The news is by your side.

فاٹا کا کے پی کے ساتھ انضمام آخر ناگزیر کیوں؟

قبائلی علاقہ جات پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 3 سے 4 فیصد ہیں اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے۔ ایک طویل عرصے سے قبائلی عوام کی جانب سے قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ قبائلی علاقہ جات(فاٹا) کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ برطانوی حکومت کی جانب سے جنوبی ایشیاء میں اپنے سامراجی عزائم کو محض دوام بخشنےکے لئے متعارف کروایا گیا تھا۔ روس کی گرم پانیوں کی طرف چڑھائی کو روکنے اور برصغیر پاک و ہند (جو برطانوی سلطنت کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا) کے تحفظ کے لئے اس وقت برطانوی حکومت نے پشتون قوم پر مشتمل قبائلی علاقوں میں داخل ہونے کا فیصلہ لیا جو اپنے دروں اور سنگلاخ پہاڑوں کی وجہ سے مشہورہے۔ برطانوی سامراجی طاقتوں نے اس ضمن میں مقامی معاونت پر نہ صرف انحصار کیا بلکہ قبائلی عمائدین کو اپنے زیر دسترس رکھنے کے لئے متعدد اقدامات بھی لئے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

ا۔ برطانوی راج نے قبائلی علاقوں میں ‘ملکی نظام'( ٹرائیبل ایلڈرسسٹم) کی بنیاد رکھی نیز کچھ قوانین بھی متعارف کروائے جن میں ایف سی آر( فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) شامل ہیں۔

ب۔ پولیٹیکل ایجنٹس کو خطیر رقوم دی جاتیں ہیں اور زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فنڈز کا تب سے اب تک کوئی آڈٹ نہیں ہوا۔ لہٰذا وہ یہ فنڈز اپنی مرضی سے استعمال کرنے کے نہ صرف مکمل مجاز ہوتے ہیں بلکہ اس میں سے زیادہ تر حصہ’ ٹرائیبل ملک’ کو دیا جاتا ہے۔

یہی نظام بعد از برطانوی راج بھی جاری رہا۔ جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کی معیار زندگی(صحت ،تعلیم، خوراک اور ذرائع آمدورفت) میں پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اور اس فرق کو ختم کرنے کے لئے طویل عرصے سے قبائلی عوام کی جانب سے قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ کیونکہ اس وقت قبائلی عوام کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں تو نمائندگی موجود ہے مگر صوبہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں ان کی تاحال کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ واضح رہے کے فاٹا کے انضمام کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور پاک فوج بھی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے مکمل حمایت کرتی ہے۔

مگر باقاعدہ طور پر14 اگست 2009ء کو اس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے فاٹا کی سیاسی اور انتظامی اصلاحات کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس اصلاحی پیکج میں ‘پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002′ کا استعددِ کار فاٹا تک وسیع کیا گیا۔ اور کچھ تبدیلیاں بدنام زمانہ قانون’ ایف سی آر’ میں بھی کیں گئیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نےا س اصلاحی پیکج کے لئے اپنی اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ تاہم تمام سیاسی جماعتوں اور فاٹا کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین باہمی مفاہمت کے باوجود حکومت نے فاٹا کی سیاسی و انتظامی اصلاحات کونامعلوم وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دیا۔

بعد میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تواس نے اس مسئلے کی کھوج کے لئے متعدد کمیٹیاں بنائیں۔ آخر کار اعلیٰ حکومتی عہدیدران پر مشتمل ایک مکمل بااختیار ‘فاٹا ریفارمز کمیٹی’ تشکیل دی گئی جس کی سربراہی سرتاج عزیز نے کی اور جس میں جنرل( ر) عبدالقادر بلوچ بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بھی فاٹا کی خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کی تجویز پیش کی۔ بلکہ کمیٹی کی اکثریت نے فاٹا کی کے پی کے کے ساتھ انضمام کی حمایت کی۔ اس کمیٹی میں یہ طے پایا کہ ایک آئینی ترمیم کی ذریعے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل فاٹا کی عوام کو اپنے نمائندے کے پی کے اسمبلی کے لئے منتخب کرنے کے قابل بنایاجائے گا۔ جبکہ ایف سی آر کی جگہ قبائلی علاقوں کے لئے نیا ‘رواج ریگولیشن’ لایا جائے گا جس کے تحت اجتماعی ذمہ داری کے نکات کو نکال دیا جائے گا اور ہر شخص اپنے کسی بھی اقدام کے لئے انفرادی طور پر ذمہ دار ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی طے پایا کہ فاٹا کے لئے نئے بیس ہزار لیویز کے اہلکار بھرتی کئے جائیں گے اور جبکہ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا۔ نیز321 ارب روپے کے اضافی بجٹ کی منظوری بھی دی گئی اور ترقیاتی اور انتظامی کاموں کی نگرانی کے لئے ‘فاٹا کی گورنینس کونسل’ کی بھی منظوری دی گئی۔

مگرسب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دو اہم ترین حکومتی رفقائےکار یعنی جمعیت علمائے اسلام(جے یو ایف آئی) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے فاٹا کے اس انضمام کی مخالفت کی۔ جے یو ایف آئی کی تو مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ فاٹا کے خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کو اس خطے میں امریکی استبدادانہ عزائم کی تکمیل سمجھتے ہیں نیز ان کے تحفظات کو اس امر سے تقویت بھی ملتی ہے کہ ان کی فاٹا میں خاطر خواہ نمائندگی بھی موجود ہے۔ مگر پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے تحفظات تو بظاہر بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تو فاٹا میں کوئی ووٹ بینک ہی نہیں نہ ہی اسمبلیوں میں ان کی فاٹا سے کوئی بھی نمائندگی موجود ہے۔

علاوہ ازیں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں بھی فاٹا سے متعلق متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ جن میں سے ایک لنڈی کوتل میں بھی ہوا۔ جس میں انہوں نے بذات خود کہا کہ ایف سی آر کی تنسیخ اب دنوں کی بات ہے نہ کہ مہینوں کی، کیونکہ یہ وقت کی ضروت بن چکا ہے اب یہ صرف سیاسی نعرہ نہیں رہا۔ عین ممکن ہے کہ حکومت ان تمام اعلانات کو بطورایک ٹیکٹیکس اپنی حلیف جماعتوں کا پریشر مندمل کرنے کے لئے استعمال کررہی ہو جو فاٹا کے انضمام کے حق میں ہیں۔ مگر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے فاٹا کے فوری انضمام سے متعلق تمام دعوؤں کے باوجود ابھی تک اس کے مستقبل کے متعلق غیر یقینی کی فضاء قائم ہے۔ اسی غیر یقینی اور عدم تحفظ کی فضاء کی وجہ سےعلیحدگی پسند تحریکوں اور پشتونستان کے نعروں کو غربت اور علاقائی تعصب کی چکی میں پسے ہوئے فاٹا کی مظلوم عوام میں پذیرائی ملتی ہے نیز دشمن قوتیں اس کی آڑ میں ہدف کمیونٹی میں ملکی نظریاتی اساس سے متعلق کنفیوژن کو بڑھاوا دیتی ہیں جو کہ مستقبل قریب میں ملک میں کسی بڑے انتیشار اور انارکی جیسی خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لہٰذا فاٹا کے انضمام کا معاملہ پیچیدہ اور نازک ضرور ہو سکتا ہے مگر ہرگز ایسا نہیں کہ یہ ناقابل عمل ہو، بس ضرورت ہے تو تھوڑے سے سیاسی عزم کی۔ اس لئے ایک بات تو طے ہے کہ اگر حکومت پاکستان فاٹا میں اصلاحات لانے کے حوالے سے یہ آخری موقع بھی گنوا دیتی ہے تو فاٹا میں اس امن و استحکام پر پانی پھر جائے گا جو ہزاروں فوجیوں کے خون کے مرہون منت ہمیں اب جا کر کہیں حاصل ہوا ہے۔ اس لئے فاٹا کا کےپی کے کے ساتھ فی الفور پر امن انضمام نہ صرف قبائلیوں کی مشترکہ پکار ہے بلکہ یہ اس وقت پاکستان کےامن واستحکام کےلئے نہایت ناگزیر بھی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں