یہ بات قابل فہم ہے کہ ہمارے ہاں چھپنے والی متعدد کتابیں پاکستانی نقطہ نظر اور ہمارے سوچ کے زاویے کی نمائندگی کرتی ہیں البتہ ان میں بعض کتابیں مخصوص ایجنڈے کے تحت لکھی جاتی ہیں اور جبکہ بعض کے پیچھے مختلف این جی اوز کی فنانشل سپورٹ اور غیر ملکی تھنک ٹینکس کی مالی معاونت جیسے محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح مغرب میں بھی چھپنے والی کتب ایک خاض زاویہ، ہدف اور مخصوص ایجنڈا رکھتی ہیں۔ لہٰذا چند روز قبل مارکیٹ میں آنے والی ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’کنٹریکٹر‘ بھی اسی تناظر میں ایک آزاد تجزیے کی متقاضی ہے۔ واضح رہے کہ آج کی دنیا میں سچ بھی مفت میں نہیں ملتا اس کی بھی ایک قیمت ضرور ہوتی ہے۔مگر نجانے کیوں ریمنڈ ڈیوس کا سچ ’کنٹر یکٹر‘ مفت میں کیوں سوشل میڈیا پر دستیاب ہے؟ اور پبلش ہونے سے پہلے ہی یہ کتاب کیسے دنیا بھر میں پھیل گئی؟ اس کتاب کا پی ڈی ایف فارمیٹ جاری کر کے اس کتاب کی مارکیٹ کو کیوں نقصان پہنچایا گیا؟یہ وہ چند سوالات ہیں جو آئندہ دنوں میں زیرِبحث رہیں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کے تعارف کے لئے کئی الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں جن میں امریکی کنٹریکٹر، جاسوس یا سفارتک ار کے علاوہ بلیک واٹر کا ایجنٹ قابل ذکر ہیں۔ موصوف تقریباً 6 سال قبل جنوری سنہ2011ء میں 2 پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر نے کے بعد فرار ہونے کی کوشش میں پاکستانی حکام کی جانب سے زیرِ حراست لیا گیاتھا۔ جس کے بعد امریکی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استحقاق حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عدالتوں میں اس پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ مگر پھر بھی یہ معاملہ تقریباً ڈیرھ ماہ تک پاکستانی عدالتوں اور میڈیا کی زینت بنا رہا مگر آخرکار شرعی انصاف کے سائے تلے بذریعہ’’دیت‘‘ یہ معاملہ رفع دفع کرا دیا گیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب کے ذریعےاپنی رہائی میں کردار ادا کرنے والے لوگوں کے نام آشکار کیے ہیں جس سے اب ایک نیا پنڈورابکس کھل گیا ہے۔تنقید کا رخ بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کی جانب ہےتاہم بنیادی ہدف آصف زرداری، جنرل شجاع پاشا اور جنرل کیانی ہیں۔ اسی کتاب کی آڑ میں ایک بار پھر پاکستان کے دفاع کی ضامن ادارے’آئی ایس آئی‘پر تابڑ توڑ حملے کیے جا رہے ہیں۔ نجانے کیسے یہ لوگ پھر سے بھول گئے کہ اسی آئی ایس ائی کی بدولت امریکہ اس خطے میں اپنے مقاصد پورے نہیں کر پایا۔ حقانی نیٹ ورک کو نیست ونابود کرنا اور طالبان قیادت و نیٹ ورک کو غیر فعال بنانا، وہ خواب ہیں جو کئی امریکی صدور و جرنیل دیکھتے رہے مگر یہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے۔ اور وہ اس کا ملبہ پاکستان پر’’ڈومور کے مطالبے‘‘ کے ذریعے ڈالتے رہے۔اور امریکی میڈیا یہ تاثر قائم کرتا رہا کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کر کے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس تھی اور وہ یہ کہ امریکہ اپنے تمام تر وسائل اور جدید فوج کے باوجود طالبان کو افغانستان میں شکست نہیں دے پایا، بلکہ اسے بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
امریکہ افغانستان میں اپنی مبینہ کوتاہیوں کو چھپانے اور عالمی میڈیا کی توجہ افغانستان سے ہٹانے کے لئے بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے ٹھیکیداروں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرتا رہا۔اور عالمی میڈیا میں پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ مگر تب بھی پاکستان کی یہی آئی ایس آئی تھی جو اس سپر پاور کے خطرناک ایجنڈے کے خلاف کھڑی رہی اور جو کہ ہرگز معمولی بات نہیں۔ جس کا واضح ثبوت امریکی و سول قیادت کے شکوےو طعنے ہیں جو اس بات کی مضبوط دلیل ہیں کہ پاکستان ٹھیک کام کر رہا ہے اور کر رہا تھا۔ کیونکہ کبھی کبھی دشمن قوتوں کی تلملاہٹ آپ کی کامیابی کی نوید سناتی ہے۔ جس کا سہرا یقینی طور پر ہماری آئی ایس آئی کے ان گمنام ہیروز کے سر ہے جو اب ہم میں نہیں اور آج جن کا نام کوئی نہیں جانتا۔
بلا شبہ ریمنڈ ڈیوس کیس آج بدترین مس ہینڈلنگ کاشاہکار سمجھا جاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کیس کی بدولت ہمارے اداروں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ پاکستان میں امریکی ایجنسی سی آئی اے کی بچھائی گئی بساط لپیٹ دی گئی۔ بلیک واٹر کا نیٹ ورک پاکستان سے ختم کر دیا گیا اس کے ٹھیکیداروں کو پاکستان سے نکلنا پڑا۔ مگربدقسمتی سے اس سب کے ساتھ ساتھ اس وقت میڈیا ہائپ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔اور جس کی بدولت پاکستانی عوام کی توقعات بڑھیں اور نتیجتاً صدمہ بھی اسی قدر شدید ہوا جب ریمنڈ ڈیوس کو ایک ڈیل کی نتیجے میں پاکستان سے اڑنچھو کرا دیا گیا۔
بہرحال، ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے بعد ہمارے سابق اور موجودہ حکام کی جانب سے ان کا موقف ضرور سامنے آنا چاہیئے۔ کیونکہ ہم کسی صورت بھی (ہمارے2 معصوم نوجوانوں کے قاتل)ریمنڈڈیوس کی باتوں میں آکر اپنے اعلیٰ اداروں کے خلاف رچی جانے والی مبینہ سازش کا حصہ نہیں بن سکتے۔ علاوہ ازیں ریمنڈ ڈیوس قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متنازعہ شخصیت کا مالک بھی سمجھا جاتا ہے جو کہ سنہ 2011ء سے نشے کا عادی بتایا جاتا ہے اور جس نے دو بار خودکشی کی کوشش بھی کی نیز اس پر امریکہ میں دو پولیس کیسز بھی ہیں۔ایسے میں کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ سنگین سماجی و معاشی مسائل سے دوچار ریمنڈ ڈیوس کو 6 سال بعد اچانک سے کتاب لکھنے کی کیا سوجی؟نیزقرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب مفت میں کیوں سوشل میڈیا پر دی؟اسے تو پیسوں کی اس وقت اشد ضرورت تھی نا؟
ان تمام تر اہم نکات کے باوجود چند عقل کے اندھے سوشل میڈیا پراس کتاب کی آڑ لے کر ہمارے عسکری اداروں پر ایک بار پھر سے وار کر رہےہیں اور سونے پر سہاگہ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب کو سچ کا مرقع بنا کر بطور حوالہ پیش کررہےہیں۔جو کہ ایک نہایت خطرناک امرہے۔المختصر اس کتاب کے ذریعے پھیلنے والے زہر کا فوری طور پر سدِباب اب صرف اور صرف ہمارے موجودہ اور سابق حکام کے چپ کے روزے کو توڑنے سے ہی ممکن ہو سکتاہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں۔