The news is by your side.

یومِ مزدور اور تپتی دھوپ!

تحریر: عنایت اللہ شہزاد

5 دسمبر 1969 کو برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے لٹل بوروف میں ایک مزدور کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ یہ اس مزدور کا پانچواں بیٹا تھا۔ مزدور کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور رزقِ حلال کمانے کی غرض سے وہ کسی طرح برطانیہ پہنچ گئے تھے۔ ان دنوں شاید برطانیہ کی ویزہ پالیسی اتنی سخت نہیں تھی۔ کچھ عرصہ کام کر کے انہیں وہاں کی شہریت بھی مل گئی۔ مزدور نے ڈرائیونگ سیکھ لی اور لٹل بوروف کی سڑکوں پر بس چلانے لگا۔ یہ روز بس لے کر نکلتے، محنت مزدوری کرتے اور حاصل ہونے والی کمائی سے گھر بار چلاتے۔ پانچویں بیٹے کی پیدائش کے بعد مزدور نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنے کے لیے مزید محنت کرنے کیا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح انہوں نے لٹل بوروف کو خیر باد کہا اور خاندان سمیت برسٹول منتقل ہوگئے۔ وہاں ایک چھوٹی سی دکان کھولی اور دو کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر میں گزر بسر کرنے لگے۔ دکان چلتی رہی، بس چلاتے رہے اور یکے بعد دیگرے اپنے بچوں کو بھی اسکول میں داخل کرواتے رہے ۔ بالآخر اپنے سب سے چھوٹے بچے کو بھی برسٹول شہر کے ایک اچھے اسکول میں داخل کروانے میں کامیاب ہوئے۔

مزدور کے اس بیٹے میں بے شمار خداداد صلاحیتیں موجود تھیں۔ محض 14 برس کی عمر میں انہوں نے ایک مقامی بینک سے 500 پاؤنڈ کا قرض لیا اور ایک ابھرتی کمپنی کے کچھ شیئرز خرید لیے۔ اس فیصلے نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ کمپنی ترقی کرتی رہی اور وہ نہ صرف بہت جلد قرض ادا کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ نہایت کم عمری میں اعلیٰ درجے کے بزنس مین بھی بن گئے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ اسکول مکمل کرنے بعد فلٹن ٹیکنکل کالج میں داخلہ لیا پھر وہاں سے یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں معاشیات اور سیاسیات کے طالب علم رہے۔ زمانہِ طالب علمی سے ہی برطانیہ کی معروف کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس کے ساتھ ساتھ بینکاری کو بطور شعبہ اپنایا۔ محنت و مشقت کی تربیت بچپن سے مزدور والد سے حاصل کی تھی اسی لیے دن رات ایک کر کے بالآخر ایک بہترین بینکر بننے میں کامیاب ہو گئے۔

سنہ 1991 میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی امریکی ریاست نیویارک کے ایک اچھے بینک میں ملازمت اختیار کی اور صرف 25 سال کی عمر میں اسی بینک کے نائب صدر بن گئے۔ سال 1997 میں واپس لندن چلے گئے جہاں برطانیہ کے ایک اچھے بینک نے انہیں ڈائریکٹر کی سیٹ آفر کی جسے انہوں نے قبول کیا۔ سال 2004 میں وہ اسی بنک کے مینیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔

پاکستانی نژاد برطانوی مزدور کا یہ بیٹا دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ اسے کم عمری میں ہی بے شمار اعزازات سے نوازا گیا اور یہ اپنی محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت کم وقت میں بہت بڑے مقام پر فائز ہوگئے۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کاروبار اور بینکاری کے شعبے میں نام اور مقام پیدا کرنے کے بعد انہوں نے سیاسی جماعت میں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سال 2010 میں ریاست برطانیہ کے حلقہ برومسگرو انتخابات میں حصہ لیا اور ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔ پارلیمنٹرین بننے کے بعد مختلف عہدوں پر فائز رہے اور بالآخر کل یعنی 30 اپریل 2018 کو ریاست برطانیہ کے وزیر داخلہ منتخب ہوگئے۔ جی ہاں! ان کا نام ساجد جاوید ہے۔ یہ اب برطانیہ کے وزیر داخلہ ہیں۔ ان کے والد مزدور تھے جن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں ویزہ دیا، شہریت دی، اچھی اجرت کے ساتھ قدر اور عزت دی اور بدلے میں انہوں نے ریاست کو ساجد جاوید دیا۔

بس اسٹاپ پر رک گئی۔ کنڈیکٹر نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے نفرت آمیز لہجے میں کہا کہ جناب اتر جائیں آپ کی منزل آگئی ہے ۔ میں دفتر سے رات کی ڈیوٹی سے واپس رہائش گاہ جاتے ہوئے بس میں سفر کر رہا تھا۔ دوران سفر کراچی کے علاقے لالو کھیت کے مقام پر 60 سے 70 ضعیف العمر مزدوروں کو تپتی دھوپ میں رزق کی تلاش کرتے ہوئے اور رازق سے سوال کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یوم مزدور کے موقع پر بزرگ مزدوروں کی اس حالت زار کو دیکھ کر میری آنکھیں اشکبار تھیں اور دل دعا کر رہا تھا کہ پروردگار یا تو ان غریب مزدوروں کو برطانیہ جیسی ریاست عطا کر جہان ان کو رزقِ حلال کے حصول میں دشواری نہ ہو اور ان کے ہاں بھی ساجد جاوید جیسے بیٹے جنم لے سکیں یا پھر ہمارے حکمرانوں کے دل میں یہ خیال پیدا کر کہ ان سے حساب ضرور لیا جائے گا۔ اس دنیا میں نہیں تو روزِ حشر میں۔


 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں