات مسلم لیگ کے ساتھ تھی، یہی وجہ ہے کہ اس غیر معروف مذہبی جماعت کی قیادت  نےمذہب کے تناظر میں تحریک پاکستان کو جائز قرار دیا۔جماعت اسلامی اور اس کے بانی امیر مولانا مودودی کی پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق فرمودات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن اگست 1947ء کے بٹورے کے بعد یہی مودودی لاہور آکر مقیم ہوگئے اور پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے میں سرگرمِ عمل ہوگئے۔  50ء کی دہائی میں احمدیوں کے قتل عام کے وقت سارے علما ء متفق ہو کر اس عمل کو جہاد قراردیا۔ لیکن حمود الرحمن کمیشن کو انٹرویودیتے ہوئے ان میں سے کسی نے بھی اسلامی ریاست کی کسی متفقہ تعریف اور آئیڈل اسلامی حکوت پر متفق نظر نہیں آئے ۔جونہی ملک میں نو سال کی طویل انتظار اور سیاسی بلیک میلنگ کے بعد1956ء کا آئین نافذ ہوا تو ایکدم سے اس آئین کو اسلامی آئین کا نام دیا گیا ۔1962ء میں ایوب خان نے صدارتی آئین نافذکرکے اس آئین میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سے لفظ اسلامی کو حذف کر کے ملک کا آئینی نام عوامی جمہوریہ پاکستان رکھا تو تب سارے علماء دوبارہ متفق ہو کر میدان میں کود پڑے اور ہر طرف شور مچا کہ’’ اسلام خطرے میں ہے ‘‘۔

ایوب خان جیسے آمر نے بھی علماء کے سامنے ہتھیار ڈال کرملک کانام دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا ۔ 1971ء کے بنگالی علیٰحدگی پسندتحریک کو کچلتے وقت دوبارہ اسی ہی نعرے کو لے کرجماعت اسلامی البدر اور الشمس کی مدد سے علیٰحدگی پسندبنگالیوں کے قتل عام کو جہاد قراردیا۔ جب1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف امریکی ڈالروں کے عوض  پی این اے  کی تحریک چلی تب بھی اپنے مفادات کے لئے علماء ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اسی طرح جرنیل ضیاء الحق کے دور میں جب افعانستان کی سر زمین کو دو ہاتھیوں (امریکہ اور روس )نے میدان جنگ کیلئے چنا، تو ضیا الحق کے تعاون سے یہی مذہبی جماعتیں اپنے کارکنون کو فوجی ٹریننگ دیتے ہوئے جہاد کانام دے لر افعانستان بھیجتے رہے ۔جنہوں نے پہلے افعانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اگلے مرحلے میں پاکستان کی جانب متوجہ ہوگئے جنہوں نے اسی  ہزار سے زائد  پاکستانیوں کا خون بہایا۔

مالاکنڈ ڈویژن اور سوات وغیرہ میں طالبانائزیشن تو متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں شروع ہوئی جس نے پورے نظام کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا اب بھی مذہبی جماعتیں ان درندوں کی حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔دراصل جس مذہبی تحریک اور مذہبی سیاست کی بنیاد مہاتما گاندھی نے 1918ء میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے رکھا تھا اس کا خمیازہ آج بھی پاکستان ،بنگلہ دیش اور افعانستان سمیت پورا خطہ بھگت رہاہے۔

(ا س مضمون کی تیاری میں نامور دانشورومحقق حمزہ علوی کی کتاب تخلیق پاکستان (تاریخی وسماجی مباحث)ترجمہ ڈاکٹر ریاض شیخ سے مدد لی گئی )۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں