The news is by your side.

عوامی مفاد میں چیئرمین نادرا کے مثالی اقدامات

دنیا کے تمام ممالک اپنے ہر شہری کو اس کی شناخت دیتے ہیں یہ شناخت زبانی کلامی نہیں بلکہ قانونی دستاویزات کی صورت میں ہوتی ہے ، جو اس ریاست کے شہری کی پہچان کے ساتھ اس کی قومیت‘ مذہب‘ علاقہ اور رہائش کے بارے میں آگاہ کرتی ہے ، تاکہ اس شہری کو اپنے زندگی کی کسی بھی ضرورت کے پیش نظر اپنی شناخت ظاہر کرنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری پیش نہ آئے، اس شناختی عمل میں جب ریاست کے ہر باشندے کی معلومات جمع کر کے یکجا کی جاتی ہے تو ایک قومی نوعیت کی ڈیٹا بیس تیار ہو جاتی ہے۔ جبکہ ریاست کے فرد جہاں اس قومی شناخت سے اپنے اموار زندگی سرانجام دینے میں آسانی محسوس کرتا ہے ، وہیں ریاست بھی اس ڈیٹا بیس کی بنیاد پر اپنے مختلف ادارے چلانے میں مدد حاصل کرتی ہے۔

اگر ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو چلانا ہے تو اسی ڈیٹا کی ضرورت ہوگی جس کی مدد سے الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔تعلیم ، صحت ، ترقیاتی کام یا پھر دیگر پروجیکٹ علاقے اور آبادی کی مناسبت سے لانے میں مدد ملتی ہے ، تب بھی ریاست کو اس ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کے ہر ملک کا اپنا نظام اور قاعدہ قانون ہے جس کے تحت وہ اپنے شہریوں کو قومی شناخت مہیا کرتے ہیں ، اسی طرح پاکستان میں ریاست ہر پاکستانی شہری جس کی عمر 18 سال ہو اسے قومی شناختی کارڈ جاری کرتی ہے۔

ملک میں سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے شخصی نظام شناخت (پی آئی ایس) کا افتتاح کیا جس کا کام پاکستان کے ہر شہری کے لیے ہر قسم کی شناختی کارڈ کے اجرا کرنا شامل تھا۔ یہ ادارہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان بشمول پاکستان سے باہر سے ہجرت کرکے آنے والوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا۔ 1965ءمیں اس ادارے میں بڑی تبدیلی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے لائی گئی تا کہ 1965ء کے صدارتی انتخابات کی تیاری کی جا سکے، اور 1970ء تک اس ادارے میں کافی تبدیلیاں لائی جا چکی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد ڈیٹا بیس کے اس نظام کی ضرورت پڑی جس میں پاکستانی شہریوں کے متعلق تمام معلومات محفوظ کی جائیں۔ جس کے لیے 1973ءمیں دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے ایک سادہ ڈیٹا بیس پاکستانی شہریت کے لیے بنایا گیا۔

پاکستان نے 1996ء میں امریکا سے آئی بی ایم سسٹم کے لیے بائیو میٹرک نظام لینے کے لیے معاہدہ کیا ، جو پاکستانی شہریت کے نظام میں پہلی انقلابی تبدیلی تھا اس نظام کے تحت ہر شہری کے بارے معلومات کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے محفوظ بنا کر ایک ڈیٹا بیس تیار کرنا مقصود تھا۔

جس کے بعد 1998ء میں National Database & Registration Authority “NADRA” نادرا کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ہر پاکستانی شہری کے لیےکمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کا اجراءکیا جانا شامل تھا ، جو کہ ہر پاکستانی شہری کی معلومات کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک ابتدائی قدم تھا، ملک میں ہونے والی حالیہ مردم شماری میں پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 21 لاکھ نفوض پر مشتمل ہے، اور اس وقت کل آبادی میں سے تقریباً گیارہ کروڑ پاکستانیوں کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہیں۔

ایک قومی شناختی کارڈ ایک پاکستانی شہری کے لیے کتنا اہم ہے آپ اس سے اندازہ لگائیں یہ کس کس جگہ ایک پاکستانی کے کام آتا ہے۔ یہی شناختی کارڈ انتخابی عمل ، بینک اکاو ٔنٹ ،پاسپورٹ بنوانے کے لیے، زمین و گاڑی کی خرید و فروخت کے لیے، ڈرائیونگ لائسنس کے لیے،ہوائی جہاز یا ریل کے ٹکٹ خریدنے کے لیے،موبائل سم خریدنے کے لیے، نکاح کے وقت ، اپنے یا بچوں کے تعلیمی داخلے کے لیے ، یوٹیلیٹی سہولیات جیسے بجلی ، گیس، پانی وغیرہ کے کنکشن حاصل کرنے کے لیے ، مالیاتی لین دین کے لیے، جبکہ یہی کارڈ بچوں پیدائش پر ان کے اندارج اور نادرا سے جاری ہونے والے “ب” فارم کے لیے بھی ضروری ہے ۔

قومی شناختی کارڈ کا حصول ہر شہری کے لیے ضروری ہونے کی وجہ سے نادرا نے ہر تحصیل و اضلاع میں اپنے سنٹر قائم ہیں ۔آبادی بڑھنے سے ان سنٹرز پر بے تحاشہ رش ریتا ہے، جہاں رش بڑھتا رہا تو مسائل میں بھی دن بدن آضافہ ہوتا رہا ، عوامی شکایات ہر زور میڈیا میں رپورٹ ہو رہی تھیں ، اس تناظر میں نادرا کے پورے نظام میں تبدیلی کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ ان عوامی شکایات اور قومی شناختی کارڈ کے حصول کی عام پاکستانی کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے موجودہ چیرمین نادرا محترم عثمان مبین نے عوام کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے بہت سارے انقلابی اور موثر اقدامات اٹھائے جو کہ اب کار گر ثابت ہورہے ہیں۔

چیرمین نادرا عثمان مبین، نادرا میں پہلے چیف ٹیکنالوجی آفیسر رہے چکے ہیں چیئرمین نادرا عثمان مبین جہاں ادارے میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں وہیں عوامی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے اچانک دورے بھی کر رہے وہ کراچی کے ایک سینٹر میں عام لوگوں کے ساتھ میں لائین میں کھڑے ہو گئے اس کے علاوہ انہوں نے کراچی کے مختلف نادرا سینٹرز کے اچانک دورے کیے اور اس انہوں نے ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ افسران کو موقع پر طلب کیا اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سینٹر کے پورے عملے کو تبدیل کردیا۔ جبکہ 2 ڈائریکٹرز کو برطرف اور ڈی جی سندھ کا تبادلہ کردیا۔ چیئرمین نادرا نے عوام کی سہولت کے لیے کراچی میں نادرا سینٹرز کو صبح 9 سے رات 9 بجے تک کھلے رکھنے کے احکامات جاری کردیے۔ اس کے علاوہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے چیئرمین نادرا عثمان مبین نے اچھی شہرت اور اعلیٰ کارکردگی رکھنے والے افسران کو کراچی طلب کر کے انہیں ذمہ داریاں سونپ دیں۔ چیئرمین نادرا عثمان مبین کراچی میں دو ہفتوں میں کراچی کے نادرا سینٹرز پر دو ہنگامی دورے چکے ہیں۔راقم الحروف نے چیرمین نادرا کے کراچی دورے کو دیکھتے ہو اپنے کالم میں لکھا کہ چیرمین نادرا سے جنوبی پنجاب اور راجن پور مسائل سے آگاہ کیا اور ان سے اپیل کی کہ وہ جنوبی پنجاب کا دورہ کر کے عوامی مشکلات کو دور فرمائیں ، چیرمین نادرا محترم عثمان مبین نے جب یہ تحریر پڑھی تو وہ راجن پور کا دورہ کرنے بھی پہنچ گئے جو واقعی بہت بڑی خبر تھی ، کیونکہ راجن پور پنجاب کا پسماندہ ضلع ہے جس کے نام سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں اوریہ اسلام آباد سے 12 گھنٹے کی طویل مسافت پر موجود ہے۔

جب چیرمین نادرا عثمان مبین راجن پور تشریف لائے تو اسی دوران میری ان سے ملاقات بھی ہوئی، راقم الحروف نے راجن پور میں عوامی مسائل سے انہیں آگاہ کیا وہ راجن پور سینٹر میں آئے لوگوں سے فرداً فرداً مسائل پوچھتے رہے وہ وہاں لوگ میں گھل مل گئے ، جبکہ انہوں نے راجن پور سینٹر کے علاوہ ڈیرہ غازی خان، وہاڑی ، میلسی سنٹرز اور ریجنل ہیڈکواٹر ملتان کا بھی اچانک دورہ کیا، چیئرمین نادرا نے ان سینٹرز پر سائلین کے مسائل دریافت کیے، اور ان کو موقع پر حل کرنے کی ہدایات جاری کیں ، سائلین کو گرمی و لمبی قطاروں میں اور زمین پر بیٹھا دیکھ کر نادرا حکام پر برہم ہوئے اور نادرا کے عملے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو عوام کی رہنمائی اور مسائل حل کرنے کے لئے یہاں بھیجا گیا ہے نہ کہ مسائل پیدا کرنے کہ لئے، آپ کی اولین ترجیح عوام کی خدمت ہونی چاہئے۔

جنوبی پنجاب کے ہنگامی دورے میں چیرمین نادرا عثمان مبین نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ڈی جی نادرا ملتان کو تبدیل کر ان کی جگہ برگیڈیئر (ر) خالد لطیف کو ڈی جی ملتان لگانے کے احکامات جاری کر دیے جبکہ دو ڈائریکٹرز کرنل(ر) شمس بن نیاز اور کامران لطیف کو اسلام آباد سے فوری ملتان طلب کیا ۔جنوبی پنجاب کے اس دورے میں چیئرمین نادرا نے عوام کو ان کے مسائل کے فوری حل کی یقین دہانی کرائی اور نئے ڈی جی برگیڈیئر (ر) خالد لطیف کو نادرا ملتان کے تمام سینٹرز کو ون ونڈو آپریشن کرنے کی ہدایات جاری کی اور نادرا سینٹر کچہری چوک ملتان کو فوری میگا سینٹر میں تبدیل کردیا، چیئرمین نادرا نے ڈیرہ غازی خان شہر اور ضلع راجن پور میں جلد اذ جلد ون ونڈو سینٹرز قائم کرنے کے احکامات جاری کئے۔

موجودہ چیرمین نادرا عثمان مبین انتہائی قابل اور محنتی انسان ہیں ، وہ انسانیت کا درد رکھنے والے خدا ترس انسان ہیں وہ نادرا کے ادارے میں بڑی حد تک تبدیلیاں لا چکے ہیں پر نادرا کی الجھی ہوئی ڈوریوں کو سلجھانے میں وقت تو ضرور لگے گا جہاں وہ عوامی مشکلات دور کر رہے ہیں تو خود نادرا ملازمین کے مسائل بھی موجود ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ نادرا کو پاکستان کا مثالی ادارہ بنا دیں گے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں