فن لینڈ دنیا کی معیاری تعلیم کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جہاں تعلیمی ادارے حکومت کے زیر سایہ چلتے ہیں، فن لینڈ کے تعلیمی ادارے میں طالب علموں کو کتابی کیٹرا بنانےکے بجائے ان کو پریکٹیکل ہنر سیکھایا جاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ فن لینڈ کا معیاری تعلیمی نظام دنیا بھر میں ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تمام شہری ایک جیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں چاہے کوئی نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا منہ میں سونے کی چمچ لے کر پیدا ہوا ہو۔ تعلیم نظام کسی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ ایسی لئے اس ملک کے شہر اور دیہات میں بسنے والوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ سب کو ایک ہی سی تعلیم دی جاتی ہے۔ فن لینڈ نے امریکا جیسے سپرپاور کو بھی تعلیمی میدان میں چت کردیا ہے۔
اگر پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ دنیا سے کیا جائے تو پاکستان 125 ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت 103 اور بنگلہ دیش 111ویں نمبر پر ہے۔ دنیا میں نصاب اور طالب علموں کو دیئے جانے والے ہنر کو مدنظر رکھ کر اس کے تعلیمی معیار کا اندازا لگاتا ہے۔
اکنامک سروے اف پاکستان (2017) کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد سے 58 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اساتذہ کے تشدد یا والدین کی عدم دلچسپی کے وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ بات پاکستان کے تعلیمی معیار کی ہو تو، پاکستان میں دو تعلیمی نظام بستے ہیں۔ ایک وہ تعلیمی نظام ہیں جہاں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھا تعلیمی نصاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے مگر یہ وہ ادارے ہیں جہاں ماہانہ فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب لوگ اتنے پیسوں میں پورا مہینہ گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔
ان اداروں میں بچوں کو پریکٹکل ورک بھی سکھایا جاتا ہے مگر وہ بھی انٹرنیشنل معیار پر پورا نہیں کرتا۔ لیکن اس تعلیمی نظام سے بہت بہتر ہے جو غریب کے بچوں کو دیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتی ہے، مگر اس تعلیم کا معیار نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری سکول میں عموماًنچلے طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، اسی لئے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی ان بچوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں بچوں کو مار مار کر پڑھایا جاتا ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق اساتذہ کی جانب سے تشدد کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں بچے کا آئی کیو لیول کا کم ہونا ، استاد سے بھاری فیس دے کر ہوم ٹیوشن نہ لینا، اساتذہ کے اپنے معاشی اور سماجی مسائل، اور حکومت کی جانب سے مناسب تربیت کا فقدان ہے۔ تعلیمی نظام میں سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نصاب کا ہے۔ جو کئی صدیوں سے تبدیل ہی نہیں کیا۔ دنیا میں اتنی جدت کے بعد بھی ہم وہی 20سے 25 سال پرانانصاب اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ تعلیمی نظام میں صوبہ پنجاب باقی صوبوں پر سبقت رکھتا ہے۔ لیکن پنجاب کا تعلیمی نظام بھی طالب علم کو صرف اور صرف رٹا لگانا اور نمبر لینا سکھاتا ہے۔
فن لینڈ کے تعلیمی نظام کو رول ماڈل سمجھتے ہوئے ہمیں بھی اپنے تعلیمی اداروں میں بہتری لانی چاہئیے۔ اپنے نصاب کو انٹرنیشنل معیار پر لانا چاہئیے۔ اور سب کو ایک جیسی تعلیم فراہم کرنی چاہئیے تاکہ پاکستان میں پڑھنے والا طالب علم بھی دنیا میں مقابلہ کر سکے۔ ضرورت اس وقت کی ہے کہ ہم طالب علم کو کتابی کیڑا بنانے کی بجائے ان کو ہنر دیں تاکہ ان کو مستقبل میں یہ تعلیم کام آئے۔ طالب علموں کو سکھایا جانے والا ہنر ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے بھی معاون ثابت ہوگا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں