The news is by your side.

سفرنامۂ حجاز: اے سانس ذرا تھم، ادب کا مقام ہے

نبی ﷺکے نام کا وہ گھر کہ جس کے نور سے آج بھی سورج روشنی مستعار لے کر نکلتا ہے ،کہ جس کے نام پر آج بھی سب تخلیق سر کو جھکاتی ہے ، جس کے مقام پردن رات نجانے کتنے ہی فرشتے درودوسلام پڑھتے ہیں اور جس کی محبت میں خدا نے یہ کائنات تخلیق کر دی تھی

گزشتہ سے پیوستہ

مسجد ِنبوی ﷺمیں داخلے سے لے کر روضہ رسول ﷺمیں حاضری تک خواتین کے لیے اک خاصا صبر آزما مرحلہ ہے کہ عورتوں کے لیے مخصوص کردہ اوقات ، ذرا سے فاصلے کو میلوں کا فاصلہ بنادیتے ہیں ۔کپڑے کی اور لکڑی کی دیواروں پر دروازے لگا کر عورتوں کا اک جم غفیر سمیٹ سمیٹ کربٹھایا جا رہا تھا۔چند ایک برقعہ پوش عرب سیکورٹی کی خواتین آواز لگاتیں اور ہم کسی کے ہاتھ پر، کسی کے پاؤں پر بیٹھتے چلے جاتے ۔یہ بھی اک معجزہ تھا کہ سینکڑوں عورتیں،ہر رنگ ہر نسل ہر عمر اور ہر انداز کی عورت محض دو یا تین سیکورٹی کی خواتین سے کنٹرول ہوجاتی تھیں۔تو یہاں ہم بھی عورتوں کے کندھوں سے کندھے ملائےکبھی بیٹھے کبھی کھڑے ہوئے۔

 

ایک کے بعد ایک در کھلنے کا انتظار طویل ضرور لگا مگر کوفت زدہ نہیں ۔زباں پر درود شریف رکھیں اور گھنٹوں انتظار کی لائن میں لگے رہیں۔درود و سلام کا یہ لطف زندگی میں پھر کبھی کہیں نہ آئے گا جو نبی پاک ﷺکے قدموں میں بیٹھ کر ،ان کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر، ان کے آستانے کو پکڑ کر پڑھنے میں ہے۔یہ اس دربار کی برکت ہے،رحمت ہےیا عظمت ہے ۔یہ کوئی ایسی ہی نعمت ہے جو اس دنیا کی چیز نہیں۔وہ جو ہم سنتے ہیں کہ آسمانوں پر فرشتے دن رات درودوسلام میں مصروف رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیسی محنت کرتے ہوں گےوہ فرشتے،تو نبی ﷺکی اس چوکھٹ کو پکڑ کر درود و سلام پڑھ کے دیکھیے آپ کو وہ لذت ملے گی جس میں بہہ کر فرشتے سالوں اور صدیوں، دن اور رات صرف اسی ذات پر درود و سلام کہتے رہتے ہیں۔

یہاں بھی جہاں جہاں کچھ قیام ہوا، نوافل اور درود پاک کی توفیق ملتی رہی۔ پھر ایسا ہوا کہ خواتین کے اسی ریلے میں بہتے بہتے اک ایسے جگہ جا پہنچی کہ جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا،سانس لینے کو ہوا مچلتی تھی اور تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔کچھ خواتین سامنے کی سمت چلنے کی کوشش میں ہلکان تھیں اور کچھ کی تمام تر جستجو بائیں طرف نکلنے کی تھی جہاں اک پردے کی بنی دیوار کے اوپر سے جھانکتی سبز جالی تھی۔ کسی خاتون کی سرگوشی نے خبر دی کہ جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا وہ اعلی ٰمقام آ پہنچا ہے کہ جس کی بشارت بہت کمسنی میں ہماری پلکوں پر اتری تھی ، آنکھوں نے جب سے خواب دیکھنے سیکھے تھے مرادیں ہاتھ میں لیے یہ دل ہمیشہ جس کی سمت لپکا تھا۔ محض چند ہاتھ کے فاصلے پر جو سبز جالی تھی وہ ہمارے عزیز تر نبیﷺ کے روضہ کی جالی تھی کہ جس کی اک نظر کی طلب میں کیسے زندگی ترستی تھی۔

اس جگہ اس مقام پر کہ جہاں نبی پاک کے مبارک قدموں کو یہاں کی خوش قسمت مٹی چومتی تھی،جہاں آپ استراحت فرماتے تھے اور دنیا کے خوش قسمت ترین زمانے کے خوش نصیب ترین لوگوں پر نظر کرم کرتے تھے اور اپنی دعاؤں اور مرادوں میں ہم جیسے حقیر امتیوں کےلئے اور ہمارے بعد آنے والوں کے لئے بھی دعائے رحمت کرتے تھے۔یہی محض چند ہاتھ کے فاصلے پر میرے بائیں جانب قریب تر پہنچ جانے والی خواتین کپڑے کی دیوار تھامے اس چوکھٹ سے لپٹی تھیں اور آہ و زاریاں اور فریاد کرتی تھی،پیارے نبیﷺ سے دل کا حال کہتی تھیں۔وہ عورتیں جن کے لئے پیارے نبیﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر کہا تھا کہ ’’عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو!‘‘ تو آج وہ عورت اسی پیارے نبی کا در تھامے کھڑی تھی اور فریاد کرتی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

خصوصا ًعرب کی عورت چونکہ عرب کی عورت کو میں نے ہمیشہ سر اٹھا کر تن کر چلتے دیکھا ہے۔ہمارے ایشیا کی عورت تو شاید یہ فریاد بھی نہ کرتی ہو گی کہ اسے گھٹی میں سبق دیا جاتا ہے کہ ستی ہو جانا ہی اس کی معراج ہے۔اس کے حقوق کا شعور اس سے اتنا دور رکھا جاتا ہے کہ وہ کالے اور گورے کا فرق تک جان نہیں پاتی۔اور جو چلتی ہے تو سر اور کندھے اتنے جھکا دیتی ہے کہ اک الگ مخلوق لگنے لگتی ہے پھر بھی ساتھ چلنے والا اس عورت کے ساتھ ہونے پر ہمیشہ شرمندہ رہتا ہے،چاہتا ہے اس عورت کو مزید مٹی میں دھنسا دے،کچھ اور فتوے لگا کر،کچھ اور فرائض لاد کر،کچھ اور حقوق چھین کر،کچھ اور پردے لاد کر۔

یہیں اسی مقام پر سینکڑوں عورتوں میں گھسے جہاں سر جھکانے تک کی جانہیں تھی، میں نے نفل کی نیت کی اور اس ہجوم میں کبھی ادھر گرتے کبھی ادھر گرتے کھڑے کھڑے اشارے سے نفل ادا کیے۔اللہ جانتا ہے کہ اس قدر ہجوم میں اشاروں میں نفل پڑھنے مناسب تھے کہ نہیں مگر وہاں جہاں بے تحاشا کمزور بوڑھی عورتیں ،ماؤں سے لپٹے ننھے بچے عورتوں کے ہجوم میں پھنسے سانس لینے کو ترستے تھے، یہ مجھے نا مناسب لگا کہ ایک عورت جگہ گھیرنے کو دائیں بائیں کھڑی کر کے بیٹھ کر نفل پڑھنے کی کوشش کی جائے۔نوافل پڑھ کر روضہ رسول ﷺکی جالی کو خوب جی بھر کر نگاہوں میں قید کیا اور سائیڈ سے جتن کرتی آگے جانے کی بجائےمیں ذرا پیچھے کو تھوڑی کھلی جگہ پر سرک آئی۔اس لئے بھی کہ دوسروں کو موقع مل جاے اور اس لئے بھی کہ بغیر زحمت کے دیدار روضہ نبی کیا جاے۔

سمندر پار سے رب کی رحمت اور نبی کا کرم اپنے قدموں تک لے آیا تھا تو دل اسی پر بہت مسرور تھا۔جالی کو ہاتھ نہ پہنچا،دیوار کو چھو کر نہ دیکھا ایسی کوئی حسرت نہ تھی کہ یہی کیا کم معجزہ تھا کہ میں تھی میرے سامنے محض چند ہاتھ پر میرے نبی کے روضے کی جالی تھی۔ میرا پڑھا درود اب میلوں کے فاصلے سے نہیں یہی چند قدم کے فاصلے پر ان تک پہنچ سکے گا،یہی سعادت کیا عمر بھر کے جینے کے لیے کم تھی۔ذرا پیچھے کھڑے ہو کر اس پیارے نبی کے روضہ مبارک کی سبز جالی کو نظروں سے بوسے دئیے جن کی شفاعت کے وعدے پر ہم جیسے کتنے ہی کمتر حقیر لوگوں کی سانسیں بحال رہتی ہیں،اور سر اٹھے رہتے ہیں،ہم اپنے چیتھڑے لگے خستہ حال ایمان پر بھی جس کے نام کا آسرا ہمیشہ اک چھتری کی طرح تانے رکھتے ہیں۔

نبی پاک ﷺکے در سے میرا تعلق بہت ہی ذاتی بہت قدیم ہے ۔ تب بھی جب اک کمسن لڑکی کی طرح روضہ پاک میں بیٹھی میں درود پاک کی تسبیح کرتی تھی،تب بھی جب میری دنیا جیت لینے کی سب ریاضتیں مٹی میں ٹوٹ کر مٹی ہو جاتی تھیں،تب بھی جب سیدھی راہ پر ہو کر بھی گمانوں اور بہتانوں کی سنگباری سہنا پڑتی تھی،، تب بھی جب دنیا پیروں کے نیچے سے سرکتی تھی اور سر پر سے آسماں غائب ہو جاتا،جب راست ہو کر بھی زہر کا پیالہ محض آپ ہی کی قسمت ہو،تو اس پیارے نبی کا مبارک نام کتنے ہی دلوں کی امان بنتا ہے۔اس دنیا کے ہاتھوں جو بھی ٹوٹتا ہے وہ روتا ہوا اسی در پر آتا ہے کہ جس کی چوکھٹ کے سامنے ابھی مجھ سی اک حقیر ہستی کھڑی تھی۔

اسی پیارے نبی کا نام ہی میرا ہر کڑے موڑ پر دلاسا بنا تھا ،جس نے مجھے گر نے کے بعد پھر کھڑا کیا تھا ،اسی نے زندگی کے فنا ہو جانے کے بعد پھر سے حیات کو میری جھولی میں بھرا تھا ایک بار نہیں کئی کئی بار ۔ہم ناکارہ ناہنجار لوگ ہیں بار بار گر جاتے ہیں اور ٹوٹ بکھر جاتے ہیں تب یہی پیارے نبی کی شفاعت، ان کی رحمت ،وہ صدیوں پہلے ان کے اٹھے ہاتھ ہمیں پھر سے جوڑ کر کھڑا کر دیتے ہیں۔۔ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن جانے والے پیارے نبی ﷺکی آنکھوں میں کسی کے لئے کوئی تہمت کوئی بہتان نہ تھا، جو دنیا کی نظروں اور زبانوں سے بالاتر ہو کر دیکھتا اور سوچتا اور انسانوں میں عزت اور احترام اور حقوق بانٹتا تھا۔تو آج ان کی کالی کملی کو بوسہ دینے کا وقت تھا تو یہی کیا کم تھا کہ ان کی چوکھٹ کو تھام کر نہیں تو ان کی چوکھٹ کے باہر میں کھڑی تھی،صرف میں اور میرا وہ پیارا نبی ﷺاور بس وہاں پھر اور کوئی نہیں تھا۔

نبی پاک کی اس جنت میں عورتوں کے ہجوم میں ہر عورت تنہا تھی اور اپنے نبیوں کے والی سے دل کا حال کہتی تھی پوری رازداری سے،پوری محویت سے۔اور اسے وہ سب کہتی تھیں کہ جو کہنے اور بتانے کی آرزو میں انہوں نے اتنی زندگی گزاری تھی۔اسے وہ سب حوالے دیتی تھیں جب جب وہ اس کی رحمت کی راہ اس ظالم دنیا میں دیکھتی رہیں،جب جب انکی جھولی کے حقوق چھینتے رہے اور دنیا میں کسی کان تک ان کی دہائی نہ پہنچی،آج وہ سب کہہ دینے کی اور پیارے نبی کو اپنی پہچان کروانے اپنا حوالہ یادکروانے کی رات تھی۔یہاں ہم نے عربی عورتوں کو بالخصوص مصری عورتوں کو بےتحاشا بلکتے دیکھا۔ لال سرخ آنکھیں کچلی ہوی ناک ،جالیوں سے لپٹی خاموشیوں میں بلکتی عورت اور ان کے مقابلے میں پاکستانی عورتوں کی اکثریت کچھ بے نیازسی، کم جذباتی،رٹی ہوئی دعائیں پڑھتی ،رٹے ہوئےسجدے کرتی نظر آتی ۔

نجانے ہم نے اپنی قوم کو اخلاص کیوں نہیں سکھایا ،ہم جہاں بیٹھتے ہیں کچی گولیاں کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں ،زندگی کے ہر محاذ پر کھوٹے سکے لے کر پہنچ جاتے ہیں ۔کبھی گفتگو میں مصروف ،کبھی عمارت کی خوبصورتی میں الجھے،کبھی تبصروں میں پھنسے یہ بھول جاتے ہیں کہ کیسی کیسی کرامتیں ہمارے سامنے کھڑی ہماری جھولی میں گرنے کو بیقرار ہوتی ہیں اور ہم وہاں بیٹھے ان کرامات کو سمیٹ لینے کی بجائے اینٹوں اور پتھروں کی مدح سرائی کرنے میں مگن رہتے ہیں۔اگر آپکا بھی دل کسی شے میں اٹکا ہے اور دل پر لگا تالہ ابھی ٹوٹنے سے ڈرتا ہے تو ایسے ہی کسی مصری لال سوجے روتے سسکتے چہرے پر نظر ڈالیں اور اس کے چہرے پر روضہ رسول کی جالی کی حدت محسوس کریں۔آپ کے دل و روح کے سب تالے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جائیں گے اور ایسے سیلاب نکلیں گے کہ پھر سنبھالے نہ جائیں۔گے۔یہاں عشق کی آتش اڑتی پھرتی ہے کہ جو چاہے مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لے ،جو چاہے مجھے سینے سے لگا لے۔یہاں کوئی کمتر اور کوئی افضل نہیں۔نبی ﷺکے دربار میں پہنچ کر سبھی ایک ہو چکے ہیں۔

جاری ہے
*********

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں