The news is by your side.

اقوام کی قیادت کن اوصاف کے حامل افراد کے پاس ہونی چاہیے؟

ہمارے ہاں قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے افراد کو قومی اداروں کا سربراہ بنانا معمول کی بات ہے جو حکمرانوں کی جی حضوری کا شغف رکھتے ہوں اور برائے نام تعلیمی اور انفرادی قابلیت سے بھی محروم ہوں۔ بدقسمتی سے انہی وجوہات کےپیش نظر ماضی قریب و بعید میں ہمارے ملکی ادارے جمہوری ادوار کے باوجود تیزی سے عدم استحکام کا شکار ہوئے اور ان نام نہاد جمہوری ادوار میں ملکی ضروریات کے تقاضوں پر تو سمجھوتہ کیا ہی گیا بلکہ عوام کو بھی بنیادی ضروریات زندگی سے کوسوں دور رکھ کر ہمارے سیا سی قائدین نے ملکی قیادت کے لئے اپنے پختہ نااہل ہونے کے ثبوت پر باقاعدہ مہریں بھی ثبت کیں۔ جس سے پاکستان میں بے یقینی کے صورتحال نےنہ صرف جنم لیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ داخلی و خارجی محاذوں پر بھی ہمیں گھمبیر نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں ہماری ناکام خارجہ پالیسی اور ناقص ترین سفارتی حکمت عملی پر سوال اٹھنا ہرگز اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ ہم بدقسمتی سے بانی پاکستان، حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے فوراً بعد سے ہی بحیثیت قوم عدم قیادت کی بنا پر انگریزی والا ’سفر‘ کرنا شروع ہو گئے تھے۔

تاحال ہم ایک نیک سیرت،بلند کردار،معاملہ فہم اور ایسے دور اندیش راہنما سے محروم ہیں جو ہمیں بھنور سے نکال کر ایک سمت میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بے پایاں صلاحیتوں سے مکمل لیس ہو نیزجس کے لئے ذاتی عناد یا پارٹی کا مفاد کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے موجودہ ریاستی، سیاسی اور انتخابی نظام میں مثالی قیادت کے ابھرنے کے امکانات بالکل معدوم دکھائی دیتے ہیں۔

اس قیادت کے بحران کے سنگینیوں سے دوچار ہماری نوجوان نسل بھی تنگ نظر آتی ہے ، انہیں بھی اس مسئلے کی اہمیت کا جہاں مکمل ادراک ہے وہاں فکر بھی لاحق ہے۔ اور فکر ہو بھی کیوں نہ آخر وہ ہی تو اس ملک کے روشن مستقبل کا درخشاں ستارہ ہیں اور شاید آخری امید کی کرن بھی۔ اور میری یہ امید کی کرن مزید روشن تب ہوئی جب حال ہی میں میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی کتاب(قیادت کے اوصاف برائے سید حسنین نوری) سے روشناس ہوئی جو کہ محض ایک 25 ،24 سال کے نوجوان کی تحریر کردہ ہے۔ یوں تو مصنف نے اپنی کتاب میں کسی بھی تنظیم یا ادارے کے لئے منتخب کئے جانے والے سربراہان کی قابلیت و لیاقت سے متعلق روشن اصول پیش کئے ہیں مگر اگر ہم غور کریں تو ہمیں یہی سنہری اصول اپنے ملک کی اعلیٰ قیادت کے لئے بھی ناگزیر معلوم ہوتے ہیں ۔

جہاں اس کتاب کا انداز نہایت متاثر کن ہے، وہیں کتاب میں دلیل سے مزین تحریر کا خوبصورت ربط بھی یہ کتاب آپ کو مکمل پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کتاب میں جہاں قارئین کو جامع نظری، بصیرت اور دور اندیشی جیسے قیادت کے راہنما اصولوں سے متعارف کروانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں ان عوامل کی بھی بھر پور انداز میں نشاندہی کی گئی ہے جن کی کسی بھی قائد میں عدم دستیابی کی بنا پر معاشرے میں قیادت کا فقدان جنم لیتا ہے جیسے کہ

ا۔ قوت فیصلہ، اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی قائد میں صرف قوت فیصلہ ہونا کافی نہیں بلکہ قائد کو اس وقت کا ادراک ہونا بھی ناگزیر ہے جب کوئی فیصلہ نہ کرنے میں ہی قوم و ملک کی عافیت ہو۔

ب۔ حکمت و معاملہ فہمی، بظاہر یہ کسی بھی قسم کی ناقص صورتحال یا نامساعد حالات سے نمٹنے کی قائدانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ مگر اس کتاب میں اسے کسی بھی قائد کی ‘عقل و دانش’ کی ‘باڈی لینگوئج’ قرار دیا گیا ہے جس کی آزمائش ہمیشہ قوموں کو درپیش کٹھن مرحلوں اور مشکل گھڑیوں میں ہی ہوتی ہے۔

ج۔ مزید براں، مصنف نے مورال کو کسی بھی لیڈر کی خوداعتمادی اور اس سے جڑی اس کی قوم کی امید قرار دیاہے۔ چونکہ صرف بلند مورال قائد ہی اپنی قوم کو درپیش کٹھن مرحلوں میں اس کا نہ صرف حوصلہ بر قرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اس کی قوت کو ایک نئی جلا بھی دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور بددل نہ ہوں۔

علاوہ ازیں، سید حسنین نوری کی اس تصنیف میں کسی بھی لیڈر کے استعداد اور لیاقت کے انفرادی معیارات بھی تجویز کئے گئے ہیں جس میں نظم و ضبط، پہل کاری، تحمل و برداشت، انداز گفتگو وغیرہ سر فہرست ہیں۔ بظاہر یہ آپ کو سادہ سی عام فہم کتاب نظر آئےگی مگر حقیقتاً یہ علم و دانش، فہم و فراست کا نہ صرف منبع ہے بلکہ یہ چند ایک ایسے امور کو بھی آشکار کرتی ہے جوقومی نوعیت کی افادیت کے حامل ہیں مثلاً ہمارے لیڈران کو اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اپنے ملک کے قومی نظریات کا نہ صرف محافظ بننا چاہیئے بلکہ اپنی قوم کو سیاسی پارٹیوں، نسلی و صوبائی تعصب سے دور رکھ کر معاشرے سے منفی سوچ اور ناقص رویوں کا تدارک بھی کرنا چاہیئے۔

فی الحال تو ہماری ملک کی صورتحال نہایت ابتر ہے جہاں قیادت کا شدید بحران دکھائی دیتا ہے۔ نہ تو سفارتی محاذ پر ہماری مؤثر نمائندگی کی جاری ہے اور نہ ہی عالمی فورمز پر ہماری آواز کی کوئی وقعت دکھائی دیتی ہے۔ حتیٰ کہ اب عالم یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈران حضرات’اسلامک سربراہی کانفرنس’ میں بھی مسلم سربراہان کی آخری صف میں کھڑے دکھائی دینے لگے ہیں واضح رہے کہ یہ وہی اسلامی سربراہی کانفرنس ہے جس کا ہم کبھی دم خم ہوا کرتے تھے ۔

دراصل مسئلہ نہایت سادہ ہے ہمارے لیڈران نے خود کو تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بجائے خود کو جاگیردارنہ اور وڈیرانہ سوچ میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دنیا نے اسلام کے سنہری اصول اپنائے ان پر عمل پیرا ہوئے اور آج وہ کامیاب و کامران ہیں اور ہم نے ان سے کنارہ کشی کی، نتیجتاً بحیثیت قوم آج ہم بھگت بھی رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے گرد و انواح میں ایسے ماحول کو فروغ دینا ہو گا جہاں نئی معیشت، بدلتی زندگی اور ابھرتی تہذیب کے ارتقاء سے نئی قیادت جنم لے سکے جہاں حسنین نوری جیسے ہمارے ہونہار نوجوانوں کو بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ المختصر، جہاں قیادت کسی کی خاندانی وراثت یا موروثی اجارہ داری نہ سمجھی جائے بلکہ اس کا معیار خالصتاً کسی بھی لیڈر کی انفرادی لیاقت و ذہانت پر مختص ہو۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں