گزشتہ سے پیوستہ
حجر اسود کے سامنے لگی سبز بتیوں سے شروع کرتے، خدا کی بزرگی کی گواہی دیتے ہاتھ اٹھاتے ہم ،خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ،اس کی شان کے گن گاتے اور اس سے التجاء کرتے اس حرکت کرتےزندہ جاوید محور میں ضم ہو گئے جس میں آس پاس آگے پیچھے ہر شخص کی نگاہ صرف سامنے کے رخ تھی،ذبان پر ذکرِ ربی تھا اور دل میں بے قراری تھی۔ہر نفس اک ایسے پتلے کی مانند تھا جسے خانہ خدا سے دھاگوں سے باندھ کر کنٹرول کیا جا رہا ہو،اس طرح کہ اس کی نگاہ، ہاتھ نہ نیت کسی اور طرف بھٹک ہی نہیں پاتی۔
آدھا کندھا برہنہ کئے آس پاس بے تحاشا مرد اور ان کے بیچ بغیر فاصلے کی تمیز کے ،بغیر جھجک اور ہچکچاہٹ کے چلتی عورتیں۔۔پاکستان کے روایت پسند معاشرے میں پلا میرا ذہن سوچتا رہا کہ یہ کیسے ہوا کہ ہماری خود ساختہ بنائی حدیں اتنی بودی اور بے بنیاد ہیں کہ جہاں پر دو مردوں کے بیچ ایک عورت گھبرائے اور سر جھکائے بغیر خوفزدہ ہوئے بنا یا تہمت زدہ ہوئے بنا چل نہیں پاتی۔اور آج ننگے جسموں پر آدھا ادھورا کفن لپیٹے مردوں کے بیچ ہاتھ اٹھاتیں،سر اٹھائے چلے جاتی ہیں۔ایسا تضاد کیوں جو ہمارے معاشرے نے مذہب کے نام پر ہمیں سکھایا وہ غلط تھا یا عبادت کے نام پر جو یہاں دیکھ رہی ہوں اس میں کچھ فرق ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گھروں کے اندر بڑے بڑے خاندانوں کی موجودگی میں ایک دوسرے سے پرے ہو کر بیٹھنے والے سفید پوش پاکستانی میاں بیوی،لوگوں کے سامنے قریب ہونے سے ڈرتے اور اس پر شرمندہ ہونے والے یہاں اللہ کے دربار میں کتنی الفت اور استحقاق سے اک دوجے کا ہاتھ پکڑے ،یا میاں بیوی کو ادھر ادھر کی ٹکروں سے بچاتا اسے اپنے بازؤں کے دائرے میں لئے جاتا ہے، ذہن میں اپنے معاشرے میں برتے جانے والے غیر ضروری رسموں اور رواجوں پر سوال اٹھنے لگے۔
سمجھ میں آیا کہ مذہب کے نام پر معاشرے میں کی گئی اپنی روایات اور خودساختہ اخلاقیات کی ملاوٹ نے دین کو بھی خالص نہ رہنے دیا۔ہمارے انتہا پسند دماغوں نے جیتے جاگتے مہذب اور متناسب مذہب کو ایک شدت پسند، محتاط ترین ضابطہ اخلاق میں بدل دیا ہے اور احتیاط کے نام پر اس کی کانٹ چھانٹ کرتے ہم نے اس کو انسانوں کے لئےمشکل تر کر دیا ہے اس قدر کہ انسان اور انسانیت کے لئے اتارے اک خوبصورت دین میں ان کی سانس ہی گھٹنے لگی ہے۔
مرد و عورت کے مخلوط دائروں میں چلتے میں نے وہ مکمل ،پروقار اور مہذب رویہ دیکھا جس میں ہر تیز تیز چلتا مرداپنا کندھا اور ہاتھ ساتھ چلتی عورت کو لگنے سے بچاتا تھا اور ہر نگاہ لوگوں کے چہروں سے صرف نظر کرتی صرف کالی چوکھٹ کی طرف مڑتی تھی۔حیرت ہوئی کہ معاشرے میں یہ مہذب پن پیدا کرنے کے چکروں میں مغرب نے ہزارہا طرح کے مخلوط معاشرت کے تجربات کر لیے مگر ہزار طرح کا فساد اور شر پھیلا کر بھی ناکام و نامراد رہا،وہ مہذب پن،انسان اور انسانیت کا وقار اور احترام جو دنیا بھر سے آئے ہر رنگ اور ہر نسل اور زبان کے مسلمان اس مخلوط طواف میں بغیر کسی ایڈوانس ٹرینگ کے دکھاتے ہیں۔
طواف کے دوران جانا کہ اک ذرا سی روحانیت،اک ذرا سی رب کی طرف لگی توجہ اور اک ذرا سا اپنے شعور کے اینٹینے کا رخ رب کعبہ کی طرف موڑ دیا جاے، دل میں اک اس کی ذرا سی طلب اور چاہت جگا دی جائے ، تو یہ مخلوط مہذب معاشرہ اور اس کا پروقار نظام خود بخود تکمیل کے مراحل طے کر جاتا ہے۔اہل مغرب اسی لیے ناکام ٹھہرے کہ انکے اینٹینا کی فریکوئنسی رب کعبہ تک کبھی نہ پہنچ سکی نتیجتاً ہر طرح کی سائنسی اور تجرباتی کوشش بھی مخلوط معاشرے کو اس قدر مہذب اور باوقار بنانے میں ناکام رہی جس قدر انہوں نے کوشش کی۔
ہمارے آس پاس دائیں بائیں ذرا ذرا سی دیر بعد کسی نہ کسی مڈل ایسٹرن ریاست کا اک گروپ آ جاتا جس کے سب افراد ایک رنگ کے سکارف لپیٹے اک دوجے کا ہاتھ تھامے رہبر کی بلند گرجتی آواز میں مذکورہ دعائیں اور کلام پڑھتے چلتے ،کبھی لال ،کچھ سبز اور کبھی کتھئی رنگ میں لپٹے،گمشدگی اور بھٹک جانے سے ڈرتے وہ خاصی جگہ گھیر کر چلتے تھے۔اگرچہ وہ ہماری نسبت ہر لمحہ ہر ساعت کی دعا صحیح الفاظ اور تلفظ میں ادا کرتے ہمیں شرمندہ کرتے تھے مگر پھر بھی رب کعبہ کے ساتھ اپنی ذاتی زبان میں سرگوشیاں،فرمائشیں ،التجائیں کرنے کا جو مزا ہمارے ہاتھ میں تھا وہ شاید ان کے پاس نہ تھا۔یہ دو طریقوں کے فرق تھے ہمارے اور ان کے درمیان مگر اس گھر سے کوئی کبھی نامراد نہیں لوٹا،سو یہاں پر عبادت،دعا،التجا کا کوئی بھی طریقہ کوئی بھی لہجہ ہو کسی سے کمتر یا برتر نہیں ہوتا۔اللہ کے اس دربار میں ہر کٹے پھٹے کاغذ پر ایک جیسی قبولیت کی مہر لگتی ہے۔یہاں پر انداز،پہناوے،رتبے،اوقات،حسن اورعلم کی کمی دیکھ کر کبھی کوئی دروازے سے لوٹایا نہیں جاتا،یہاں سے کوئی ہاتھ خالی نہیں آتا،یہاں پر ہر چہرہ خدا کا محبوب و مقبول ہے ،سو اسے احترام سے دیکھیے،اسے عزت سے رستہ دیجیے۔
آدھی رات کے وقت اپریل کی تاریخوں میں حرم کے گرد طواف کے لئے آدھا حصہ مختص تھا اور باقی آدھے پر طواف نہ کرنے والے،حاضری کے خواہاں دیدار کے طالب بیٹھے دعائیں اور عبادت کرتے تھے۔صحن حرم میں خانہ خدا کے گرد طواف کوئ بہت مشکل نہیں تقریبا آدھ گھنٹے میں سات چکر مکمل ہو جاتے ہیں۔اگر آپ یہ طواف دوسری یا تیسری منازل سے کریں تو دور ہونے کی وجہ سے تین سے چار گنا زیادہ کا فاصلہ پڑ جاتا ہے۔حجر اسود اور چوکھٹ سے ذرا پرے ہی پرے ہمارے طواف کے سات چکر پورے ہو گئے یہاں بھی دل کچھ محرومِ مراد رہا ، چوکھٹ تک پہنچ سکے نہ حجر اسود کو بوسہ دے سکے ۔کچھ ان کے اصل حقائق و فضائل سے ناواقفیت تھی کچھ سب فرائض دھیمے دھیمے کرنے کی خواہش تھی کہ نہ حطیم کی طرف لپکے،نہ چوکھٹ پر جھپٹے اور ان تک نہ پہنچنے کی محرومی دل سے لگائے آئندہ کے وعدے پر لوٹ آئے ۔
دورانِ طواف نظر اٹھا کر خانہ خدا کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی کوشش کرتے اور پھر اک خوف سے ڈرتے نظر جھکا لیتے،،اندر سے کوئی آواز آتی کہ خدا کی جلالی ذات میں گستاخی نہ ہو جاے۔جانے یہ ٹھیک تھا کہ نہیں مگر بچپن سے کروایا گیا رحمان الرحیم کی بجاے جلالی رب کے نام سے اللہ کا تعارف دل کے اندر ٹوکتا اور روکتا ۔جانے کیوں رب نے اپنے ہر کلام کی ابتدا پر اپنا نام رحمان و الرحیم پسند کیا اور ہم نے اسے نظر انداز کر کے اسے ہر بات میں ڈرانے والا ،آگ میں پھینکنے والا،سزائیں دینے والا رب مشہور کر دیا۔وہی ڈر تھا جو بار بار ہمارا پلو پکڑ کر ہمیں پیچھے کی طرف موڑتا اور ڈانٹ کر نظر جھکانے کا حکم دیتا۔مدینہ کی شفیق اور نرم تاثیر کی نسبت خانہ خدا میں ہم تھوڑا پرے پرے، تھوڑا ہچکچاتے رہے جانے نصیب کی تنگی تھی کہ ادراک کی پستی کہ نہ چوکھٹ سے لپٹ کر دھاڑیں مار سکے، نہ حجر اسود کو چومنے کو بیتاب ہوئے اور کلاس کے نکمے بچوں کی طرح پیچھے پیچھے اور پرے پرے رہ کر دل میں اٹھتی طلب کو دباتے اور روکتے سر جھکاتے طواف کے سات چکر گن کر پورے کرتے رہے۔
آدھ گھنٹے میں طواف مکمل ہوا ، مقدس گردشوں سے نکلے اور پیچھے ہٹ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔،وہی رٹی رٹای دعائیں نکال کر خموشی سے رب کے قدموں میں رکھ دیں اور اسے ساتھ کھڑی اک عرضی بھی کر دی کہ مولا بس توفیق یہیں تک ہے۔یہ اجڑے بکھرے ،گلے سڑےجذبات،یہ نہ لگنے والا سست خوفزدہ دل، اور یہ ہر گھڑی ڈانٹ کر پیچھے کرتا دماغ اب اس سے بڑھ کر کچھ بھی کہنے اور سننے کی اجازت نہیں دیتا__ تو تیرا کمال ہے کہ بغیر میرے علم ادراک اور شعور کو جانے میرے اس رٹے رٹاے سبق کو منظور کر لے!!،اسی غلطیوں سے بھری درخواستوں پر ٹھپے لگا دے!!!۔
دعا سے فارغ ہوئے تو سعی کے لئے صفا اور مروہ کی طرف نکلے جو اپنے آپ میں اک الگ ہی دنیا،ایک الگ ہی تاثیر رکھتا ہے۔صفا اور مروہ کے پرہجوم سات چکر ہم نے یوں بھاگتے دوڑتے مزا لیتے لگا لئے کہ جیسے گھر سے باہر واک ٹریک پر گھومنے آ نکلے ہوں۔کہیں اونچائی،کہیں گہرائی،کہیں آہستہ قدم کہیں بھاگنا،،،،سوچا کہ کیا جسم کو متناسب رکھنے کے پیمانے یہاں سے جان کر بتلائے جاتے ہیں یا صدیوں پہلے رب کعبہ کو یہ خبر تھی کہ صحت مند جسم کے لئے کبھی بھاگنا اور کبھی رکنا ہے،کبھی اونچائی پر چڑھنا اور کبھی اترنا ہے۔اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ اسے زمانوں سے پہلے بھی زمانے سے بڑھ کر ہر چیز کا علم تھا۔
تو ہم ٹریکنگ اور واک کے عادی میاں بیوی صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے بیچ اپنی چُھوٹی ہوئی واک پھر سے شروع کرنے کا ارادہ کرتے اور ہر پورے ہوتے چکر کے ساتھ ہزاروں قدموں کی گنتی پوری کرتے دل ہی دل میں خوش ہوتے رہے۔میں نے تو یہ بھی سوچا کہ اگر یہیں کہیں قریب میں ہی گھر ہو تو انسان روزانہ تہجد کی نماز خانہ خدا میں پڑھے ،اس کے بعد طواف اور سعی کرے اور صبح کی نماز تک دنیا کی خوبصورت ترین محفوظ جگہ پر قریباً بیس پچیس ہزار قدموں کے واک کے ساتھ جسم اور روح دونوں کی صحت کا مکمل کام ہو جاے۔رب بھی راضی اور خوش، جسم بھی سمارٹ اور صحت مند۔یوں بھی لگا کہ جیسے بچوں کو ڈانٹ کر نہلانے کے لئے بھیجنا پڑتا ہے تا کہ وہ ماؤں کو خوبصورت صاف ستھرے دکھائی دیں تو یہی انتظام اللہ نے یہاں اپنے بندوں کے لئے کر رکھا ہے۔بھاگو، دوڑو،روحانی اور جسمانی صحت بناؤ اور ساتھ مزا،عبادت ،محبت اور زیارت مفت کی پاؤ۔
جاری ہے
*********