The news is by your side.

یہ شاہی بھی بھلا کیا ہے۔۔ فقیروں کی دعائیں ہیں

محمد اشرف عاصمی

فقر بندے کو اپنے خالق کے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ بندے کی خواہشاتِ نفسانی کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔ رب کے نیک بندے ہمیشہ دنیاوی جاہ و حشمت سے دور رہتے ہیں۔ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کمائی کرنا ممکن ہے کیونکہ آخرت میں رب پاک کی رضا کا حصول اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رب پاک سے اور رب کی مخلوق سے تعلق اِس طرح کا استوار رکھا گیا ہو۔ جیسے رب کی رضا ہے۔ فقیر کا من اور تن ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ظاہری اور پوشیدہ معاملات ایک دوسرئے کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔جب خواہشات رب کی رضا پہ قربان ہو جاتی ہیں تو پھر بندے کی رضا ہی رب کی رضا ٹھرتی ہے۔انسان پر رب بوجھ اُتنا ہی ڈالتا ہے جتنا اُس کے اندر اُٹھانے کی سکت ہو۔

خالق تو بندے سے محبت کرتا ہے ‘ وہ اپنے بندے کو کیسے تکلیف دے سکتا ہے۔انسانی احتیاجات کا تعلق اُس کی جبلت کے ساتھ ہے بندے کی یہ جبلت ہے کہ وہ ایک غرض پوری ہوتی ہے تو پھر کوئی اور غرض نمودار ہوجاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ تاوقتیکہ موت کی وادی اپنی آغوش میں بندے کو نہ لے لے۔ خالق کی رحمتیں نوازشیں تو شمار نہیں کی جاسکتیں اور خالق انسان کو عطا کر نے کے لیے ہر وقت تیار ہے وہ تو خود کہتا ہے کہ میں اِس انتظار میں رہتا ہوں کہ کب بندہ مجھے مانگے اور میں اُس عطا کروں۔جس بندے کی خواہشات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے تو اُن کی نفسیانی خواہشات کو لگام صرف موت ہی دیتی ہے۔ لیکن جو بندہ اپنے رب کی عطا پر صابر و شاکر ہوجاتا ہے اور اپنے لیے اُتنا ہی طلب کرتا ہے جتنے سے اُس کی ضرورت پوری ہوجائے۔

ایک چپاتی اور تھوڑے سے سالن سے گزارہ اگر کیا جاسکتا ہے تو پھر تھوڑی سے زندگی کے لیے خود کو لامحدود خواہشات کی چکی میں پیستے رہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جو انسان مال و دولت جاہ و حشمت کے لیے خود کو ہلکان کیے رکھتا ہے اُس کے اندر لالچ کا بسیرا ہو جاتا ہے۔ لالچ ایسی شے ہے جو انسان کے اندر کینہ، جھوٹ پیدا کر دیتی ہے۔ خواہشات انسان سے روحانیت چھین لیتی ہیں۔ اور بندے کا لالچ
اُسے اندھا کر دیتا ہے حلال اور حرام کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ بندہ پھر خالق کے رستے پہ چلنے کی بجائے شیطان کی ہمنوائی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ انداز فطرت کے معیار کے سخت خلاف ہیں۔

زندگی میں ساری تگ و دو تو انسان سکون کی خاطر کرتا ہے اور سکون صرف رب کی بات ماننے میں پنہاں ہے۔جب سکون حاصل کرنے کے لیے مجوزہ طریقہ ہی درست نہ ہو جب درست سمت کا تعین ہی نہ ہو پارہا ہو تو پھر پچاس ساٹھ سال کی زندگی جو کہ گزرتے خبرتک نہیں ہوتی اُس کی خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے۔فقر انسان کو ہر طرح کی خواہشات سے ماورا کر دیتا ہے‘ رب کی ہر ہر عطا پہ لبیک۔ رب کی جانب سے ڈالے گئے امتحان میں شکر ادا کرنا گویا فقیر کا وطیرہ بن جاتا ہے۔انسان کی زندگی میں جتنے بھی نشیب وفراز آتے ہیں اُن سب کے محرکات میں رب کی جانب سے آزمائشیں بھی ہوتی ہیں اوربعض اوقات رب کا راستہ ترک کرنا بھی انسان کے لیے امتحان بن جاتا ہے۔

سماجیات کے ماہرین کے مطابق جس سوسائٹی میں قناعت ہوتی ہے اُس سوسائٹی کے لوگوں کے سماجی، معاشی،عمرانی،روحانی، نفسیاتی معاملات بہت بہتر ہوتے ہیں۔ اِیسے معاشروں میں امن بھائی چارہ ہوتا ہے۔ جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے حوالے سے ہوس کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کے سارے معاملات اپنے رب کے سپرد کیے ہوئے ہوتا ہے وہ شیطان کی بجائے رحمان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہوتا ہے۔انسانی احتیاجات اُس کو اِس نہج تک نہیں لاتیں کہ وہ خود کو گمراہ کر لے اور سیدھا راستہ چھوڑ دے۔فقر کی دولت دنیاوی خواہشوں کو اِس طرح قناعت کے پنجرے میں قید کر دیتی ہے کہ رب بندے کی روح کو شاد رکھتا ہے۔ بندہ اپنے رب کی ہر نعمت پر شکرادا کرتا ہے اور اِسی طرح ہر مصیبت کا مقابلہ بھی مردانہ وار کرتا ہے۔جس طرح معاشیات کے قوانین کے مطابق جہاں طلب اور رسد کی قوتیں باہم ملتی ہیں تو اِس کی بدولت خطِ طلب خطِ رسد کو جس جگہ سے قطع کرتا ہے اُس مرکز کو توازنی مرکز کہتے ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی شے کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔

بندے کی خواہشات بھی جب اِس نہج تک کنٹرول میں آجاتی ہیں کہ رب بندے کی التجا کو رد نہیں کرتا‘ اصل بات یہ ہی ہے کہ بندہ اپنے معاملات کو توازن میں لائے۔ ہر معاملے میں اپنے نفسانی خواہشات کو بالائے طاق رکھے۔ جن معاشروں میں ہوس کا زور، وہیں پھر جنسی حوالے سے بے راہ روی بھی عروج پر ہے۔ کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی نبی پاک ﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے۔کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرو۔خالق کا اپنے بندے پر کتنا احسان ہے کہ وہ اپنے بندئے کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیتا بلکہ خالص توحید سے آشنائی بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ نبی پاکﷺ کی بدولت مسلمانوں کے پاس یہ اعزاز ہے کہ کہ نبی پاکﷺ نے بندوں کو اپنے حقیقی رب سے ملادیا۔

بندہ جب بھی اپنے حقیقی رب کو پکارتا ہے تو خالق اپنی مخلوق کی آواز کو سنتا بھی ہے اور اُس کی مدد بھی فرماتا ہے۔فقر اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان تارک الدنیا ہو کر جنگلوں بیابانوں میں نکل جائے بلکہ اللہ پاک کی دنیا میں ہی رہ کر اللہ پاک کے بندوں کے درمیان رہ کرزندگی کی ساعتوں کو اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں سے فیض یاب ہوکر گزارئے اور رہبانیت اختیار نہ کرئے راہبانیت اختیا ر کرنے کی وجہ سے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بندہ دنیا سے روپوش ہونا چاہتا ہے وہ اپنے رب کی راستے سے راہِ فرار چاہتا ہے۔ فقر کی دولت سکون کی دولت عطا کرتی ہے اور انسان اِسی عاجزی کی بدولت اِسی خلوص و محبت کی بدولت اپنے خالق کی رضا کا دعویدار بن کر باعمل ہو جاتا ہے۔صوفی اپنے من کی صفائی اپنے رب کی مخلوق کی خدمت کرکے کرتا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں