The news is by your side.

سفرنامۂ حجاز: اے سانس ذرا تھم، ادب کا مقام ہے

کیا واقعی دو ہفتے بعد میری زندگی بدلنے والی ہے؟۔اس کتاب کا وہ صفحہ الٹنے والا ہے جس کی راہ میں ہزارہا قسم کے مسائل الجھے ہوئے تھے۔ کیا واقعی تمام رکاوٹیں دو ہوں گی یا ایک بار پھرخدا کی عظیم ترین سرزمین کی زیارت ہماری حدوں سے ادھر ہی رہ جائے گی

مکمل سفرنامہ پڑھیں

وہ رات زندگی کی اک قیمتی رات تھی جس کی یاد ہمیشہ دل میں اک محرومی، اک تپش٬ اک آگ جلائے رکھنے والی تھی۔کالا لباس اوڑھے رب کعبہ کا گھر، وقت تہجد اور میں تنہا اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز کے لئے۔پر بدقسمتی تھی کہ پیروں کے ساتھ زنجیر کی طرح بندھی چلے آئے تھی کہ رب کعبہ کا جلال ڈراتا تھا اور اک خاص حد سے آگے جانے نہ دیتا تھا اس جلالی ذات کے خوف نے کچھ اور جکڑ دیا جب دوسری منزل پر طواف کرتے حرم کعبہ کی ہزاروں لوگوں سے بھری وسیع عمارت کے اندر کسی عورت کی بلند چیخیں سنیں جو ہزاروں زائرین کی آوازوں اور دعاؤں کے بیچ میں بھی گونج رہی تھیں۔حیرت سے نیچے جھانکا تو عربی لباس میں ملبوس اک مصری یا شامی عورت کوعجب حال میں دیکھا۔شرطے(پولیس) دور رہنے پر مجبور فاصلے پر کھڑے لوگوں کو اس سے دور رکھتے اور اس کے ساتھ موجود ایک مرد اسے سنبھالنے کے لئے ناکافی تھا۔نجانے اس خاتون کی رب کعبہ سے کیا سرگوشیاں ہوئیں جو اس کا شعور سنبھال نہ پایا تھا،سو وہ چیختی چلاتی،دہائیاں دیتی،کعبہ سے لپٹنے کو بے چین ،وہاں سے ہٹنے پر آمادہ نہ تھی۔

رب کعبہ کا خوف کچھ اور بڑھ جاتا،نظر کچھ اور ڈر جاتی،فاصلہ کچھ اور بڑھ جاتا۔عشق کے ہزار روپ عاشق جانے اور معشوق جانے۔رب کائنات کے سلسلے اور اپنے لوگوں سے اس کے کیا کیا رشتے تھے،صرف رب کریم کی ذات جانتی ہے۔ہم اس کی حکمتوں اور رازوں سے ناواقف لوگ بہت کچھ دیکھنے اور دیکھ کر بھی سمجھ لینے سے قاصر تھے۔وہ کیا منظر تھا ہماری بصیرت اسے سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے سے قاصر تھی اگرچہ بصارت گواہی دینے پر قادر ہے۔

خدا اور بندوں کے بیچ ہزاروں پردے ہیں اور یہاں ہزاروں لاکھوں لوگوں کے بیچ خدا کا اس کے ہر بندے کے ساتھ تعلق الگ اور وکھڑا ہے ،کوئی عاشق ،کوئی مجذوب،کوئی پرہیز گار ،کوئی نمازی،کوئی منتی ،کوئی منگتا،کوئی فقیر کوئی مقصر،کوئی توبہ کا طالب ،کوئی توجہ کو ترسا،کوئی عمدہ پوشاک پہن کر آیا اور کوئی ننگے پاؤں،کوئی پرے پرے چلتا ہے اور کوئی بھاگ بھاگ لپٹتا ہے،کسی کا دل چھاؤں میں بھی لگ نہیں پاتا اور کچھ کے سجدے گرم دھوپ میں تپتے فرش پر بھی اپنا خشوع وخضوع برقرار رکھتے ہیں۔تو یہ سلسلہ سب کا اپنا،یہ رابطہ ہر ایک کا انوکھا۔ہم قلاش ان سب سلسلوں سے باہر عام انسانوں کے جیسے،جل جلالہ کے پردے کے پیچھے رب کو چھپائے بیٹھے تھے اور چاہ کر بھی اس وارفتگی کا اظہار کر نہ پاتے تھےجو روضہ رسول ﷺکو دیکھ کر طاری ہوتی تھی۔وہاں پر رابطہ دل کا تھا اور یہاں بندگی کا تعلق تھا تو سر جھکائے ڈرتے ڈرتے چلتے،نیچی نظر سے دیکھتے اور گن گن کر طواف پورا کرتے۔

آج کی رات کا پہلا طواف صحن کعبہ میں پرے پرے کھسکتے،اسی کے نام کا ورد کرتے مکمل ہوا جس کی چوکھٹ تک جانے کی ہمت نہ پڑی تھی۔خانہ خدا میں دوسری اور آخری رات تھی کہ صبح واپسی کے لئے جدہ کی طرف روانگی تھی ۔تو آج رات بیگ میں کیمرہ بھی تھا جسے مسلمان کرنا تھا خانہ خدا کے جلوؤں کی بیعت دلوا کے۔میں جو ہر پھول،کلی،ہر سورج ہر بارش اور ہر موسم کی تصویر بناتی پھرتی ہوں تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ اس عظیم گھر جاتی اور اس کا فوٹو نہ لیتی۔

کاش کہ وہ رات حرم میں میری آخری رات نہ ہوتی،یا میری توفیق میں کچھ وسعت ہوتی،کاش کہ کچھ گھڑی میں بھی غلاف کعبہ سے لپٹ کر روتی،حطیم میں جھک کر کچھ سجدے کر لیتی،چوکھٹ کو تھامے کچھ دہائیاں دیتی،یا کچھ اور نہیں تو خانہ خدا کے سامنے دھرنا ہی دے کر بیٹھ جاتی اور طلوع صبح تک اٹھنے سے ہی انکاری ہو جاتی۔کاش کہ ایسا ہوتا مگر میں کم نصیب کیمرہ لئے پچھلی صفوں میں چھپ کر بیٹھی اور خانہ خدا کے کچھ مناظر چرانے لگی۔اس صحن میں جہاں لوگ سر جھکاتے تو اٹھانا بھول جاتے،ہاتھ اٹھاتے تو سسکیاں لیتے ،آہیں بھرتے ،واسطے دیتے، وہاں میں اس آخری رات میں تصاویر بنانے کی فکر میں تھی۔مجھے دوست احباب یاد کرواتے کہ عبادت پر دھیان دو، پر میں ہر جگہ کچھ گھڑیاں تصویر کشی کے لئے بچا لیتی۔

اب سوچتی ہوں کہ اگر ان کی بات مان کر اس آخری رات کیمرہ کمرے میں ہی چھوڑ جاتی تو ضرور جھولی میں وہ سب بھر لاتی جس کی مرادلئے وہاں تک پہنچی تھی۔تو جب مرادیں پوری ہونے کا وقت نہ ہو تو انسان بیکار رکاوٹوں میں الجھتا جاتا ہے۔یہ ذرا سی دیر کا کیمرہ بھی اک رکاوٹ تھا جو میرے اور میرے رب کے بیچ آ گیا تھا۔تو میں فرصت سے دھرنہ دے کر بیٹھنے کی بجائے کیمرہ لئے ادھر ادھر پھرتی تھی۔ وہ آنسو جو بہانے کی وہ مقدس ترین گھڑیاں تھیں،وہ دہائیاں جو آج رات مجھے دینی تھی میری جھولی سے گر گئی تھیں،مجھے محروم مراد کر گئی تھیں،آج اس لمحے مجھے ادراک ہوا کہ یہ سودا خسارے کا تھا۔۔۔۔۔بے انتہا خسارے کا۔

عمرہ یا حج مکمل کر کے واپسی پر انساں تصور کرتا ہے کہ اس کے ایک بہت اہم کام کی تکمیل ہوئی ۔یہ خبر واپسی کے بعد ہوتی ہے کہ تکمیل نہیں ابھی تو آغاز ہوا۔اللہ کے گھر سے واپسی اللہ کے ساتھ اس کے بندے کا وہ ذاتی تعلق استوار کر دیتی ہےجو انسانی زندگی پر گرفت میں بڑی حد تک قادر ہے۔وہ خدا جو آج تک محض تلاوت ،مسجد اور نماز میں فرض کیا جاتا تھا اس کی چوکھٹ کو تھام لینے کے بعد آپ کا اپنا ہو جاتا ہے۔پھر وہ دل جنم لیتا ہے جو اس طلب پر ہر بار مٹ جانا چاہتا ہے ؛جو مکہ یا مدینے کے رخ جاتی ہر راہ پر لوٹ آنا چاہتا ہے ،یہ واپسی دل کو وہ یاد دیتی ہے جو انساں کو فنا کر دینے پر قادر ہے،وہ ادراک دیتی ہے جو اس وسیع کائنات میں اس کی بے ذرہ حیثیت کو معتبر کر دیتی ہے۔اگر آپ خوش قسمت ہیں تو اس سفر میں ملنے والے نگینوں کو دل و جاں سے لگا کر ہمیشہ کے لئے اپنی ہستی اور زندگی کا اک حصہ بنا لیتے ہیں اور اگر آپ میرے جیسے کم نصیب اور ان ہیرے موتیوں کے اہل نہیں تو بیچ راہ میں ہی اپنی جیب کٹوا بیٹھتے ہیں۔

ان زیارتوں پر جانے والوں پر خدا وہ دن کبھی نہ لائے کہ ان کی سب ریاضتیں مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں،انکے دامن کے ہیرے موتی کہیں کنکر نہ بن جاییں،انکے دامن سے لپٹی رحمتیں اسے تنہا نہ کر جائیں۔چلیں آپ بھی مل کر میرے ساتھ دعا کریں کہ خدا اپنے مقدس در کے صدقے ہمارے جیسے ہر کم نصیب کے نصیب کی حفاظت کرے،ایسے جیسے خود ہم کر نہیں پاتے۔ وہ جو زندگی بدلنے کی چاہت لئے اس چوکھٹ تک پہنچتے ہیں ، ان کی زندگیاں کہیں باسی ہی نہ رہ جائیں؛جو دل روشن کرنے کی مراد لاتے ہیں،انکے دلوں کے اندھیرے کہیں مزید گہرے نہ ہو جائیں؛وہ جو اپنی مفلسی ،افلاس اور کم مائیگی کی اذیت میں مبتلا ہیں ان کی غربت ان کے بستوں سے نکلنے سے کہیں انکار نہ کر دے۔

چلیں آپ بھی دعا کریں کہ رب کائنات کے گھر سے ہر کوئی کائنات ہاتھوں میں بھر کر نکلے،سورج کو جھولی میں لئے چاند کی چاندنی سے مقدر اجالے، ہر وہ شخص جو مرادیں لئے اس کی دہلیز پر پہنچے اپنی سب مرادیں پا لے،اور کبھی جو آپ بھی اس دہلیز کو پار کریں تو ان سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں جن کو دعا مانگنے کا بھی حوصلہ نہ ہوا،وہ جو ہاتھ اٹھ نہ سکے،ان صداؤں کو جو دی بھی نہ گئیں۔کہ خدا کے گھر میں لامحدودیت کی کوئی انتہا نہیں ہے،وہاں دعاؤں سے کبھی میزیں بھرتی نہیں،وہاں قبولیت کے ٹوکرے کبھی خالی نہیں ہوتے۔تو پھر کیوں چند ہی صدائیں لگا کر انسان بیٹھا رہے، کیوں نہ ہر اس شخص کی بھی صدا لگا دے جو اس سے باخبر بھی نہیں۔اللہ کے در پر دل ،دماغ جھولی کھول کر مانگیں،اک زمین نہیں،اک آسماں بھی نہیں ،سارے کا سارا جہاں مانگ لیجیے۔مانگتے ہوئے اپنی جھولی مت دیکھیں،دینے والے کی ہستی دیکھیے اور بے انتہا مانگیں،اور جب مانگیں تو اس میں پھر چند الفاظ کچھ عرضیاں ہمارے نام کی بھی ضرور مانگیں۔

خانہ خدا کو آخری بار الوداع کہتے میں بھی فتح مند قدم اٹھاتی، یہی سوچتی پرسکوں حرم پاک کے باب عبد العزیز سے باہر نکلی تھی کہ زندگی کا اک اہم کام پورا ہوا ،ڈائری پر ایک ٹک لگ گیا،ایک ٹھپہ پاسپورٹ پر سج گیا۔یہ بہت بعد میں جانا کہ جو ہوا سب کا سب ادھورا ہوا۔تو اب یہ ادھورا کام پورا کب ہو گا اس کی خبر کسی کو نہیں لیکن یہ یقین ہے کہ وہ مہربان نبی ﷺ اور وہ رحمان رب ہماری ان آدھی ادھوری کاوشوں کو بھی قبول کریں گے اور ہماری کوتاہیوں کے سبب ہمارے جذبے کو رد نہیں کریں گے۔

خدا جانے پھر کب لائیں ہمیں یہ راستے واپس اس نور کی طرف کہ جہاں جا کر ہمارے میلے لباس بھی اجلا گئے تھے۔اور انشاللہ پھر جو ان رستوں کی طرف لوٹیں تو دیکھیں کہ وہاں سے یہاں تک ذندگی میں کیا کچھ بدل گیا تھا،کیا کیا نہ گزر گیا تھا،کون کون سے بند راستے کھلے تھے اور کیا کیا نہ مشکلیں راہ میں جان سے اتر گئی تھیں۔آج کی صبح واپسی کے لئے جدہ کی طرف اور پھر دبئی کی سمت روانگی تھی مگر دامن میں بھری آسودگی کے روپ میں ایک تشنگی تھی کہ نجانے اب بھلا کب اس گھر کا مالک پھر سے اذنِ زیارت دے اور کب ہماری یہ گناہ گار جبینیں خانہ ٔ رب کے عین سامنے سجدہ کرسکیں۔

ختم شد

**********

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں