تحریر : تحسین عزیز
کیا آپ نے کبھی سمندر کو اداس دیکھا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سمندر گم صم ہے، وہ اپنی لہریں ساحل کی طرف پھینک تو رہا ہے، لیکن نہایت بے دلی سے. آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی بے چین ہیں، ان کی متلاشی نظریں زمین پر بکھرے ہوئے انسانوں کے سمندر میں ایک شخص کو تلاش کر رہی ہیں، جو ہر سال اس کنارے آتا ہے اور ان پرندوں سے باتیں کرتا ہے، ان کی بولیا ں سمجھتا ہے.
ساحل اداس تھا کے سمندر اداس تھا
لگتا تھا جیسے سارا منظر اداس تھا
بیچ لگژری ہوٹل کا وہ کمرا بھی اداس ہے، جس کی ایک کھڑکی کا رخ پانیوں کی جانب ہے، اس کمرے کا ایک مکین جو ہر سال ان مخصوص دنوں میں یہاں قیام پذیر ہوتا ہے اور بے شمار ملاقاتیوں سے، اپنی تحریروں کے اسیروں سے، ملاقات کے بعد فراغت کے لمحات میں وہ اس کھڑکی سے سمندر کی طرف دیکھتا رہتا ہے، کیوں کے پانیوں سے اس کا رشتہ اور محبت پرانی ہے، چاہے وہ سندھ دریا کے پانی ہوں، جو بشام کے مقام پر آکر خوبصورت ترین منظر پیش کرتے ہوں یا سوئٹزرلینڈ کی وہ جھیل ہو، جہاں اس کے نوخیز جذبوں کا اولین میدان سرسبز ہوا تھا یا یاک سرائے کے ٹریک پر دریائے شین کا وہ ڈیتھ پوائنٹ، جہاں اسے لگا تھا کہ وہ جیب میں محفوظ اپنی بچوں کی تصویر آخری دفعہ دیکھ رہا ہے.
مرگ کی قربت ہو یا زیست کی روانی، دونوں صورتوں میں سمندر کا اس کی زندگی اور زندگی سے بھر پورتحریروں میں عمل دخل رہا ہے، اور اسی طرح پرندوں کا بھی، پانی موت اور پرندے آپ کو اس کی تحریروں کا خاصہ نظر آئیں گے، تو کیا پھر سمندر اور پرندوں کا اس کی غیر موجودگی میں اداس نظر آنا خلاف فطرت تھا؟
کراچی لٹریچر فیسٹول ہمیشہ کی طرح آباد تھا، سمندر کنارے واقع اس شہر کو لوگ جو علم دوستی کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں، جوق در جوق یہاں کا رخ کر رہے تھے، اگرچہ ان میں سے لاتعداد ایسے بھی تھے کے جنہوں نے سنا کے اس دفعہ تارڑ کو نہیں آنا ہے، اس دفعہ سفر کا ارادہ موقوف ہے، حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ سمندر کنار ے آباد اس شہرمیں بے شمار لوگ ہیں، جو اپنے پسندیدہ مصنف کو دیکھنے کے لیے، ان سے ملنے کے لیے اس ساحلی ہوٹل کا رخ کرتے ہیں، لیکن وہ نہیں تھا.
اگرچہ تارڑ صاحب وہاں نہیں تھے، لیکن وہ چند سرپھرے، دیوانے اور ان کی تحریروں کے شیدائی تو تھے ناں، جن پر تارڑ صاحب کو خود مان تھا، جس مان کا برملا اظہار انھوں نے ٹی وی کے ایک مشہور پروگرام میں کیا تھا: وہ لوگ بہت کمیٹڈ ہیں میرے ساتھ!
دراصل ان کے چاہنے والے ان کے اعزاز میں ایک ایسی تقریب منعقد کرتے ہیں، جسے ”تکیہ تارڑ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس شہر یا بستی میں یہ تقریب منعقد ہوتی ہے، ان کے چاہنے والے کشاں کشاں چلے آتے ہیں اور اپنے محبوب ادیب کی باتوں سے اپنے سینوں کو لبریز کرکے لوٹ جاتے ہیں۔
تو مستنصر حسین تارڑ کے یہ الفاظ کہ ’وہ لوگ بہت کمیٹڈ ہیں میرے ساتھ!‘ ان کے چاہنے والوں کے لیے بیش قیمت ہے. بانی ریڈرزورلڈ عاطف فرید کی ہدایت تھی کہ تارڑ صاحب کی عدم موجودگی کے باوجود اہل کراچی نے تکیہ تارڑ منعقد کرنا ہے، تا کہ سمندر کی اداسی بھی کم ہو اور پرندے پھر سے چہچہانا شروع کردیں. شروع میں یہ گمان ہوا کہ شاید چند لوگ ہی محفل میں پہنچ پائیں گے، کیوں کہ یہ روایتی تکیہ تارڑ سے ذرا ہٹ کر تھا، ارکان کو اکٹھے ہو کر، تکیہ تارڑ کا بینر لے کراور جہاں کو ئی مناسب جگہ ملتی وہاں رک کر تارڑ صاحب کی تحریروں میں سے اپنے اپنے پسندیدہ اقتباسات پڑھنے تھے، اور ان کے گزشتہ انٹرویو کے بارے میں بات کرنی تھی.
البتہ چند لمحات کے وقفوں سے ممبران کی آمد میں اضافہ ہوتا چلا گیا. یہ محفل تین گھنٹے جاری رہنے کے بعد شام گئے اپنے اختتام کو پہنچی. خوشی کا احساس تھا، تو بلند چوٹی تھا، جو رازوں کی امین ہو۔
واپس جاتے ہوئے پلٹ کر سمندر کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا کہ اسکی اداسی بھی کم ہوئی ہے اور پرندوں کی چہچہاہٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔