ثروت نجیب
آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہہ ’’جب جب ہم چپ رہ کو سب برداشت کر لیتے ہیں تب دنیا کو بہت اچھے لگتے ہیں مگر ایک آدھ بار حقیقت بیان کر دی تو سب سے برے لگنے لگتے ہیں‘‘۔لیکن بعض اوقات یہ بات جانتے ہوئے بھی اس چپ کو توڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔
قندوز پہ افغان آرم فورسز کے حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں ہاٹ نیوز بن گئی جبکہ حکومت مخالف عناصر کے علاوہ کسی نے اس کی مذمت نہیں کی ـ خبر کیا تھی’’افغان آرم فورسز نے طالبان کے مدرسے پہ اس وقت حملہ کیا جب دستار بندی کی تقریب جاری تھی جس میں سو کے قریب کمسن بچے شہید ہو گئے‘‘۔ اس کے بعد بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ‘ پکتیا اور جلال آباد کے بچوں کی دستار پوشی کی تصویریں بھی قندوز کے واقعے سے جڑی منظر عام پہ آئیں ۔
خبر میں حقیقت کم اور سنسنی زیادہ تھی ۔ درحقیقت پانچ بچے شہید ہوئے جبکہ ۵۷ عام شہریوں معمولی زخمی ہوئے جبکہ فوجی آپریشن میں طالبان کے بدنامِ زمانہ لیڈر مارے گئے ۔ دستار بندی کا جعلی ماحول بنایا گیا تھا اور اس جعلی ماحول کی آڑ میں طالبان کے مرکزی لیڈرز کی میٹنگ تھی جس کا مقصد آپریشن بہار کے نام سے نئے بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے خود کش حملہ آور اکٹھے کرکے آپریشن بہار کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔
مجھےیقیناً ان بچوں اور ان عام شہریوں کا افسوس ہے جو اس سانحے کا شکار ہوئے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ حملہ نہ ہوتا تو آپریشن بہار کے نام پہ طالبان نے ہر سال کی طرح اس سال بھی کابل سمیت باقی شہروں میں معصوم شہریوں کا خون بہاتے اور ایک بار پھر دریائے کابل معصوم شہریوں کے خون سے رنگ جاتا ۔ آپریشن بہار در اصل خودکش بم دھماکوں پہ مبنی ایسا خون ریز سلسلہ ہے جس کا ہدف پے در پے خودکش حملے کر کے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچانا ہوتا ہے ۔
اسلام کے نام پہ اب تک مسلمانوں کو ورغلانے والے جہاد کی آڑ میں دہشت گردی پھیلاتے رہے ہیں۔ غریب غرباء کے یتیم مسکین بچوں کو طالب بنا کر انھیں جنگ کے میدان میں جھونک کر اپنی سیاست چمکانے والے خود تو لینڈ کروزر میں گھومتے ہیں ان کے بچے یورپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کر کے اسمبلی میں نشست پہ براجمان ہوتے ہیں جبکہ عام عوام کو یرغمال بنا کر اسلام کی سولی پہ ٹانک دیا جاتا ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں بچے اساتذہ سمیت دہشت گردی کے حادثے میں شہید ہو جاتے ہیں تو پاکستان آرمی کی طرف سے یہ خبر آتے ہی کہ ’’دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے آئےتھے‘‘ ۔کل عوام افغان مہاجرین اور افغانستان کو کوسنے لگتی ہے۔ یہی سوشل میڈیا پہ یہی لوگ حکومت پہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو ملک سے نکال دیا جائے ـ پاس پڑوس میں رہنے والے ایک دم اجنبی بن جاتے ہیں اور آخر کار پانچ لاکھ افغان مہاجرین نا چاہتے ہوئے اس ملک واپس آتے ہیں جو ابھی بھی حالتِ جنگ میں ہے ۔
طورخم پہ گیٹ لگایا جاتا ہے اور گیٹ لگانے کا جواز بھی یہی دہشت گرد ہیں جو افغان مہاجرین کی آڑ میں سرحد پار کر جاتے ہیں ـ گیٹ نا لگانے کے لیے دونوں ملکوں کی آرم فورسز میں جھڑپ ہوتی ہے اور دونوں طرف سے جانی نقصان کے باوجود گیٹ لگتا بھی ہے اور آئے دن بند بھی ہو جاتا ہے جس سے لاکھوں لوگ ‘ پاکستان علاج کی غرض سے جانے والے مریض،کاروباری حضرات اور عوام سمیت میوے سبزی اور مرغیوں و بھینسوں سے لدےٹرک بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ تب سوشل میٍڈیا پہ کوئی شور نہیں ہوتا ، آج اگر آرم فورسز نے طالبان کے ٹھکانے پہ حملہ کر کے ان گروہ کو نشانہ بنایا جو اس دہشت گردی میں سالوں سے ملوث ہیں تو پاکستان عوام کو مشکور ہونا چاییے ناکہ ماتم کناں ـ پاکستان میں ضربِ عضب ‘ ردِ الفساد سمیت دس فوجی آپریش میں دو لاکھ فوج نے فوجی آپریشن میں ہزاروں دھشت گرودں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا کیونکہ طالبان نے بے نظیر سمیت پاکستان کے بے پناہ قابل لوگوں کو بےگناہ شہید کر دیا ۔ملالہ جیسی بچیوں پہ تعلیم کے دروازے بند کر دیے ۔
طالبان صلح اور مذکرات پہ کسی صورت آمادہ نہیں تھے اس کے لیے سوات اور وزیرستان کے عوام نے قربانی دی اور اپنے گھر بار علاقے چھوڑ کر ملک میں امن کی بحالی کے لیے راہ ہموار کی ۔اسی طرح افغانستان میں بھی صلح و مذاکرات کی بار بار پیشکش کے باوجود طالبان بم دھماکے کر کے عام شہریوں کو شہید کرتے رہے ۔ پاکستانی عوام کو سمجھنا چاہیے کہ افغان فورسز کا یہ آپریشن بھی ضربِ عضب اور ردِ الفساد کی ایک کڑی ہے، پاکستان شروع سےافغانستان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ جب بھی صلح کی بات چیت شروع ہوتی ہے طالبان خودکش حملوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور نتیجہ پھر صفر نکلتا ہے ۔ابھی حال ہی میں افغانستان کے انٹرکانٹینٹل ہوٹل پہ حملہ ہوا جس میں بےگناہ شہریوں سمیت احمد فرزان بھی شہید ہوا جو ایک نوجوان مفتی، شاعر اور ادیب تھا اس کی جھلسی ہوئی لاش اس کی جوان بیوہ اور بچوں کے لیے ایک سوالیہ نشان تھی کہ’’اس نے کس کا کیابگاڑا تھا؟ نوروز کے جشن میں سخی کی زیارت پہ حملے کے دوران بے گناہ سو سے زائد نوجوان شہری شہید ہو گئے ۔ تب خبر ان نوجوانوں کے ساتھ ہی دب گئی اور ایسی کتنی خبریں مصوم لوگوں کے ساتھ ان کی قبروں میں دفن ہوجاتیں ہیں کوئی ایک پھیکا آنسو بھی نہیں گراتا ۔
یاد رہے یہ وہی طالبان ہیں جو خانہ جنگی کے بعد جب برسراقتدار آئے تو آتے ہی عورتوں کو گھروں میں مقید کر دیا سب کی نوکریاں ختم کر کے انھیں نا صرف نیلا برقعہ اوڑھنے پہ مجبور کیا بلکہ انھیں بنا محرم کے گھر سے نہ نکلنے پہ بھی مجبور کیا ۔ لڑکیوں کے سکول بند ہوگئے ، شریعت کے نام پہ عورتوں کو سگنسار کیا گیا ، آلاتِ موسیقی پہ پابندی تھی ، وہ عورتیں جن کے مرد جنگ میں مارے گئے وہ مجبور تھیں کہ بچوں کی کفالت کے لیے نوکری کریں مگر ناصرف انھیں روزگار کی اجازت نہیں تھی بلکہ محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پہ بھی پابندی تھی۔
ہزاروں درزی بے روزگار ہو گئے انھیں عورتوں کے کپڑے سینے کی اجازت نہیں تھی۔بازار میں عورت ہاتھ ہلاتے ہوئے چلتیں تو ان کے ہاتھوں پہ ڈنڈے مارے جاتے کہ ہاتھ ہلا کر چلنا طالبان کے لیے بے حیائی کی علامت تھاضروری تھا کہ عورتیں سکڑ سمٹ کر چلیں۔ داڑھی اور ٹوپی لاگو کر کے انھوں نے اسلام کو صرف اوڑھنے پہننے تک ہی محدود کر کے اسلام کے معنی ہی بدل دیے اور اب طالبان کا مقصد بھی یہی ہے کہ دوبارہ وہی نظام لایا جائے جوپہلے انھوں نے نافذ کیا تھا ۔
ان کے لاگو کردہ نظام سے عوام خوش نہیں تھے وہ شرعی نظام کم جابرانہ نظام ذیادہ تھا ۔اب تو سعودی عرب میں بھی تبدیلی آ رہی ہے تو افغانستان کے عوام کیونکر ان کے جابرانہ نظام کی حمایت کریں ـ نائن الیون کے بعد جب کرزئی کی حکومت میں جمہوریت آئی تو بے شمار افغان مہاجرین واپس وطن کو لوٹ آئے اور زندگی ایک بار پھر سے خوشحالی کی ڈگر پہ رواں تھی ـ ہم آج بھی طالبان کے خوف کو نہیں بھولے جب زندگی ذرا بہتر ہونے لگتی ہے تو پے در پےحملے کر کے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ حملے کے بعد بڑے آرام سے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لواحقین کے زخموں پہ نمک پاشی کر کے ایک نئے حملے کی تیاری میں جُت جاتے ہیں ۔ یہ وہی طالبان ہیں جو یورپ اور امریکہ میں رہنے والے سارے مسلمانوں کے لیے ایک کلنک بن گئے ہیں ـ انھی کی وجہ سے ہر ایک خان کو طالبان سمجھ کر انھیں دھتکارا گیا ـ یورپ میں انھی کی وجہ سے اسلامو فوبیا کی لہر میں مسجدیں جلائی جا رہی ہیں ۔
صلح کے نام پہ بدکنے والوں کا اگر آج بھی خاتمہ نہ ہوا تو دہشت گردی سرحدیں پار کر کے پھر سے دنیا کو لپیٹ میں لے لے گی ۔ جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس بدامنی پھیلانے والے ناسور کا سر کچلنے کی مذمت کرنے پہ ایک بارسوچیں اگر ان کے بچوں کی جگہ خدانخواستہ آپ کے بچوں کی لاشیں بچھیں ہوتی تو آپ ان کے ساتھ کیا کرتے؟ ؟؟۔
جہاں تک بچوں کی شہادت کی خبریں ہیں تو وہ سراسر جھوٹ ہے ، طالبان جانتے ہیں مذہب اسلام کے نام پہ لوگوں کو کس طرح ہائی جیک کرنا ہے۔ اسی لیے خودکش حملہ آوروں کو جہاد کے نام پہ برین واش کرنے کے لیے مسجد اور مدرسہ جیسی مقدس مقامات کو چنتے ہیں ـ اب تو تمام علمائے کرام اور مذہبی رہنما اس بات پہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ خودکش حملے حرام ہیں۔ مدرسہ اور مسجد چونکہ مسمانوں کے مقدس مقامات ہیں اس لیے ان کے اندر خودکش جیکٹیں تیار کر کے جہاد کے نام پہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دہشت گرد تیار کیے جاتے ہیں۔
عام آدمی انھیں شریف ہی سمجھتا ہے جبکہ داڑھی اور عمامے ایک آڑ ہیں بظاہر تو دستار بندی کی تقریب ہوتی ہے کہ عالم بن گئے ۔ انہی معصوم بچوں کے نام قرعے نکلتے ہیں جو مستقبل میں تخریب کاری کے لیے تیار ہونے ہوتےہیں ۔ ویسے سوچیں قندوز کے آرچی جیسے پسماندہ گاؤں میں اگر ایک ہی عمر کے سو بچے حافظ بنتے ہیں تو گاؤں میں کل بچے کتنے ہیں؟ اتنی بڑی تعداد کیا کسی ایک گاؤں کے بچے کی ہو سکتی ہے؟ اور اگر سو بچے ہیں تو سب کے سب حافظ بن گئے ـ جبکہ حفظ کرنا اتنا آسان کام نہیں ـ دوسری اہم بات اگر اسلام اور قرآن واقعی اتنا سمجھتے تو خودکش حملے ہی کیوں کرتے جبکہ اسلام میں قتل سب سے مکروہ فعل ہے ـ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل گردانا جاتاہے ۔
ہم کو اس وقت افغانستان میں مدرسوں کے بجائےا سکولز کی ضرورت ہے ۔ہسپتال ، کاروبار ، ملیں اور فیکٹریوں کی ناکہ ایسے جہلاء کی جو خطے کو ہزار سال پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں ۔افغانستان کوطالبان کے تشکیل کردہ نام نہاد شرعینظام کی نہیں جمہوری نظام کی ضرورت ہے جہاں ہر مذہب فرقے اور مسلک کو مذہبی آزادی ہو جہاں عورت اور مرد دونوں کو انسان سمجھ کر برابری کے حقوق ملیں ۔جہاں نوجوان سائنس اور طب سمیت دیگر فنون میں دنیا کامقابلہ کریں ۔
افغانستان ایشیا کا دل ہے اور ایشیاء کا دل چھلنی ہو اور وجود کے باقی اعضاء سکون سے ہوں ایسا ممکن نہیں خطے میں امن افغانستان میں امن سے جڑا ہے۔ اس وقت افغان عوام ملک کے ہر علاقے میں امن کے لیے خیمے میں دھرنےدے کر امن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں آپ کی سپورٹ کی ضرورت ہے اگر آپ واقعی افغان عوام کے لیے دل میں گداز گوشہ رکھتے ہیں تو امن کی بحالی میں ان نوجوانوں کا ساتھ دیں جو اپنے گھروں سے نکل کر دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کل کو یہی طالبان دنیا کے کسی بھی شہری کا ناحق خون کر کے روپوش ہو جائیں اور ان کے حصے کی نفرت عام عوام کی جھولی میں ڈال کر ان کی زندگی مزید اجیرن کردی جائے اور ناصرف افغان بلکہ ہرمسلمان ان کے جرائم کا خمیازہ بھگتے۔اسی لیے ہمارا نعرہ ہے امن کا پرچار،دہشت گردی سے انکار۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں