اس کی عمرستر پچھتر سال کے درمیان تھی ‘ جسم دبلا پتلا ‘ قد لمبا ‘ سر پے سفید بالوں کا گچھا جس میں کہیں کہیں کوئی پرانی لگائی مہدی کا رنگ بھی نظر آجاتا،سردی ہو یا گرمی ایک ہی پرانی شلوار قمیض پہنے جس میں کہیں کہیں پیوند لگے ہوتے،لمبے سوکھے بازوں میں ایک چاندی کی اور دو تین پرانی کانچ کی چوڑیاں، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پہنی لال سبز سستے سے پتھر جڑے انگوٹھیاں کے جن کوصاف کئے شاید مدت بیت گئی ہواور نام عید و جیسے ہم مائی عیدو کہے کرپکارا کرتے تھے۔
ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھاکہ مائی عیدو تمھارا نام عیدو کیوں ہے تو کہنے لگی بیٹا میں عید والے دن پیدا ہوئی تھی اس لئے میری ماں نے میرا نام عیدو رکھ دیا۔وہ میرے گاوں مرالی والہ کی رہنے والی تھی جبکہ ہماری رہائش گوجرانولہ کے پوش علاقہ کی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب پوش علاقوں میں بھی کسی ایک آدھ گھرمیں ہی ٹیلویژن تھااورکھاتے پیتے گھروں میں ریڈیو ہونا بھی غنیمت سمجھا جاتا تھا۔
مجھے ہمیشہ مائی عیدو کے میلے کچلے کپڑوں انگوٹھیوں چوڑیوں سے کراہت سی محسوس ہوتی لیکن جب بھی وہ گاوں سے آتی تو یہ میرے بچپن کے انتہائی خوشگوار اور دلچسیوں سے بھرپور لحموں میں سے ایک ہوتا۔اور اس دلچسپی کی وجہ وہ کہانیاں تھیں جو کہ ہم بہن بھائی اس سے سنا کرتے۔بعض اوقات وہ کافی دن نہ آتی تو والد صاحب خصوصاً ہماری فرمائش پے اسے کسی ملازم کے ہاتھ پیغام بھجواتے خصوصاً ہمارے لئےبلواتے۔ مائی عیدو کی کہانیاں کسی طلسم ہوشربا سے کم نہ تھی گل بکاؤلی کی کہانی، اس جن کی کہانی جس نے ایک شہزادی کو قید کر رکھا تھا لیکن اس کی اپنی جان ایک طوطے میں تھی، اس اڑن قالین کاذکر جس پے ایک جادوگر سفر کرتا، اس جنگجو کی داستان جس نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت اپنے دشمن فوج پر تلوار چلاتا رہے گا جب تک خون اس کے گھوڑے کی رکاب تک نہ آجائے اور چارپائی کے چار پایوں کی کہانیاں کہ ہر پایا اپنی کہانی سناتا کہ کیا کیا جگ بیتی اس کے سامنے بیتی لیکن تین پائیوں کہ بعد جب بھی ہم اس سے کہتے کہ چوتھے کی آپ بیتی تو مائی عیدو تم نے سنائی ہی نہیں تو اس کا جواب ہوتا وہ مجھے یاد نہیں چوتھے پائے کی کہانی یاد نہ ہونے کی بات مجھے اکثر غمگین کردیتی۔
کہانی سنانے کے کچھ طور طریقے بھی ہوتے تھے۔جن میں ایک یہ تھا کہ کہانی دن کو نہیں سنانا۔کبھی جو میں ضد کرتا کہ مجھے دن کے وقت کہانی سناؤ تو اس کا جواب ہوتا کہ بیٹا دن کے وقت اگر کوئی کہانی سنے تو اس کا ماموں گھر کا راستہ بھول جاتا ہے اور میرا معصوم ذہن اپنے تین ماموؤں کی جانب چلاجاتا جو کہ لائل پور میں رہا کرتے تھے تصور ہی تصور میں ان کو کسی بازار میں پریشان پھرتے دیکھتا اور میں سہم کر خاموش ہوجاتا اور رات کا انتظار کرنے لگتا میری نگاہیں مسلسل مائی عیدو کا تعاقب کرتی رہتیں،کھانا کھانے سے لیکر حقہ کی چلم بھرنے تک۔ اسے حقہ پینے کی عادت تھی سرشام ہی وہ حقہ تیار کرنا شروع کردیتی۔ ہمارے منشی صاحب کے پاس سے حقہ لے کر آتی گڑاور تمباکھوپچھلے سٹور کی بوریوں سے لیتی اور بھینس کے اوپلوں کوجلا کر آگ دہکاتی یہاں تک رات کے آٹھ بج جاتے اور پھر وہ اپنے بستر میں جا بیٹھتی ہم سب بہن بھائی بھی اس کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے۔
کہانی شروع کرنے سے پہلے وہ ایک بات ضرور کیا کرتی کہ جب وہ کہانی سنائے تو تم میں سے کوئی ایک ہردو تین فقروں کے بعدہنکارہ ضرور دے،یعنی ہاں، پھر کیا ہوا وغیرہ وغیرہ ورنہ وہ کہانی سنانا بند کردے گی۔اب ہم کہانی کے لئے ہمہ تن گوش ہوجاتے ‘ مائی عیدوحقہ کے دو تین لمبے کش لگاتی،اس کی نظریں اوپرکمرے کی چھت کو گھورنے لگتیں جیسے اپنی یادیوں کے خزانے سے کچھ تلاش کررہی ہو،پھر اچانک اس کی آنکھیوں میں ایک چمک پیدا ہوتی چہرے پر ایک ایسا اطمنان آجاتا جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔اب ہماری طرف منہ کرکے کہانی شروع کردیتی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بہت نیک بادشاہ حکومت کرتاتھا جس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اس کی پوری کہانی کے دوران کیا مجال جو کوئی آنکھیں بھی جھپکے یا جمائی بھی لے۔ کہانی ختم ہونے پر ہم اگر دوسری کہانی سنانے کا کہتے تو کبھی کبھار کوئی مختصر کہانی بھی سنادیا کرتی لیکن عام طور پر اگلی رات یا پھر کسی دوسرے دن کا کہہ کرہمیں سونے کا کہتی دوسری طرف امی کا بھییجا ہوا نوکر بھی سر پے کھڑا ہوتا کہ وہ سونے کے لئے بلارہی ہیں۔
پہلے پہل وہ سال میں تین چار مرتبہ آجایا کرتی تھی لیکن پھر اس کاآنا کم ہوگیا۔ زمانے نے کروٹ لی دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر میں ٹی وی آگیا۔ شام چھ بجے سے رات دس بجے تک ٹی وی کی نشریات ہوتیں بچوں کے کارٹون ‘ پاپائے دی سیلر‘ مکی ماؤس‘ اور انگریزی فلمیں سٹار ٹریک، ایڈونچرز آف بلیک بیوٹی،سکپی دی بش کینگرو نے مائی عیدو کی کہانیوں کو لاشعور میں دکھیلنا شروع کردیا۔
اس پرمستزاد یہ کہ پانچویں کلاس میں جاتے ہی اردو بھی لکھنی پڑھنی آگئی، میں نے مقبول جہانگیر کا ترجمہ کیا ہوا ایک ناول ان دیکھی دنیا پڑھ ڈالابس پھر کیا تھا‘ میری الماری میں ناولوں کے ڈھیر لگ گئے۔حکایت اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ بھی آتے تھے ان سے بھی اپنی دلچسپی کے مضامین یا کہانیاں تلاش کرکے پڑھ لیا کرتا،پھر کلاس کاہوم ورک اور تعلیمی نصاب بھی بھاری ہوتا جارہا تھا غرض پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا کی ریڈیو کے بعد دوسری نسل ٹی وی نے میرے خیالوں خواب سے مائی عیدو کو مٹانا شروع کردیا لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ وہ پھر آگئی میری والدہ سے کہنے لگی کی اب تو چھوٹے سردارمیرے سے کہانیاں ہی نہیں سنتے اس لئے میں نہیں آتی۔
میں نے دل رکھنے کے لئے کہہ دیا کہ اماں آج تم سے ضرور سنو ں گا ‘چناچہ رات کو کہانی سننے بیٹھا تو میں اکیلا ہی تھا۔ مائی عیدو نے کہانی شروع کی یہ کہانی وہ کئی دفعہ سناچکی تھی جس سے میں بور ہونے لگاپھر میرا ذہن بھی دوسرے کمرے سے آنے والی ٹی وی پرلگی کسی انگریزی فلم کے تھرل میوزک میں پھنسا ہوا تھا،ابھی آدھی کہانی بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس نے بھی میری عدم دلچسپی کو بھانپ لیا کہنے لگی بیٹا مجھے نیند آرہی ہے باقی کہانی کل سناؤگی، میں نے موقع غنیمت جانا اور جاکر کسی بحری قزاق پر بنی مووی دیکھتے دیکھتے سو گیا،صبح اٹھا تو سکول چلا گیا واپسی پرکسی سے ہی سناکہ مائی عیدو چلی گئی۔ اس رات کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
مائی عیدو ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردارجس کو گزرے زمانے کی دھول اور جدید ٹیکنالوجی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا ۔ ریڈیو، ٹی وی،ڈش چینلز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور شوشل میڈیانے ایسے کئی کرداروں کو ہی نہیں بلکہ ادب اور فنون لطیفہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ آج کوئی پائے کا شاعر افسانہ نگار، موسیقار، گائیک یا دانشور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ ہاں اگریہ ٹیکنالوجی کسی چیزکا کچھ نہ بگاڑ سکی تو وہ ہے انتہاپسندی، ضعیف الاعتقادی، جہالت بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان میں اضافہ کی وجہ بنی جس کا نظارہ ہم روز کسی نہ کسی صورت میں دیکھتے ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں