کسی خاتون کی سرگوشی نے خبر دی کہ جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا وہ اعلی ٰمقام آ پہنچا ہے کہ جس کی بشارت بہت کمسنی میں ہماری پلکوں پر اتری تھی ، آنکھوں نے جب سے خواب دیکھنے سیکھے تھے مرادیں ہاتھ میں لیے یہ دل ہمیشہ جس کی سمت لپکا تھا۔ محض چند ہاتھ کے فاصلے پر جو سبز جالی تھی وہ ہمارے عزیز تر نبیﷺ کے روضہ کی جالی تھی کہ جس کی اک نظر کی طلب میں کیسے زندگی ترستی تھی
گزشتہ سے پیوستہ
روضہ رسول ﷺ سے اٹھ کر واپس ہوٹل کی طرف لوٹنا اک کڑا مرحلہ تھا مگر ستم یہ تھا کہ دن بھر کے سفر کی تھکاوٹ تھی ، تہجد کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کی شدید چاہت تھی تو اسی دوپہر عمرے کی روانگی بھی تھی ۔گھڑی دو گھڑی کا آرام نہ کرتے تو عمرہ کی افادیت تھکاوٹ کی نظر ہو جاتی۔ نبیﷺ کے در پر حاضری کے بعد رب کعبہ کے در پر حضوری میں بھی اتنی ہی چابک دستی اور مستعدی درکار تھی ورنہ کیا منہ لے کر اس کے در پر جاتے۔
رات بارہ بجے کے قریب مسجد سے واپسی ہوئی تو ذہن میں اک خیال اترتا رہا۔سوچا کہ شاید اسی سرزمین میں، یہیں کے لوگوں میں اتنی طاقت تھی کہ ایسی عظیم ترین ہستیوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتیں اور ان کے تقدس اور احترام کا بوجھ اٹھا سکتے۔احساس ہوا کہ ہمارے اسلام کے نام پر بننے والی تاریخ کی دوسری ریاست میں جہاں محض چند اولیاء کرام کے مزارات ہیں اور ہم نے انکو ملنگوں،دھمالوں،تعویذ گنڈوں،فقیروں اور منشیات فروشوں کے حوالے کر دیا۔تو یقینا یہ مدینہ کی زمین کی طاقت اور اس کے لوگوں کی ہمت تھی جو اتنی عقیدت بھری جگہوں اور ان کی سچائیوں کو صدیوں سے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ جو ہوتے یہ مقام گر پاکستان میں تو سوچئے ہم نعوذ باللہ ان کا کیا حال کر دیتے۔
رات کے آخری پہر تین بجے جب میں مسجد نبوی ﷺکے لئے تنہا نکلی تو گرچہ ریسیپشن سے لے کر مسجد تک ہر شے،ہر دکان اور ہر روشنی جاگتی تھی ،سناٹا گر نہ تھا تو خموشی ضرور تھی۔کچھ فاصلے کے ہوٹلز میں قیام رکھنے والے زائرین راتیں مسجد ہی کی صفوں پر سوتے جاگتے گزار دیتے ہیں۔قریب کے ہوٹلز والے کہیں کہیں کوئی اکا دکا لوگ نکلتے دکھائی دییے۔رات کے تین بجے ،ایک غیر ملک کی سڑک پر،چند قدم کا فاصلہ تنہا پار کیا تھا تو ایسا کرنے والی یہ زندگی کی پہلی رات تھی۔
سالہا سال ابوظہبی کی محفوظ گلیوں میں بھی کبھی یہ ہمت اور وقت زندگی نے نہ دیکھا تھا کہ اندھیری رات میں پھیل جانے والی تاریکی کی قوتوں، وسوسوں،شیطانی ارواح سے ڈر طبیعت کا اک خاص خاصا ہے۔مگر آدھی رات کو پاکستان کے اک روایت پسند گھرانے کی تنہا عورت کا اک انجان دیس کی گلی میں نکلتے خوفزدہ نہ ہونا بھی ان مبارک مقامات کی نورانی تاثیر کا اک معجزہ تھا۔
دماغ کو جکڑا ہر وسوسہ اور دل کو جکڑا ہر خوف انسان کو رہائی دے دیتا ہے۔دنیا بھر کی عموماً اور جنوبی ایشیاء کی خصوصاً پسی ہوئی،دبائی گئی ،چھپائی گئی عورت اس گھر کے قریب پہنچ کر دلیر ہو جاتی ہے۔آدھی رات کو سویا خاندان چھوڑ کر ہوٹل سے نکل آتی ہے،مسجد کی سمت چل دیتی ہے، نبی پاک ﷺ کے حجرے نے اس کی گردن اور کندھوں پر رکھے بھاری وزن اٹھا دئیے ہیں اور اسکے آس پاس کھڑی پابندی اور ذمہ داریوں کی دیواروں سے اسے آزاد کر دیا ہے،آج اسکی رہبر،اور وکیل پیارے نبی پاک ﷺکی ذات ہو جاتی ہے۔
گھر کے سات پردوں میں،آخری کونے میں چھپا کر رکھی گئی ،عورت کا جھکا سر اٹھ جاتا ہے اور وہ اپنی تمامتر زندگی سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔آج اس مسجد پر،روضہ رسول پر،ریاض الجنہ پر،باجمعاعت نمازوں پر، مصلوں پر ،تہجد اور راتوں کی عبادت پر اس کا برابر کا حق ہے وہ حق جو اپنے شہر کی گلیوں میں کسی نہ کسی بہانے اس سے چھین لیا جاتا ہے۔آج کوئی خوف،کوئی رعب،کوئی حکم،کوئی ذمہ داری اسے اس روضے کی جالی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔
آج وہ حفاظت،عزت اور تقدس کے نام پر چار دیواری میں قید نہیں کی جا سکتی کہ آج رحمت لقب پانے والے کی رحمت کا سہارا اس کے ہاتھ ہے۔اسی لئے جنوبی ایشیا کی عموماً اور پاکستان کی خصوصا تھکی ہوئی،پسی ہوئی عورت سر اٹھائے بے نیازی سے مسجد نبوی کے صحنوں میں آدھی رات کو تنہا بیٹھی ہے،بھائیوں بیٹوں،باپوں اور شوہروں سے لاپرواہ،غیر مردوں کی موجودگی سے بے نیاز،پردیس کی ہواؤں سے لاتعلق،اک پیارے نبی کے آستانے کا سایہ ہی بہت ہے ہر اندیشے،ہر خوف،اور ہر وہم پر چھا جانے کے لئے۔ کچھ دنوں کے لیے یہ خودمختار طاقتور عورت جی بھر کر نماز اور تلاوت کرتی ہے،سنہری جالی پکڑ کر روتی ہے اور سبز گنبد دیکھ کر دہائیاں دیتی ہے اور جی بھر کر یہ فرصتیں ،فراغتیں،عبادتیں اور سعادتیں اپنی جھولی میں سمیٹتی ہے کہ آج اس کا حصہ آدھا کرنے کا اختیار اس دنیا کی کسی طاقت کے پاس نہیں۔
انہیں آزاد،مضبوط اور خودمختار عورتوں کے بیچ مسجد نبوی کے صحن میں تہجد اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سب سے پہلی طلب مسجد کے گنبدوں پر پو پھوٹنے کے مناظر اپنے کیمرے میں قید کرنے کی تھی چونکہ روضہ رسول میں داخلے کے اوقات سات بجے کے بعد تھے اور اس سے پہلے مسجد دیکھنے اور تصاویر بنانے کے لئے مناسب فراغت تھی۔ سورج کی یہ پہلی کرنیں مجھے مل نہ سکیں کہ مسجد کے کناروں پر بلند بالا ہوٹلز کی عمارتوں نے سورج کو کہیں پیچھے چھپا رکھا تھا۔بیگ میں کیمرہ لیے دو بار مسجد کا اندرونی دروازہ پار کرنے کی کوشش کی مگر کمر سے کمر جوڑے کھڑی سیکورٹی کی عرب خواتین نے دروازے سے ہی’امانتہ‘ کا رستہ دکھا دیاکہ پروفیشنل کیمرے کے ساتھ اندر جانے کی قطعی اجازت نہ تھی۔
سو صبح سویرے کے کچھ لمحات مسجد نبوی کی زیارت کرتے ،اس کے دائیں بائیں گھومتے کچھ مناظر قید کرتے فرصت سے گزارے اور پھر گیٹ کے پاس بنے بند لاکر سسٹم کے تحت بنے’امانتہ‘ میں دو ریال فی گھنٹہ کی قیمت سے اسے جمع کروا دیا جس کے وجود نے میرے قدموں کو حاضری سے روک رکھا تھا۔پیچھے ٹکائے بیگ میں جوتے گھسائے کہ جوتے غائب ہو جانے کا مرض یہاں پر بھی خوب پھیلا ہے اور اب کی بار آرام سے دروازہ پار کیا۔اندر سے آب زم زم کے کولرز سے پانی کی بوتل بھر کر بیگ میں ٹھونسی اور ایک بار پھر کئی راہداریوں سے گزرتے کئی رکاوٹوں کو پار کرتے روضہ رسول ﷺ پہ پہنچی۔
اس بار یہ زیارت کچھ مزید فاصلے سے میسر آئی چونکہ ابھی رکاوٹیں اٹھانے کا آغاز تھا اور شاید میری اس بار کی آخری اور مختصرحاضری بھی کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں عمرہ کی روانگی سے پہلے مسجد قبا،جنت البقیع،اور کوہ احدکی زیارت کرنے کی بھی آرزو تھی۔نجانے پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار کھلنے والا یہ در پھر کب نصیب ہو،نجانے پھر کب ہماری درخواستیں قبول ہوں،۔۔۔۔۔نصیب میں حاضری نہ ہو تو دور رہنے کے ہزار بہانے بن جاتے ہیں۔ہم بھی مقدر کے ان بہانوں سے ڈرتے ہر اہم زیارت پر کم سے کم اک نظر ڈالنے کے متقاضی تھے۔ کچھ گھڑیاں پھر سے جالی کے سامنے مینار سے ٹیک لگائے اپنے شکوے شکایتوں،مرادوں اور شکرانے کا دفتر سجائے ، اپنی ہر طلب،حسرت اور خواب اٹھا اٹھا کر پیارے نبی کے حوالے سے اس کے محبوب کے سامنے رکھتی رہی ساتھ ہی ساتھ ان سارے احباب کے محبت نامے،سندیسے اور سلام بھی جنہوں نے نکلتے سمے یا بیچ راہ یا پہنچتے ہی مجھے روک کر تھمائے تھے اس کی چوکھٹ پر چھوڑے جس کے نام کے تھے۔
بہت بار قریب تر عزیزوں کے قبروں پر فاتحہ کے لئے جانا ہوا تو ہمیشہ ایک بات محسوس کی۔قبر کے کنارے بیٹھے آپ کبھی اس ہستی کی تاثیر محسوس نہیں کر پاتے ۔عجب سا خالی پن محسوس ہوتا ہے۔ واحد روضہ رسول پر یہ احساس دیکھا کہ آپ کی مبارک ہستی کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔دکھائی نہ دینے والی آپکی موجودگی دھڑکنوں میں سنائی دیتی تھی اور انسان نہ دیکھتے ہوئے بھی آپ کی ہستی کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے۔کیا آپ نے بھی کبھی یہ محسوس کیا؟۔روضہ رسول ﷺپر جائیں تو یہ فرق ضرور محسوس کریں ۔روضہ رسول میں پیارے نبیﷺ کی تاثیر اور خوشبو صدیوں بعد بھی آج بھی حیات ہے۔زندگی کی ان کچھ قیمتی ترین الوداعی گھڑیوں کے بعد مڑ مڑ کر دیکھنے کا عمل تھا،بھاری دل تھا اور پلٹتے ہوئے قدم تھے۔دل چاہتا تھا کہ یہیں کہیں قریب کا ہی ٹھکانہ ہو کہ کبھی اس گنبد کو اور اس گنبد کے والی کو یوں چھوڑ کر لوٹنا نہ پڑے۔
ریاض الجنہ میں یونہی چند گھڑیوں کی حاضری لمحوں میں گزر گئی تھی۔نکلنا بھی ضروری تھا چونکہ پیچھے بچے جاگ چکے تھے ناشتے پر میری موجودگی کے لیے گھڑی گھڑی فون کھڑکاتے تھے۔سو اپنی طرف سے الوداعی بوسے دیتی،واپسی کی گستاخی کی معذرتیں کرتی میں واپس ہوٹل کی طرف لوٹ رہی تھی۔ ہم حقیر اور بیکار لوگ ایک ہی گھنٹے کی دعا سے بھر جاتے ہیں۔ساری عمر آہیں بھرنے والی دعائیں چند لمحوں میں ختم ہو جاتی ہیں کچھ مانگی جاتی ہیں کچھ یاداشت سے ہی اوجھل ہو جاتی ہی ۔وہ مسائل وہ شکوے وہ حسرتیں جن پر ہم اٹھتے بیٹھتے ہائے ہائے کرتے ہیں نظروں میں ایسی حقیر ہو جاتی ہیں جیسے جہاز کے بلندی پر جا کر نیچے کے بلند و بالا پہاڑ بھی کم قیمت اور حقیر لگنے لگتے ہیں۔یوں سمجھیں کہ مکہ اور مدینہ دنیا کے بلند ترین مقامات ہیں جغرافیائی حساب سے نہیں،تاثیر کے حوالے سے،کہ یہاں پہنچ کر زندگی کی ہر حاجت،ہر طلب ہیچ ہو جاتی ہے۔
جاری ہے
********