مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نااہل قرار دےدیا ہے ۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے صدراور وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت کئی سیاست دانوں کوعدالت ناہل قرار دے چکی ہے ،محسوس کچھ یوں ہورہا ہے جیسے ایک عدالتی انقلاب اپنے پوری طاقت سے ملک میں کے بڑے ایوانوں اور بڑی مچھلیوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ابھی مزید فیصلے بھی آنے والے ہیں میاں شہبازشریف ، خواجہ سعد رفیق اور دیگر کئی مسلم لیگی سیاستدان اس انقلاب کی زد میں ہیں ، اس انصاف کی سونامی میں ن لیگی ہی نہیں بلکہ کئی تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی زد میں ہیں جن میں جہانگیر ترین تو پہلے ہی نااہل ہوچکے ہیں لیکن علیم خان صدر پاکستان تحریک انصاف پنجاب بھی اس کے نشانے پر ہیں ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پر ہاتھ ہلکا رکھا گیا ہے لیکن اس بات کو تقویت ہے اس لئے نہیں ملتی کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اہم لیڈروں میں شمار ہوتے تھے جو کہ اب نااہل ہوچکے ہیں اور جنوبی پنجاب میں پارٹی کیلئے ریڑھ کی ہڈی رکھتے تھے جس سے ایسا لگتا ہے کہ انصاف کی تلوار دونوں پارٹیوں کے سر پر برابر کی لٹک رہی ہے اور ہونا بھی کچھ یوں ہی چاہئے ۔
ہمیں عدالت عظمیٰ پاکستان کی تعریف کرنا پڑے گی کہ کس طرح انہوں نے انصاف اور عدل کابول بالا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور بہت تیزی کے ساتھ فیصلے کئے، اب سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ کہ قانون کی زد میں صرف غریب ہی آتاہے اور امیر ہمیشہ بچ نکلتا ہے۔ کسی فلاسفر کا قول بھی سوشل میڈیا پر بہت دہرایا جاتا ہے کہ قانوں وہ جال ہے جس میں صرف کمزورہی پھنستے ہیں اور طاقتور اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں ۔
اس کی مثال مشرف دور سے بھی دی جاسکتی ہے جب اس نے دو بڑی پارٹیوں خصوصاً ن لیگ کے احتساب کیلئے نیب کا ادارہ قائم کیا یہ ادارہ اس وقت کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکا سوائے کاپوریٹو بینک سکینڈل کے جس میں بھی متاثرین بھی اپنی اصل رقم کا پچاس فیسد ہی حاسل کرسکے تھے۔ نیب میاں صاحب کے خاندان کا اس وقت کچھ نہ بگاڑ سکا کیونکہ میاں صاحبان کی سعودی شاہی خاندان سے دوستی کام آئی اور وہ انہیں صاف بچا کر نکال کر لےگئے تھے ۔ مشرف دور میں ہی این آر او کے تحت بے نظیر واپس آئیں اور پھر اسی قسم کا ایک خفیہ معاہدہ کرکے میاں صاحب دوبارہ اس ملک میں واپس آئے ۔
پہلے پنجاب میں اور پھر مرکز میں حکومت بنانےمیں کامیاب ہوگئے، آصف زرداری جن پر بے شمار مقدمات تھے وہ نہ صرف بے نظیر کی شہادت کے بعد ملک کے صدر بنے بلکہ انہوں میاں صاحب کی گورنمنٹ میں اپنے اوپر قائم مبینہ طور پر ختم کرائے۔اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ پچھلے چند ماہ سے ملک میں پہلی دفعہ عدلیہ بغیر کسی دباؤ کے کام کررہی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا گو کہ عدلیہ کے ناقدین کچھ بھی کہین لیکن بہرحال یہ ایک عدالتی انقلاب ہے ان فیصلوں نے پاکستان میں عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا ہے جس کا اعتراف انٹرنیشنل اور خاص طور پر ہمسایہ ملک کے کچھ صحافی حضرات نے بھی اپنے نظام پر تنقید کرتے ہوئے کیا۔
ہمیں اس پورے پس منظر میں یہ تو نظر آرہا ہے کہ بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے لیکن سوال یہ کہ وہ لوگ جو کہ نچلی سطح پر انصاف کہ طلبگار ہیں انہیں اس عدالتی انقلاب کا فائدہ کب ہوگا ۔یہ وہ لوگ ہیں جو کئی کئی سالوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کا بیٹا بھی پیشیاں بھگت رہا ہوتا ہے‘‘۔
ایسے بھی لوگ ہی جن کی نسلیں ہی عدالتیں کے چکر لگا لگا کر رخصت ہوگیں لیکن انصاف کا ترازو ہلنے کا نام ہی نہیں لیتا ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کا ملزم جتنا قانون سے فائدہ اٹھاتا ہے یا جتنا علم اسے ہوتا کہ کیسے ایک کیس کولمبا کیا جائے کہ مدعی خود ہی تھک کر میدان چھوڑ جائے وہ مدعی نہیں جانتا لہذا کمزورعدالتی نظام کا فائدہ بھی سب سے زیادہ ملزموں کو ہی ہوتا ہے ۔ضمانت اور حکم امتناعی کا قانون بھی بڑی حدتک ملزم یا مدعی کو فائدہ دیتا ہے میرا مقصد یہاں پر عدالتی نظام پر تنقید کرنا نہیں اور نہ میں کوئی اس بارے میں ماہر کی حثیثت رکھتا ہوں، میرا سوال عدلیہ اور ماہرین قانون سے صرف یہ ہے کہ اب اگر انصاف کا بول بالا ہورہا ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک کب تک پہنچیں گے ؟۔کب ان کو تیز اور سستا انصاف مہیا ہوگا اور کب عدالتوں کی راہداریوں میں گھومتے یہ سائل چپڑاسی سے لے کر ریڈر تک کی مٹھی گرم کرتے رہے گے اور وہ دور کب آئے گا جب سائل فیصلے کی کاپی لے کر اپنے گھروں کی راہ پکڑیں گے اور کب ہم اس ملک میں رائج اس مقولے کو غلط ثابت کرسکے گے کہ
انصاف میں تاخیر کرنا درحقیقت انصاف سے انکار کرنا ہے