The news is by your side.

سفرنامۂ حجاز: اے سانس ذرا تھم، ادب کا مقام ہے

آہستہ آہستہ آپ پر اس کے جادو کے طلسم کھلتے ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس جگہ سے خوبصورت مقام شاید پوری زمین پر نہیں اور یہ خوبصورتی نہ تو یہاں کے لوگوں میں، سڑکوں میں اور نہ ہی عمارتوں میں، یہ تو کوئی اور ہی اجلی تاثیر ،کوئی نور کی بارش،کوئی رحمتوں کا سایہ ہے جو دھیرے دھیرے آپ پر اپنے اسرار کھولتا ہے

گزشتہ سے پیوستہ

مغرب کے ذرا بعد ہوٹل پہنچے تو ریسیپشن سے ہی معلوم ہوا کہ عشاء کے بعد روضہ رسول پر خواتین کی حاضری کے اوقات ہیں۔ عشاء میں ابھی کچھ وقت تھا۔سو نہانے دھونے اور کھانا کھانے کا کچھ وقت میسر تھا۔عشاء کی اذان ہوتے ہی جب ریسٹورنٹ بند ہونے لگے اور ہر کاروبار زندگی کا رخ مسجد نبوی کی طرف اس طرح بہنے لگا جیسے اونچائی سے جھرنا گہرائ کی طرف گرتا ہےتو ہم نے بھی بچوں کو سونے کےلئےبستروں پر لٹایا اور کمرہ لاک کرکے اپنی پہلی زیارت کے لیے نکل پڑے۔چند قدم کا فاصلہ اور لمبے میناروں والی اس مسجد کا ایک دروازہ ہمارے سامنے تھا کہ جس میں داخلے کے آداب تک ہمیں معلوم نہ تھے، جھک کر داخل ہوں،چوم کر بڑھیں یا رینگ کر چلیں کہ ہم کیڑے مکوڑوں سے وجود ہماری کیا اوقات تھی کہ ہم اس دروازے پر کھڑے تھے۔

    نبی ﷺکے نام کا وہ گھر کہ جس کے نور سے آج بھی سورج روشنی مستعار لے کر نکلتا ہے ،کہ جس کے نام پر آج بھی سب تخلیق سر کو جھکاتی ہے ، جس کے مقام پردن رات نجانے کتنے ہی فرشتے درودوسلام پڑھتے ہیں اور جس کی محبت میں خدا نے یہ کائنات تخلیق کر دی تھی۔اور اس مسجد کے اندر جنت کا حصہ جس کے دیس نکالے نے ہمیشہ سے ہم حقیر انسانوں کو بے چین کر رکھا ہے۔وہ ایک غلطی کہ جس نے ہمیں ثریا سے زمین پر دے مارا ،اس کی تلافی تو ممکن نہ تھی مگر جنت کے اس پرنور ٹکرے پر قدم پڑنے کی چاہ، اسے چھونے اسے چومنے کا مقام بس یہی کچھ قدموں کچھ لوگوں کے فاصلے پر ہے کہ وہ جنت ،وہ روضہ کی جالی وہ پیارے نبی ﷺکا آستانہ اور ٹھکانہ کہ جہاں سے ساری دنیاکی طرف رحمتیں روانہ ہوتی ہیں ، جس کے نام کی سفارش لے کر روزانہ کتنے ہاتھ اٹھتے ہیں ۔یہی کوئی چند قدم کی دوری پر ہے۔

اس فاصلے کے بیچ میں تھی صرف ایک نماز کی دوری۔میں اناڑی اور کم علم،کج فہم اور کمتر،نبیوں کے نبی ﷺکے عظیم گھر کے چمکتے صحن میں کھڑی تھی اور لاعلم انجان نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی تھی۔یہاں سے کیا کرنا ہے ،کس طرف کو جانا ہے ،کس طرف کو مڑنا ہے کچھ خبر نہ تھی۔مسجد نبوی ﷺمیں کتنی نمازوں، کتنے نوافل کا کیسا ثواب ہوتا ہے کچھ خبر نہ تھی۔میاں کے وعدوں کی بے اعتباری میں کچھ بھی تو مطالعہ،کوئی بھی ہدایات نامہ نہ پڑھا تھا کہ کہ اگر دل اس سفر کی آس سے لگ بیٹھا اور میاں کا پروگرام بدل گیا تو خود کو سنبھالا کہاں جائے گا۔ محض ٹکٹ کے ہاتھ میں آنے سے روانگی تک کے ڈیڑھ دن میں فٹا فٹ عمرے کا طریقہ ڈھونڈا تھا، اسے دو چار بار سمجھا کہ کیا فرائص ہیں کس طرح سے کرنے ہیں اور بس۔ایک آدھ دوست سے زبانی کچھ سوال پوچھے اور سامان سر پر لئے نکل پڑے زندگی کے اس اہم ترین سفر پر۔

اور اب میں تنہا اس قدیم سرزمین کی عظیم مسجد میں بے خبر سی کھڑی تھی۔مگر دل میں کسی گھبراہٹ کا کسی بے چینی کا کوئی نشان تک نہ تھا کہ پیارے نبی ﷺکے آستانے پر پریشانی کیسی ،گم جانا اور ملنا کیسا،الجھنا اور سمجھنا کیسا،یہ دنیا کی تو جاہ نہیں جہاں پر خوف اور اندیشے ہر قدم سے الجھتے ہیں،جہاں کھو جانے کی مشکل ہر اک اوڑھ ہوتی ہے۔یہ تو جنت کی نگری تھی جہاں آسانی ہی آسانی تھی، رحمت ہی رحمت تھی۔بہت خواب دیکھے زندگی بھر جنت کے ،جہاں کوئی فکر نہ ہو گی، کوی اندیشے نہ ہوں گے،سکوں ہو گا اور نور ہی نور ہو گا، جہاں کوئی مفلس نہ ہو گا کوی مسکین نہ ہو گا،کوئی بیمار نہ بوڑھا،کوئی بچہ نہ معزور،اگر یہ جنت نہ تھی تو پھر جنت اور کیا ہو گی۔یہاں ہم نے نہ کوئی مسکین دیکھا نہ غریب،کوئی بیمار نہ معزور،کوئی بوڑھا نہ بچہ۔

یہاں ہر ایک چہرے پر ایک سی طلب اور چاہت تھی،ہر ایک جسم میں ایک سی بجلی تھی،وہیل چئیرز پر ،کرسیوں پر بیٹھے،سٹرولرز میں لپکتے سب کے چہرے پر امن تھا سکون اور شانتی تھی۔ایسے کہ جیسے کسی سہانے دن کا خوبصورت سورج نکلے اور سب پر ایک سا چمکے اور انکے چہروں کو ایک سا روشن کر دے۔تو اس جنت میں روضہ رسول کا سورج ہر حلیے،اور حالت، ہر ہیئت اور عمر سے بے نیاز ہو کر ہر اک چہرے کو اپنے نور میں رنگتا جاتا ہے۔تو پھر اس جنت میں کانپتی ٹانگوں ٬لرزتے ہاتھوں والے بھاگے چلے جاتے تھے،کھانستے گولیاں کھاتے لوگوں کی بیماریاں تعطیل پر تھیں اور ہر بوڑھا اور بچہ ہر مرد اور عورت ، اندیشے اور وسوے، منفی جذبے،ہر غرور اور حسرت سے بے نیاز جنت کے باغیچوں میں جیسے تکیے لگائے بیٹھے تھے اور اس کالی کملی والے پیارے نبی ﷺپر درودوسلام کی تسبیح کرتے تھے۔

ننگے صحن کی آخری رو میں سب خواتین کے بیچ عشاء کی باجماعت نماز ادا کی۔نماز مکمل کر کے احتیاطا کچھ نوافل بھی پڑھے۔پھر ادھر ادھر دیکھا۔صحن میں فراغت سے بیٹھے گپ شپ لگاتے یا تسبیحات کرتے لوگوں میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔۔عورتوں کی اکثریت فرصت سے بیٹھی تھی کسی کو بھی کسی صورت جلدی نہ تھی ۔اس لیے اندازہ مشکل تھا کہ اب کدھر کو چلنا ہے۔سو میں اٹھی اور مسجد کو دیکھتی اس طرف کو چلی کہ جس طرف کچھ خواتین اندر جاتی دکھائی دیتی تھیں۔

اس جگہ سے کسی سمت سے گنبد خضرا کی کوئی جھلک نظر نہ آتی تھی تو یقینا کسی دوسری سمت ہی جانا ہو گا۔سو گھومتے گھماتے میں مسجد کے اندرونی حصے کے داخلی دروازوں تک پہنچی جہاں برقعہ پوش سیکورٹی کی عربی خواتین کمر سے کمر جوڑے ہر عورت کے بیگ کی تلاشی لے کرانہیں اندر داخل کرتی تھیں۔میں کیمرہ ساتھ نہ لائی تھی کہ یہ میری پہلی حاضری تھی اور آج آنکھوں کو نظارے سے بڑھ کر اور کسی چیز کی طلب تھی نہ اس بے حرمتی کی ہمت۔آج تو محض پاؤں چھونے تھے،منتیں اور التجائیں کرنی تھیں ۔آج تو صرف کالی کملی والے کے حجرے کے دیدار کی شب تھی اور نور کے اس اجالے میں بھیگنے کا مقام تھا تو ایسے میں دنیا کاندھے پر لاد کے لے جانے کی ہمت ہی کہاں تھی۔

جاری ہے
*********

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں