حجر اسود کے سامنے لگی سبز بتیوں سے شروع کرتے، خدا کی بزرگی کی گواہی دیتے
ہاتھ اٹھاتے ہم ،خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ،اس کی شان کے گن گاتے اور
اس سے التجاء کرتے اس حرکت کرتےزندہ جاوید محور میں ضم ہو گئے
گزشتہ سے پیوستہ
صفا و مروہ کے چکر کبھی بھاگتے اور کبھی آہستہ چلتے پورے کئے ،ٹائلز کا ٹھنڈا فرش تھا،سنٹرلی ائیر کنڈیشنڈ رستے تھے،اور محفوظ ترین مقام پر ہزاروں نیک نیت لوگوں کی ہمراہی تھی تو ہم بی بی حاجرہ کی سنت پوری کرتے ان کا وہ درد تو نہ جان سکے جب تپتے پہاڑوں کے بیچ،ننھے بچے کو تنہا چھوڑے وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتی ہوں گی ،کبھی زمیں پر چشمہ کبھی آسماں پر ابر تلاشتی ہوں گی،اور آبادیوں سے دور کے پرہول پہاڑوں میں تنہا ہوں گی اور صرف اللہ کے نام پر بھروسہ کئے جینے کا جتن کرتی ہوں گی۔
ہم جیسے حقیر لوگ اوربند گھروں کی چار دیواری میں باپوں بھائیوں اور شوہروں کی کفالت میں رہنے والی کمزور عورتیں کیسے جان سکتی تھیں وہ کرب جو بی بی حاجرہ نے وہاں جھیلا ہو گا جب ایک طرف پیاس سے بلکتا بچہ ہو گا،جانوروں،درندوں اور رہزنوں کا ڈر ہو گا،تپتا آگ بھڑکاتا سورج ہو گا اور بی بی حاجرہ تنہا ننگے پاؤں ایک پہاڑی سے دوسری تک سرگرداں پھر رہی ہوں گی۔۔تو ہم حقیر لوگوں کے تو تخیل سے بھی یہ بہت دور کی منزل تھی۔ہم زندگی کی ہر راہ گزر پر معجزوں کا انتظار کرنے والے کیا جانیں کہ معجزے انسانوں کی ہمت سے تشکیل پاتے ہیں، خالی خواہشات اور جذبات سے آب زم زم کے چشمے نہیں پھوٹ پڑتے ،اس کے لئے تپتی دوپہروں میں سڑتے پہاڑوں کا ننگے پاؤں طواف کرنا پڑتا ہے۔۔تو اتنی ہمت کہاں تھی ہم گرے پڑے عام انسانوں میں،،،، سو سر جھکائے اس ٹھنڈے محفوظ سیدھے رستے پر چلتے رہے اور بی بی حاجرہ کی سنت کی تقلید کرتے رہے۔
اس تقلید میں صرف ہم جیسے نکھٹو نکمے لوگ نہ تھے بلکہ بہت سارے ننھے ننھے معصوم فرشتے بھی تھےجنکے ہاتھ انکے والدین نے تھام رکھے تھے اور جنہوں نے یہ خاصا طویل فاصلہ دونوں سروں پر بھرپور بھیڑ کے باوجود والدین کے ساتھ طے کیا تھا۔مجھے یقین ہے کہ ان کے نصیب میں عمرے کی سعادت اور اس کی تاثیر شاید ہم سے زیادہ درج ہوتی ہو گی کہ جانے انجانے میں ہی سہی وہ ساری صعوبتیں وہ برابر کی سہہ رہے تھے جو عمرہ کی ادائیگی کے لئے ہم پرفرض تھیں۔
خود پر شرمندہ بھی رہی کہ پاس لا کر بچوں کو یہ سعادت نہ دے سکی، جب جب ان فرشتوں کو دیکھا دل میں کسک سی جاگتی رہی ، خدا سے یہ امید اور دعابھی رہی کہ ہماری کج روی اور کمزوری سے صرف نظر کر کے ضرور رب کعبہ میرے بچوں کو اور ہم سب کے بچوں کو اپنے در پر بلائے گا اک دن ،کہ یہ سعادت دینا اسی کا اختیار ہے۔اگر وہ نصیب کی تختی پر اس کی تحریر لکھ دے تو پھر کوئی کمزوری، کوئی کوتاہی اور کوئی سستی رستے میں دخل نہیں دے سکتی۔
اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا تھا کہ ہم جیسے دو مذہبی چاشنی سے مکمل ناواقف،تفصیلات اور برکات سے ناآشنا،اراکین اور فرائض سے نابلد نہ صرف کہ خانہ خدا میں موجود تھے بلکہ پہلے عمرے کی سعادت بھی حاصل کر چکے تھے۔خدا انسان کو بلاتا ہے کبھی بتانے کے لئے،کبھی جتانے کے لئے،کبھی دکھانے کے لئے اور کبھی ترسانے کے لئے۔کچھ لوگ خانہ خدا کی ایک حاضری کے لئے عمر بھر ترستے رہتے ہیں خدا ان کو بلانے میں تاخیر کرتا رہتا ہے،،شاید اس لئے کہ ان کی تڑپ رب کعبہ کو ان کی حاضری سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔کچھ لوگ خدا کے نام و مقام سے بے پرواہ چلے جاتے ہیں اور رب کعبہ ان کو نکیل ڈال کر لے آتا ہے تا کہ انکے سینے میں وہ آگ جلا سکے جس میں عشق بے خطر کود جاتا ہے ،تا کہ انکو جتا سکے کہ جس ہستی سے بے پرواہ وہ جینے کی کوشش کرتے ہیں اس سے بڑا بے پرواہ کوئی نہیں۔اس کے پاس ہزاروں گر ہیں ہم بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ پر لانے کے،ہمیں گرانے کے اور پھر اٹھانے کے۔یہ دنیا کا کاروبار، یہ دکھ سکھ جھملیے تو صرف رب کعبہ نے آدم کی آزمائش اور کھیل کے لئے لگا رکھے ہیں، اک ذرا کرشمہ سازی کے لئے۔ورنہ اسے ہماری عبادتوں کی چاہ نہ ہماری ریاضتوں کی فکر، ہماری گمشدگی کی پرواہ نہ ہماری واپسی کی طلب ۔ہم تو اس کے ہاتھ سے بنے کچی مٹی کے کھلونے ہیں،جدھر چاہے موڑے،جیسے چاہے مروڑے،بناۓ کہ توڑے،یا بار بار توڑ کر جوڑے!یہ اس کی منشا،اسی کی رضا!۔۔
سعی کے اختتام پر ہمارے عمرے کی تکمیل کا آخری مرحلہ بال منڈوانے یا کٹوانے کا تھا۔میرے لئے تو میرے بیگ میں اک چھوٹی سی قینچی موجود تھی جس سے کمرے میں پہنچ کر انگلی کے گرد بال لپیٹ کر میں نے انکے آخری سرے کاٹے اور میرے عمرہ کی تکمیل ہوئی ۔میاں صاحب کو بھی کوئی پریشانی نہ ہوئی کہ مسجد سے نکلتے ہی ہر صاحب احرام کو متوجہ کرنے کے لئے حجام نکڑ پر موجود تھے جو لپکتے جھپکتے خود آپ تک پہنچتے اور آپ کو لئے اپنے سیلون کی طرف چل پڑتے۔
مکہ کی پہلی رات زندگی کا پہلا عمرہ اپنی تکمیل کو پہنچا تو تہجد کا وقت تھا اور جمعہ کی رات تھی۔کیا ہی خوبصورت رات تھی اور کیا ہی مقدس لمحات تھے۔خانہ خدا کے سامنے دعا کے لئے سر جھکاتے اس سعادت کی شگر گزاری مطلوب خاطر رہی۔اس سعادت کو پورا کیا تو اک تکمیل کا احساس رگ جاں میں اتر گیا ایسے ہی جیسے سنتے ہیں کہ حج کرتے ہی ہر حاجی کو واپسی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے تو ہماری بھی نفلی عبادت کی تکمیل ہمارے اعصاب پر اک ٹھنڈی نرم پھوار کی طرح پڑی۔۔۔۔۔۔۔یوں لگا کہ حاضری کا مقصد اپنی تکمیل کو پہنچا۔پچھلے دو دن سے مسلسل سفر لاحق تھا اور برکت اور رحمت سے بھرے رت جگے تھے۔تو اس تکمیل کے ہوتے ہی پہلی خواہش اب کچھ گھڑی آرام کی جاگی۔
صبح کی دہلیز پر کھڑا دن ہماری گنتی کا تیسرا روز اور جمعہ کا دن تھا اور والدین کی نصیحت کے عین مطابق اگر جمعہ حرم پاک کے اندر پڑھنا تھا تو دس بجے تک لازما وہاں پہنچنا تھا۔ورنہ جمعہ کی جماعت مسجد سے باہر سڑک پر اور سامنے موجود ہمارے ہوٹل کے کمروں تک میں ادا ہو جاتی ہے جہاں پر ہر کمرے میں اقامت کا مکمل انتظام ہے۔ مکہ کے قرب وجوار میں بسنے والے ذیادہ تر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ جمعہ کی نماز حرم پاک میں ادا کی جاے اس لئے جم غفیر کا اکٹھاہونا اک اٹل حقیقت ہے۔جمعہ کی نماز کے لئے ہم دس بجے کے قریب نہا دھو کر تیار ہو کر بچوں کو ساتھ لئے نکلے اور حرم کے اندر آسانی سے پہنچ گئے۔کوشش کی کہ کہیں خانہ خدا کے قریب قریب جگہ مل جاے مگر دس بجے بھی مسجد اس قدر بھری تھی کہ قریب قریب کی کوئی بھی جگہ خالی نہ تھی۔نمازیوں نے لائنیں بنا کر راستے تک بھر رکھے تھے ۔ایسے ہی اک راستے پر میں بھی بیٹی کا ہاتھ پکڑے ٹک گئی مگر اس کا کچھ حاصل نہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں سکولوں کے بچے لائنوں میں سیکورٹی کی مدد کو پہنچے اور بھرے ہوے رستوں سے ایک ایک کرکے عورتوں اور مردوں کو اٹھانے اور مناسب جگہ تک جانے کی تاکید کرنے لگے۔کچھ خواتین نیت باندھ کر بیٹھ گئیں، کچھ عرب خواتین نے عربی زبان کا فائدہ اٹھا کر مزاحمت بھی کی۔
ابوظہبی کی سالہا سال کی ٹریننگ سے ہم قوانین کا احترام سیکھ چکے تھے اس لئے خموشی سے اٹھنے کا اشارہ دیکھا تو بیٹی کا ہاتھ پکڑے اٹھے اور ان کی بتائی سمت چل دئیے کہ خبر تھی اٹھنا تو بہرطور ہو گا ہی۔دو چار نماز کے باقاعدہ خواتین کے لئے بنے مخصوص برآمدوں سے گزر کر ہمیں ایسے خالی برآمدے مل گئی جن کو ابھی بھرا جانا تھا۔وہاں پر تسلی سے ہم اک مناسب جگہ پر ٹک گئے۔لیکن دو گھنٹے کا نماز کا انتظار ایک ہی جگہ بیٹھ کر کرنا خاصا مشکل امر تھا وہ بھی تب جب آپ صرف ایک جگہ گھیرنے کی خاطر بیٹھے ہوں۔نوافل پڑھتے تو جسم کو کچھ سکون رہتا لیکن نوافل سے تھک جاتے تو کیا کرتے یہ سمجھ نہ آتا۔بہت دیر تک ایک ہی جگہ اکڑوں بیٹھا رہنا مشکل امر تھا وہ بھی ایسے جب دیدار کے لئے قبلہ کا خوبصورت نظارہ بھی سامنے نہ ہو۔
جمعہ سے پہلے امام مسجد کا خطبہ شروع ہوا تو ایک اور بدقسمتی آڑے آئی ۔ویسے تو ہم برصغیر کی عورتوں کی اکثریت باجماعت نماز کے تقاضوں اور طریق سے مکمل نا آشنا ہوتی ہے اور پھر مسجد سے دور رہنے کی روایت ہماری گھٹی میں ایسے ڈال دی جاتی ہے کہ ہم عرب امارات جیسے ملک میں رہ کر بھی جہاں مساجد میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ہماری حاضریاں گنتی کی ہی رہتی ہیں۔چناچہ پہلے تو سمجھ نہیں آتا جماعت شروع کب ہو گی ،کیسے ہو گی،اذان اور اقامت کا فرق معلوم نہیں ہوتا،پھر یہ خبر نہیں ہوتی کہ کیا پڑھنا ہے،کیا چھوڑنا ہے۔اور اب ہم حرم پاک میں خانہ خدا کے سامنے بیٹھے تھے،امام حرم کا خطبہ سنتے تھے مگر گونگے ،اندھے اور بہرے تھے۔امام کعبہ دنیا بھر سے آئے لوگوں سے اس عظیم مقام پر بیٹھ کر کیا کہتے تھے ہمیں کچھ خبر نہ تھی کہ عربی زبان سے ہماری واقفیت محض ہجے جوڑنے اور تلاوت کرنے کی حد تک تھی۔
ہمیں تسلی تھی کہ روز ِقیامت فر فر ہمارے منہ سے عربی نکلے گی تو ہمیں سرکاری اور نہ ہی ذاتی حیثیت میں کبھی اس محدود سی استطاعت سے زیادہ عربی سکھائی ہی گئی نہ خطہ ٔ عرب میں دس سال گزار کر بھی ہمیں ہی آئی ۔سو اب اس خطبہ میں کیا بیان ہوا،کیا وضاحتیں کیا تشریحات ،محض اہل عرب جانتے تھے اور ہم برصغیر کے عربی سے ناآشنا لوگ صرف ادھر ادھر دیکھتے تھے اور خطبے کا ختم ہونے کا انتظار کرتے تھے۔امام کعبہ کی امامت میں جب جمعہ کی نماز کا آغاز ہوا تو اک خوبصورت ردھم والی تلاوت کا ہر سو سرور سا چھا گیا۔کیا تلاوت اس قدر خوبصورت بھی ہوتی ہے؟تہجد گزار والدین کی بدولت گھر میں کئی بڑے بڑے قاریوں کی تلاوت ہم نے بھی سنی تھی اپنے زمانوں میں۔مگر آج کے دن کی تاثیر ہی اور تھی،سرور ہی کچھ اور تھا۔تلاوت کے معانی سے بے خبر ہم اس کی حلاوت پر ہی سر دھنتے رہے۔روح کی غذا یقینا صرف موسیقی میں نہیں اس سے کہیں بڑھ کر اس تلاوت میں تھی جو اس لمحے وہاں ہم نے سنی۔باجماعت نمازیں ایک دو اور بھی ہم نے اگلے چوبیس گھنٹوں پڑھیں مگر ان میں تلاوت کا اور کلام کا وہ رنگ نہ تھا جو جمعہ کی اس قرات میں تھا۔
جاری ہے
********