نیویارک ٹائمز کی آج کی اشاعت میں ایک بہت اہم رپورٹ شائع ہوئی ہے جس نے انڈین آرمی کو بہت قدیم اور پسماندہ قرار دیا اور اس کی سٹریٹجک پاور اور اسلحہ جات کو بوگس اورناکام قرار دیتے ہوئے اس کے پرانے جہازوں ،بڑی فوج کے ساتھ قدیم اسلحہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔جلد ہی یہ خبر دھڑا دھڑ ہر نیوز چینل اور ہر صحافی کی وال پر دھڑا دھڑ پھیلنے لگی تا کہ تمام پاکستانیوں کو اس بات کی خبر اور خوشخبری دے دی جائے کہ دنیا پر ہماری برتری ثابت ہو گئی ہے۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ بھارت اور بھارت کے پیچھے موجود ہماری پوشیدہ دشمن طاقتوں کے لئے ایک شٹ اپ کال چلے گئی ہےاور ان پر یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان کسی کے لئے بھی ایک تر نوالہ نہیں ۔مگر اس ناکامی اور کمزوری کی ایک کھلے عام تصدیق کی بنا پر بھارت اپنے طاقتور دوستوں کے سامنے ان کے حصے کی جنگ لڑنے والا ایک مظلوم سپاہی بھی ثابت ہو گیا جسے ان ساری طاقتوں کے اسلحہ جات میں ،فنڈز میں اور وسائل میں شدید مدد کی ضرورت ہے ۔
انڈیا کے پیچھے سے چلنے والی بندوقوں کو یہ بھی اندازہ ہوا کہ اور کتنا اس ہاتھی کو کھلایا جائے گا تو یہ کام کے قابل بنے گا۔سٹار پلس کے ڈراموں اور گھر گھر میں سازشیں سکھانے والا انڈیا کیا یہ نہیں جانتا کہ وہ اس سارے عمل سے کیا فایدہ حاصل کر سکتا ہے؟ایسا نہیں ہے! انڈین عوام،آرمی اور حکمران کی سوچ یقینی طور پر اس بنیے کی ہے جس کے لئے پگڑی سر کے اوپر رکھی جائے یا پیروں میں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا جب تک جانیں سلامت ہیں اور فوائد جاری ہیں۔بلکہ ان کے لئے یہ عین ایک سروائیول کی حکمت عملی ہے۔تو اگر تھوڑی سے دھول چاٹنے کے جواب میں اس کے لئے مزید امداد اور جدید اسلحہ کی ترسیل ممکن ہو جاتی ہے تو یہ بھارت کے حق میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
اگرچہ تھوڑی سی جگہ ہنسائی ہوئی مگر بدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا؟ڈاگ فائٹ میں ہونے والی اپنی بے بسی اور بیچارگی کا رونا نریندر مودی نے اپنے خطاب میں بھی خوب رویا ہے اور عوام کو یہ احساس بھی دلایا ہے کہ انکی فوج کی معاشی حالت خاصی کمزور ہے اس لئے ان کے ان روتے ہوے فوجیوں اور انکے خاندانوں کو خموش رہنے کی ضرورت ہے جو ہر وقت سوشل میڈیا پر خوراک کی کمی یا سہولتوں کی عدم دستیابی کا رونا روتے رہتے ہیں۔تو دوسری طرف اس نے انڈین دماغ کو اس بات پر بھی تیار کر لیا کہ انڈین آرمی کے بجٹ کو مزید بڑھانے اور جدید تر اسلحہ خریدنے کی ضرورت ہے۔اب بھارتی فوج کے پاس جذبہ شہادت ہو نہ ہو لیکن امریکہ اور اسرائیل کے جدید تر اسلحہ کی کھلی سپلائی خطے کے لئے بہرحال ایک خطرہ بن کر رہے گی۔
اسی بات کو ذرا مختلف اینگل سے دیکھا جائے تو چند دن پہلے تک ہر جگہ فوج کو گالیاں دینے والے ،ان کی فرصت اور فراغت کا رونا رونے والوں اور انکے بجٹ کو کم کرنے کی دہائیاں دینے والوں کے لئے بھی یہ ایک کھلا سبق ہے کہ کیا ان تمام مطالبات سے وہ اپنی فوج کو یعنی اپنے دفاع کو اس لیول پر لانا چاہتے ہیں جس لیول پر آج انڈیا کی فوج کھڑی ہے۔جبکہ ایسی صورتحال میں کہ انڈیا کی گرتی دیوار کو دھکا لگا کر کھڑے ہونے والے بہت ملک ہیں جبکہ ہماری دیوار پر ہاتھ سوائے ایک ترکی کے اور کسی نے نہ رکھا۔آج یہی فوج جو بقول کچھ دانشوروں کے، فارغ بیٹھ کر سہولتیں لیتی ہے ، اگر اس کا بجٹ آپ کاٹ دیتے تو کیا اتنے سکون سے اپنے گھروں میں آپ سب سو لیتے جس طرح سے سکون سے پچھلی کچھ راتیں آپ نے گزاری ہیں؟۔
انڈیا کی میڈیا وار کی بات کی جائے تو ایک بات دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے۔کہ انڈین میڈیا چاہے جتنا بھی جھوٹ بولے سچ تو یہ ہے کہ اس کی آواز دور تک سنی جاتی ہے۔صرف عرب ممالک میں انڈیا کے بچوں کی نشریات سے لیکر فلموں ڈراموں تک ہزاروں چینلز عربی ترجمے کے ساتھ دن رات چلتے ہیں جن پر انڈین میڈیا سے پاکستان کے خلاف بننے والا ہر مواد عربی زبان میں صبح شام ایک دوائی کی طرح انڈیلا جاتا ہے۔جبکہ یہاں پر ایک بھی پاکستانی چینل نہیں جو عرب عوام تک اپنی آواز عربی میں پہنچا سکے۔
اگر عرب لوگ شاہ رخ خان یا کرینہ کپور کے دیوانے ہیں تو اس کی وجہ وہی دن رات عربی میں چلنے والے انڈین ڈرامےاور فلمیں ہیں۔یہی حال یقینا یورپ اور امریکہ کا بھی ہو گا۔تو ہمارا میڈیا جتنا چاہے سچ بولے جب تک دوسرے خطے کے لوگوں تک، ان کی عوام تک،ایک غیر اردو فرد تک اپنا سچ نہیں پہنچا پاتا اپنے کھلے تسموں میں ہی الجھ کر بیٹھا رہے گا جبکہ انڈیا کا جھوٹ منٹوں میں ہر ملک کے ہر گھر میں پہنچا دیا جاتا ہے۔میڈیا وار اور پراپیگنڈہ آج کی دنیا کا ایک بہت اہم حصہ ہے اور پاکستانی میڈیا بھی اس بات کی اہمیت جانتا ہے۔مگر ضرورت یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈا محض اپنی عوام پر کرنے کی بجائے باہر کی دنیا کے سامنے بھی انکی زبان میں حقائق رکھے جائیں تب ہی جا سکتی ہے سچ کی آواز دور تک اور ہر کان تک۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ انڈیا کی ہزمیت سے سبق سیکھا جائے اور دشمن کو کسی بھی صورت میں کمتر نہ لیا جائے۔آج کا کمزور کل کی طاقت بھی بن سکتی ہے۔اس لئے پاکستانی عوام کو انڈین طرز عمل کی نقل کرنے،بڑھکیں مارنے،سوشل میڈیا پر للکارنے سے پرہیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔شیخ سعدی نے کہا تھا کہ اگر ڈھینچنے سے گھر بنتے تو گدھا کئی گھر بنا لیتا۔ یاد رکھیں چیخنا چلانا ،نعرے مارنا،بڑکیں لگانا آپ کی اس انرجی کا بیکار ضیاع ہے جو کی ضرورت آپ کو کبھی بھی پڑ سکتی ہے۔پاکستانی عوام کو ضرورت ہے کہ وہ اسے ایک طاقت کی طرح استعمال کریں نہ کہ بڑھکیں لگا لگا کر اپنی طاقت کا ضیاع کریں۔آج جو بھی اچھا ہوا خدا کی رحمت سے ہوا۔ کل بھی اللہ ہی اپنا رحم کرے گا اور اس آنے والے کل کے لئے تیار رہنا ہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔