The news is by your side.

کیا گائے بھارتی کی’لوک سبھا ‘ میں جگہ پائے گی؟

دنیا کی نام نہاد جمہوری سیکولر ملک کہلانے والے ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی کی بنا پرپہلا قتل اپنے ہی ہم مذہب موہن چند گاندھی کا تھا جیسے ایک انتہا پسند ہندو تنظیم اکالی بھارتیہ ہندو مھاسبا کےکارکن نتھوررام نے گولی مار کے ہلاک کردیا تھا۔ اس نے اپنے اقبالی بیان میں صاف طور پر کہا کہ گاندھی کی مسلم دوستی کی وجہ سے میں نے یہ کام کیا ۔یقیناً گاندھی ایک بڑا لیڈر اور سیاستدان تھا اور اس کے بیانات اس کی سیاسی حکمت عملی کی عکاسی کرتے تھے۔ یہ بیانات مسلمانوں کے حق میں کس حد تک موثر ہوتے یہ تو خیر آنے والا وقت ہی بتاتا ۔ لیکن ہندو انتہا پسند نئے آزاد ہوئےملک پرہندوازم کی اجاراداری کیلئے اپنے دانت کھٹے کررہے تھے۔ وہ پورے ہندوستان کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اب ہندوستان ہندوں کا ہے اور دوسری اقلیتوں کی حثیت تیسرے درجے کے شہری سے بھی زیادہ نہیں ہوگی اور ان اقلیتوں کی بات کرنے والے کا وہی انجام ہوگا جو کہ گاندھی کا ہوا ۔

برصغیر پر مسلمانوں کے اقتدار کا دورانیہ سات سو سال بنتا ہے جب کہ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر براہِ راست تاج برطانیہ کے زیر تسلط رہا جبکہ اس دوران ہندوستان میں ہندو کبھی بھی اپنی ایک خود مختار حکومت قائم نہ کرسکے ۔صدیوں کی اس غلامی کے بعد جیسے ہی ہندوستان آزاد ہوتا ہے ان انتہا پسند ہندوں نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کر دیے لیکن اس میں انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوسکی جس کی وجوہات میں ہندوستان کے ایک کثیرالمذہبی ، لسانی اور نسلی ہونا ہے دوسری جانب آزادی کے بعد تقریباً پچاس سال سے زیادہ عرصہ حکومت انڈین نیشنل کانگریس کی رہی جو کہ ایک سیکولر مائنڈ اور سوشلزم نظریات کی حامل جماعت تھی کشمیر ‘ پنجاب ‘ناگا لینڈ اور کئی دیگر ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں نے بھی ہندوازم کو دبائے رکھا جس قدر ہندو انتہا پسند بڑھتی اتنی ہی ان تحریکیں کو بھی پھلنے پھولنے کا اخلاقی جوز ملتا تھا۔

ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سر اٹھانے کا موقع اس وقت ملا جب موجودہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کا چیف منسٹر تھا۔ ہندؤں نے ہندو کردار رام کی جنم بھومی کا بہانہ بنا کربابری مسجد کو شہید کردیا ۔بابری مسجد کی شہادت نے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلوں کو اور بڑھایا اور پھر نریندر مودی کی گجرات حکومت میں ہونے والے فسادات نے اس انتہا پسندی کو اس قدر بڑھاوا دیا کہ مودی اپنی سیاست کو اس نہج پر لے گیا کہ وہ ہندوستان کا وزیراعطم منتخب ہوگیا ۔ نریندر مودی کی ساری سیاست مسلم دشمنی کے گرد گھومتی ہے اور اس کے دور میں ہندؤں کو پورا موقع دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو بزور طاقت حکومتی سرپرستی میں نافذ کرسکیں۔ مدعا بابری مسجد سے شروع ہوا اور اب گاؤماتا کی رکھشا تک آپہنچا ہے۔ اس مدعے کو اٹھانے کا مقصد بھی مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کرنا اور سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔

گاؤ ماتا کی رکھشا کی خاطر دیوانے پن میں آج کے ہندوستان نے قرون وسطیٰکے یورپ کے سیاہ دور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ فرق یہ ہے کہ اُس دور میں اگر کوئی پالتو جانور جیسے گائے بکری وغیرہ اپنے مالک کو ٹکر مار دیتی تو پادری کے کہنے پر انہیں اس شک پر زندہ جلادیا جاتا تھا کہ ان میں بدروح حلول کر گئی ہے جبکہ آج اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اس کے برعکس ایک بےزبان جانور کے نام پر انسانوں کی قربانی لی جارہی ہیں۔ جس کا سب سے بڑا نشانہ بھی مسلمان ہی بن رہے ہیں پچھلے ایک سال میں تقریباً پچیس سے زائد مسلمانوں کو اس شک یا افواہ کی بنیاد پر ہجوم کے ہاتھوں سرےعام مارنے جانے کی اطلاع ہے کہ انہوں نے بڑا گوشت کھایا، سٹور کیا یا پھر وہ گائے کو لے کر جارہے تھے ۔

کئی ریاستوں میں تو ہندوستان بننے کے ساتھ ہی گائے کو ذبح کرنے کی پابندی تھی تاہم موجودہ دور میں اس کو مزید ریاستوں تک بڑھا دیا گیا ہے ۔ اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں بھی تجویز کردی گئی ہیں۔ آ ئیں اب ذرا انڈین قانون ساز اداروں کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ گائے کو لے کر وہاں کیا چل رہا ہے۔ مغربی ریاست راجستھان کی ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے ۔ اس ریاست میں گاو ٔکشی کی سزا دس سال ہے ۔

اسی ہائی کورٹ نے اپنی ریاستی اسمبلی سے بھی سفارش کی ہے کہ اس سزا کو عمر قید میں بدلا دیا جائے ۔ ادھر وفاقی حکومت میں گائے کو باقاعدہ ایک شخصیت کا درجہ دینے کی تیاری بھی کی جارہی ہے بالکل جیسے انسانوں کا بائیو میٹرک ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے اب ہر گائے کی ایک علیحدہ پہچان ہوگی شناختی کارڈ ہوگا یہ تو ابھی خبر نہیں کہ ان کے فنگر پرنٹ لیے جاسکیں گے یا صرف تصویر پر گزارا کیا جائے گا۔ شنید یہ ہے کہ ان کی آنکھیں سکین کرکے ہر ایک گائے کو علیحدہ پہچان دی جائے گی۔ ایسا نہ صرف پالتو بلکہ آوارہ گائے بچھڑے بھی اس حق سے محروم نہیں رہیں گے ۔ یہ اقدام اس لیے کیے جارہے ہیں کہ بنگلہ دیش اور کچھ دوسرے ممالک میں جو گائے اسمگل ہوجاتیں ہیں ان کو روکا جاسکے ۔

جو گائے ہندوستان میں پانچ چھ ہزار کی ہے وہ بنگلہ دیش میں جاکر پچیس تیس ہزار کی بکتی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی سرحد سے بیس کلومیٹر دورہندوستان کی حدود میں کسی بھی قسم کی مویشی منڈی لگانے کی بھی اجازت نہیں ۔ ادھر دلی میں ہر نان ویجیٹیرین پراڈکٹ کو کھلے عام نہ بیچنے کا قانون بھی بنایا جارہا ہے۔ یعنی ایسی کوئی بھی چیز جس میں گوشت کا استعمال ہو وہ سرِعام نہیں بیچی جاسکے گی۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے روز بروز گاؤ رکھشأ کے ضمن میں نئے سے نئے مطالبے زور پڑکتے جارہے ہیں اور مودی سرکار بھی اپنے خفیہ ایجنڈے کے تحت کبھی بھی ان مطالبوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بنے گی جو کہ صرف یہ ہے کہ گاؤ رکھشا کے پسِ پشت مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھائی جائے اور ہندو ووٹ کارڈ پورے کا پورے اپنے پلڑے میں کیش کروایا جائے۔

چناچہ مودی گورنمنٹ میں جو عزت وتوقیر گائے کو دی جارہی ہے لگتا ہے کہ کسی روز ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آجائے کہ گائے کو ممبر پارلیمنٹ ہونا چاہئے اور اس کے لئے پارلیمنٹ میں جگہ بھی مخصوص کی جائے اگر ایسا ہوا ، تو کسی روز پارلیمنٹ میں کسی خالی جگہ پرکھونٹے پر گائے بطور رکن پالیمنٹ کھڑی ہوگی اور کوئی بڑی بات نہیں کہ کسی مسلم سکھ یا عیسائی رکن پالیمنٹ کو جا ٹکر مارے اور ہندو انتہا پسند اسے دیوتاؤں کی سزا قرار دے کر پارلیمنٹ کے باہر اور اندر مٹھائیاں بانٹیں اور اگر رکن پارلیمنٹ کوئی ہندو ہوا تو اسے مبارکباد دیں کہ اس کی تو مکتی ہوگئی یعنی وہ تو بخشا گیا۔ لیکن ابھی کہانی یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی ، بندر جسے ہندو میتھالوجی میں ہنومان ، ہاتھی جیسے گنیش مہاراج اور کوبرا سانپ جیسے ناگ دیوتا کہا جاتا ہے کا مدعا اٹھانا باقی ہے۔ پھر سوچیے کہ گاندھی جی کے اس دیس میں ان بے زبان جانوروں کی کیا جے جے کار ہوگی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں