عقیدت کی وسعت سمندر سے زیادہ گہری ہوتی ہے اور جب بات تصوف کی ہو تو عقیدت رضائے الٰہی کی معراج سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگ جاتی ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں پہلے بھی کئی اولیائے کرام تشریف لائے اور انہوں نے بڑی محنت وجا نفشانی سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی مگر ان کی رہمنائی صرف سندھ‘ ملتان یا لاہور تک ہی رہی مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی خدمات کو ان پر فضلیت حاصل ہے۔ آپ سلسلہ چشتیہ کے برگزیدہ بزرگ تھے اور آپ نے اپنی کوششوں کی بنیاد شریعت کی پابندی رکھی ان کے نزدیک کسی بزرگ کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ ان کی کوئی بات بھی شریعت کے خلاف نہ ہو۔
عقیدت مندوں کے اس ولی کا ذکر اس عظیم شعر سے کرنا چاہوں گا اس ولی کامل نے اپنی عقیدت کے مقام جو کہ سرکار دوعالم ﷺکی طرف جاتا ہے رسول اللہﷺ اور ان کی آل کی محبت کو نہایت کو پر اثر انداز سے دنیا کے سامنے اجاگر کیا
شاہ است حسین ؓبادشاہ است حسین ؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سرداد نداد دست در دست یزید
حقاکہ بنائے لااللہ است حسین ؓ
ہردور میں حکم خداوندی سے نیک اور عبادات گزارولیوں نے اشاعت اسلام کے لئے اپنی بھی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ جس کی بدولت آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ان بزرگان دین کی اہمیت روز اول کی طرح آج بھی کشف وکرامات جاری وساری ہیں۔سرزمین ہندوستان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے سرزمین کواولیاء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اور یہاں اولیاء اکرام کے شہنشاہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے جلیل القدر بزرگ کامزارہے۔
خالق کا ئنات رب العالمین نے انسانیت کے محسن اعظم ، ہادی رحمت مجسم رسول اللہﷺ کی امت میں ہردور میں ایسے افرادمبعوث فرمائے جنہیں اللہ نے اپنے خصوصی انعام واکرام سے نوازا اور ان سے امت کی ظاہری وباطنی اصلاح کابندوبست فرمایا۔ انہیں برگزیدہ ہستیوں میں سے حضرت خواجہ معین الدین ؒ چشتی کا نام بھی آتاہے۔
آپ والد کا اسم گرامی غیاث الدین حسن ؒ اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ ام الورع بی بی تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی شادی 590ء ہجری 1194کو بی بی امت کے ساتھ ہوئی آپ کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ آپ کے پیر ومرشدحضرت خواجہ شیخ عثمان ہارونی سے آپ کو بہت محبت اور عقیدت تھی۔ اس کی محبت اور عقیدت کودیکھ کرخواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو (امیرتبرک ) کے شرف سے نوازاآپ کو اپنا سجادہ نشین مقررفرمایا۔
خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے اپنے گفتار اور اپنے کردار سے ایک معیاری زندگی کانمونہ پیش کیا۔ وہ عشق الہیٰ میں ایسے سرمست وسرشارتھے ان کو اپنی ہستی کاپتہ نہیں تھا۔ تسلیم رضا، امیدوبیم، توکل وقناعت ، محبت واخوت،خلوص وخدمت، فقروفاقہ، ایثارواستقامت، افکار۔ا پنی زندگی وموت، فتح وشکست، اپنے سوزوساز کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔
پاک وہندکے اولیاء اکرام،صوفیائے، عظام ؒ میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو سب سے منفرداوربلند مقام حاصل ہے۔ آپ کو نائب الرسول فی الہندﷺ کے عظیم لقب سے بھی یادکیاجاتاہے۔آپ کی مکمل زندگی نکات طریقت کا دفینہ تھی حقیقت ومعرفت کاآئینہ تھی معرفت الہیہ کاسرچشمہ تھی۔ انہوں نے اپنی روحانی طاقت سے اپنا ایثارخلوص اور رواداری سے ایک نئے سماج کی تشکیل کی۔اجمیر راجھستان کی راجھستانی سے 130کلومیٹرکا فاصلے پر نیشنل ہائی آرٹ اورتراولی پہاڑی کے خوبصورت دامن میں واقع ہے۔
بغداد سے واپسی پر خواجہ غریب نواز ؒ 1156ء عیسوی میں حرم شریف پہنچے خواجہ عثمانی ہارونی نے آپ کا ہاتھ پکڑکر دعا کی اللہ تعالیٰ کی منظوری آئی کہ (ہم نے معین الدین ) کو قبول کیا۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کے مریدوں کے بارے میں کچھ کے نام تاریخ میں آتے ہیں۔ سب سے پہلے مریداور سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا نام آتاہے۔ باقی مریدو ں کے نام یہ ہیں۔ خواجہ فخر الدین ؒ ، خواجہ محمدیادگارچشتی ؒ، خواجہ علاؤالدین نیلی چشتی ؒ ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغؒ۔
خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی ؒ سے منسوب تصانیف، اورعملی نگارشات کو تذکرہ نویسوں سے یوں شمارکیاہے۔ انیس الارواح، حدیث المعارف، کشف الاسرار، گنج الاسرار، رسالہ آداب، سیر العارفین، مسالک الساکین، مرقعہ خواجگان ، اورمراۃ الاسرارشامل ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے عقیدت مندوں کی زبان پر ایک شعرضرورہوتاہے۔
الٰہی تابود خورشید وماہی
چراغ چشتیہ راوروشنائی
اے اللہ تعالیٰ جب تک چاند اور سورج کی روشنی باقی ہے سلسلہ چشتیہ کے چراغ کوروشن رکھ۔
آپ کاوصال 6رجب 632ھ مطابق 1236بروز پیرنماز عشاء کے بعد ہوا۔ آج بھی آپ کا پاک وہند میں عقیدت واحترام سے منایاجاتاہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر چلنے کی اور پیر مرشد کی طرز فکر کو اپنانے وعام کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)۔