موت ہو تو شہادت کی ہو ورنہ نہ ہو! مادر وطن پر شہید ہونے والے جوانوں پر ہم سب نعرے بھی لگاتے ہیں۔ خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ شہید میرا باپ ‘ بیٹا یا محبوب شوہر ہو تو۔۔۔ایسی دعا سوچتے ہوئے بھی میں سو بار کانپوں اور اس دعا کی قبولیت سے پہلے میں سو بار مر جانا چاہوں۔ شہادتیں صرف منایا جانا آسان ہے ‘ ا ن پر سیمینار کرنے اور ان کے لیے نغمے گانے یا پھول چڑھانا آسان ہے ۔جب کسی شہید کا لاشہ اپنے گھر میں آ تا ہے تو خبر ہوتی ہے کہ کس قدر بھاری اور جان لیوا ہوتی ہیں یہ قربانیاں! جس ملک میں ان پڑھ ،کرپٹ اور نااہل لوگ حکمران ہوں اور سرحدوں پر ملک کے بہترین دماغ،بہترین تربیت اور قابلیت کے ساتھ اپنے سینے پر گولیاں کھا رہے ہو تو پلڑے کا ان جوانوں کی جانب جھکنا ضرور بنتا ہے۔
جب اعلی ٰدماغوں کو بد دیانت،بدکردار اور گٹھیا کرداروں کے سامنے سلامی دینی پڑے تو سوال بھی اٹھتا ہے اور اس کا جواب بھی بنتا ہے۔قانون‘ آئین اور نظام کے قواعد و قوانین اپنے جگہ مگر یہ کونسا قانون ہے جس کی رو سے جاہل کو عالم کی قیادت سونپ دی جائے ،بزدل کو بہادر کا راہ رو بنا دیا جاے،اور اندھے کو بینا کا راہبر بنا دیا جاے،ایسا ہو گا تو سوال تو اٹھیں گے۔کیا یہ ہمارے نبی ﷺ کا قول نہیں کہ اہل علم اور بے علم برابر نہیں ۔برابر نہیں تو شہدائے وطن اور نااہل برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ خاک آسمانوں پر کیسے چڑھ سکتی ہے۔
پچھلے ایک سال سے جس طرح پوری پاکستانی قوم کی آنکھوں میں مٹھیاں بھر بھر کر دھول جھونکی جا رہی ہے،کالے کو گورا اور گورے کو کالا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ‘ قوم کے شعور اور احساس کے ساتھ ایک بے ہودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔اور غضب تو یہ کہ قومی اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے بھی یہ جھوٹ اس قدر بے حیائی سے بولے جا رہے ہیں کہ انسان منہ میں انگلیاں داب لےاور غیض وغصب سے اپنی ہی انگلیاں کھا جائے ۔اسی دن کے لیے کبھی بھی پاکستانی قوم کے تعلیم اور شعور کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ جب بھی ضرورت پڑے‘ کوے کو کبوتر اور کبوتر کو کرگس بنا کر پیش کیا جا سکے۔
دو پلیٹ بریانی‘ ایک کیک کا ٹکرا کھا کر عوام مہر لگا دیا کرے اور اور ہر کالا گورا دکھنے کے بعد بھی عوام نعرے انہی کے لگائے!کب اس قوم کو یہ شعور مل سکے گا کہ ان کے ساتھ کیسے کیسے مذاق ہوتے رہے ،کیسے کیسے جوتے پڑتے رہے ان کی پیٹھ پر،کب انہیں یہ ادراک ہو کہ ان کے گھر کی بھوک ،ان کے آنگن کی بیماریاں ،ان کے کنبے کی جہالت اور زندگیوں کی مسکینی ‘ان کی قسمت نہیں ان پر ہونے والے ظلم کی معراج تھا۔
اور ایک مسلمان سے زیادہ اپنے حاکم کا گریبان پکڑنے کا حق اور کسی مذہب نے انسان کو نہیں دیا۔عوام کو یہ شعور نہ مل جائے ‘ اسی لیے سکولوں میں وڈیروں کے جانور باندھے جاتے رہتے ہیں ، رشوت اور سفارش پر نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے جو الف ب پڑھانے سے آگے دو ٹکے کا شعور نہیں دے پاتے۔
ہر حکومت میں ہزار طرح کی قانون سازی ہوتی ہے جو ہر طرف سے گھوم گھما کر صرف اربابِ اختیار کے گھروں تک اپنی تاثیر پہنچا پاتی ہے مگر تعلیم اور تعلیم نظام پر اتنی دہائیوں پر چند ایک کے سوا کسی نے دھیان نہ دیا۔کسی نے سکول بنا دیا کسی نے کتاب پکڑا دی،کیا پڑھنا ہے کیا سکھانا ہے کیسی نسل تعمیر کی جاے گی اس فیکٹری میں کونسا مال بنے گا اس نظام اور اس مقام پر کبھی کسی نے کان نہ دھرے۔
اسی لائحہ عملی کا صلہ ہے کہ آج ایک بددیانت،نااہل،ان پڑھ شخص بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی صدارت کر سکتا ہے ۔ساری دنیا کے ممالک میں پڑھے لکھے ذہین لوگ سیاست میں آتے ہیں اور ان میں سے قابل ترین لوگ وزارتوں اور قیادت کے اہل بنتے ہیں ۔ کیا صرف پاکستانیوں کا ہی نصیب ہے کہ ان کی قیادت نااہل اور بددیانت، بے ضمیر اور کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں ہوں۔
اگر تین شہید دے کر ایک جماعت کی تین نسلیں حکمراں بن سکتی ہیں تو پھر ایک سال میں سو سے زیادہ قربانیاں دینے والی فوج پھر فوج کو ہی حقِ ھکمرانی کیوں نہ سونپ دیا جائے؟۔جہاں ایک منظم نظام‘ ایک تعلیم یافتہ‘پڑھی لکھی باشعور اور تربیت یافتہ عوام کی افراط ہے بہ نسبت ہماری جمہوری جماعتوں کے کہ جن کے ہاں بددیانتی اور بے ایمان ساجھے گاموں کے سوا اور کچھ نہیں۔اور اگر جو کبھی ان ساجھوں گاموں سے سے پڑھا لکھا نکلتا بھی ہے تو وہ بھی ایسا صاحب ِکردار نکلتا ہے کہ کرپٹ مافیا کو جھک جھک سلام کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکمرانی طاقت ور کا ہی حق ہے تو پھر یہ حق سب سے زیادہ فوج کے پاس ہی جاتا ہے۔کب تک یہ جھوٹ کے کاروبار کرنے والے سورج کی طرف منہ کر کے تھوکتے رہیں گے۔اگر طاقتور کو لگام ہی ڈالنی ہو تو اس کے لیے قابلیت اور لیاقت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔بہادری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمت سے بڑا ہتھیار کوئی نہیں۔اکہتر سالوں سے فوج نے ایک ادارے کے طور پر جتنی قابل سے قابل نسلیں اور کیسے کیسے بہادر نام جنم دیے ہے۔اور پچھلے اکہتر ہی سالوں سے اس پارلیمانی نظام نے کتنی ایماندار،دیانت دار اور فرض شناس قیادتیں پیدا کی ہیں؟ تو پھر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ پھر اس سمت میں جاتا ہوا نظام کیا کبھی کسی میٹھا پھل لا بھی سکے گا کہ نہیں۔
قانونِ قدرت ہے کہ پانی ہمیشہ پستی کی طرف جاتا ہے۔جب تک سیاسی میدان میں قابل اور اہل لوگوں کی قیادت اور ایماندار اور دیانتدار لوگوں کا ہجوم نہیں ہو گا تب تک یہ نظام اور یہ نااہل سیاستدان کچلے جاتے رہیں گے۔اس لیے نہیں کہ فوج ظالم تھی اس لیے کہ آپ خود کو ان سے زیادہ اہل تو کیا انکے برابر بھی ثابت نہ کر سکے۔پھر کس منہ سے منہ بھر بھر آپ فوج جیسے قابل ادارے کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں دستار خود آپ کی گلی سڑی نکلی۔
سوال یہ بھی ہے کہ فوج میں بیٹھے ہزاروں تعلیم یافتہ تربیت یافتہ افسران کی بے چینی کی وجہ بنتی ہے جب ان کی ہتھیلی پر رکھی جانوں کا نذرانہ ان کرپٹ اور ناہل لوگوں کی حفاظت اور تحفظ کی نذر ہو جاتا ہے۔اور ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ جب تک جمہوری قوتیں اپنے اخلاق،کردار اور اعمال کو اس دھرتی کے لیے ان فوجیوں سے زیادہ وقف نہ کر دیں ،ان سے زیادہ اہل شعور اور اہل علم نہ ہو جائیں،اور ان کی ایمانداری اور دیانتداری ایک ایک فوجی سے آگے نہ بڑھ جائے‘آپ کا اس ادارے کو للکارنے کا کوی حق نہیں۔محض بے شعور عوام کے سروں کے ہجوم کے ساتھ آپ اہل شعور کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ہرا نہیں سکتے۔ایک سیانی نگاہ اور چند لوگوں کا شعور اکثر اپنی برکت سے ہزاروں کی جہالت پر بھاری پڑ جاتا ہے۔یہی قانونِ فطرت بھی ہے یہی نظام دنیا بھی ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
صوفیہ کاشف ابو ظہبی میں مقیم ہیں اور مختلف اخبار ات اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لیے لکھتی ہیں‘ اس کے علاوہ عکاسی کا شغف رکھتی ہیں