زینب قتل کیس نے پاکستان کے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا اور بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے۔ایسے ہی کچھ سوالات کے جوابات ہم اس تحریر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ایک سوال جو کہ بہت زیادہ اٹھایا جارہا ہے کہ زینب قتل کیس میں ایسی کون سی بات تھی کیا کہ یہ اتنا زیادہ ہائی لائٹ ہوا حالانکہ دوسری گیارہ کیس بھی تو اسی شہر میں ہوئے تھے؟۔
اس کا جواب میں اس دن سے آغاز کرتے ہیں جس دن یہ پہلی دفعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ۔مجھے یاد ہے کہ صبح کے ناشتے کے بعد میں نے جب انٹر نیٹ کھولا تو ٹویٹر اور فیس بک پر مجھے ایک بہت ہی معصوم سی پیاری بچی کی تصویر نظر آئی اس کے چہرے پر ایک ایسی معصومیت تھی کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر آپ اس تصویر کو دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اس کا چہرہ عام سا چہرہ نہیں تھا ۔ایسے چہرے کبھی بھی عام نہیں ہوتے ان کی ذہانت ان کے چہرے سے عیاں ہوجاتی ہے۔ ایسی بچیوں کا مستقبل ان کی پیشانی سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بڑی ہوکر کوئی عام انسان نہیں ہوں گی بلکہ وہ ارفع کریم ‘ ملالہ یوسف ز ئی ‘ رتھ فاؤ یا اپنی فیلڈ کی بے مثال شخصیت بنیں گی۔
ان میں ایک خاص قائدانہ صلاحیت کی تصویر نظر آرہی ہوتی ہے جس میں ان کے مستقبل کی تاب ناکی ہوتی ہے۔ میرا اس تصویر کے متعلق پہلے تاثر یہ تھا کہ پاکستان کی ایک اور بیٹی نے کوئی ایسا کارنامہ اس چھوٹی عمر میں کردیا ہے کہ اس کی تصویر فیس بک ٹویٹر کے لئے آج کا سب سے بڑا ٹرینڈ بنے گی اسی تجسس میں میں نے ایک تصویر کا لنک کھولا اور پڑھنا شروع کیا لیکن جوں جوں میں پڑھتا گیا مجھے ایسا لگا کہ پوری دنیا میرے لئے بے معنی سی ہوگئی ہے۔دل سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اپنے جذبات پر کیسے قابو پاؤں۔ ذہن کو بار بار جھٹکتا تھا ایسا نہیں ہوسکتا کوئی شخص اتنا بے رحم ظالم بھی ہوسکتا۔ بس نہیں چلتا تھا کہ اس کا قاتل پکڑا جائے اور میں اس کی لاش کو پھانسی پر لٹکتا دیکھوں۔
امید ہے کہ ایسا ہی ردعمل ہر دردمند انسان کا ہوا ہوگا سو اب آپ کو اس سوال کا جواب تو مل ہی گیا کہ زینب کوئی عام لڑکی نہیں۔ اس کی تصویر سے اس کی پر وقار اور بے مثال شخصیت کی کشش جھلک رہی تھی جس نے معاشرے کے ہر فرد کو ہلا کر رکھ دیا تھااور اور یوں یہ کیس اس شدت کے ساتھ ہائی لائٹ ہوا کہ صرف پاکستان سےایک دن میں پانچ لاکھ افراد نے اس پر ٹویٹ کی ۔ جبکہ اس دن یہ ٹویٹر ٹرینڈ میں دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر رہا۔
ایک اور سوال جو انتہائی اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا زینب کے اس سفاکانہ قتل نے معاشرہ کی مجموعی سوچ کو تبدیل کیا ؟۔
زینب کی موت نے پورے ملک میں ایک سوگوار سی کیفیت پیدا کردی ۔بڑے دل گردے والے لوگوں کی آنکھوں میں بھی میں نے اس دن آنسو دبے دیکھے اور دل کے رونے کی آوازیں سنتا رہا۔ شوبز سے وابستہ لوگ جن کو ہم ہمیشہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے جذبات کو کنٹرول پر خاص ملکہ رکھتے ہیں‘ ان کو چینلز سکرین پربلک بلک کر روتے دیکھا۔ اینکر پرسنز‘ رپورٹرز وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کش حملوں کی رپورٹنگ کرتی ہوئے بھی آواز میں لرزش نہیں آنے دیتے‘ وہ سب یوں روتے تھے کہ جیسے یہ بچی کوئی غیر نہیں تھی ‘ابھی ان کے پاس کھیلتی ہوئی کہیں دور نکل گئی تھی اور پھر یوں مردہ حالت میں ملی کہ یقین نہ آرہا ہو۔ یہ زینب کی لاش تھی جس نے دیگر گیارہ بچیوں کے کیسزکو بھی زندہ کردیا۔
اس کی موت نے معاشرے کے ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا‘ دن رات سیاسی بحثیں کرنے والے بھی سب کچھ بھول کر صرف مجرم کی فوری گرفتاری اور اس کی عبرتناک سزا کے لیے بے تاب نظر آتے تھے ۔ معاشرے میں ایسی بے چینی ایک دفعہ میں نے اس دن دیکھی تھی جس دن اے پی ایس پشاور کا واقعہ ہوا تھا یا پھر اس دن دیکھی جب یہ کیس سامنے آیا ۔ لیکن اے پی ایس والے واقعے میں ہمیں اپنا دشمن سامنے نظر آرہا تھا اور اس سے ہم یہ ہی توقع رکھتے تھے لیکن یہ تو کوئی غیر نہیں تھا اسی معاشرہ کا ایک ایسا فرد تھا۔ زینب کی موت نے نشاندہی کی کہ ہماری سوسائٹی اندر سے اتنی کمزور اور بے بس کہ ہم ظلم ہوتا دیکھتے ہیں لیکن اسے روکنا تو درکنار اس پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔
اس کی موت نے اس حساس معاملے پرمعاشرہ کے ہر طبقے کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ان جنسی درندوں سے اپنے بچوں کو بچانا ہے تو انہیں ایجوکیٹ کرنا پڑے گا ۔ جس بات پر ہمیں کھل کر بات کرنے سے گھبراتے تھے‘ اب اس جھجھک کو پش پشت ڈال کر ان پھول سی کلیوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرنا پڑے گا۔ قانون سازی‘ تعلیم‘ مناسب آگاہی اور اداروں کی کارکردگی کو بہتر کرکے اس برائی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ عام طور پر جب کوئی بھی معاشرتی تبدیلی آتی ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوتی ہے اور اس معاملے کے متعلق کچھ طبقہ فکر کے لوگ جن کا اس ایشو سے مفاد وابسطہ ہوتا ہے‘ دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زینب کے قتل نے ہماری معاشرتی سوچ کو یک دم تبدیل کرکے رکھ دیا اور اس بات کو باور کروایا کہ اب بچوں پر زیادتی کے ایشو پر چپ نہیں رہا جاسکتا ۔ اور واقعی جب سے یہ کیس سامنے آیا ہے سوشل میڈیا سے لے کر ایک پسماندہ علاقہ کے پرائمری سکول کی ٹیچر تک نے اس پر کھل کر بات کی جوکہ معاشرے کی مجموعی سوچ میں تبدیلی کی نشاندہی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ اب لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل رہا ہے۔ اب وہ ایک نئے رخ سے بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے معاملات کی روک تھام کے لیے سوچ رہے ہیں۔