The news is by your side.

شفاف پاکستان کی جانب ایک قدم

حالیہ انتخابات انتہائی شفاف ہوئے کیو نکہ یہ پاک فوج نے اپنی زیر نگرانی کروائے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں یہ ایک فطرتی طور پر عوام میں عنصر پایا جاتا ہے کہ یہاں شخصیت پرستی بہت زیادہ ہے۔ لوگ راہ نماؤں کے پیچھے آنکھوں پر پٹیاں باندھے بھاگتے ہیں اور شعور کے دروازے بند رکھتے ہیں ۔

پاکستان میں قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرنے کے لیے 3فروری 1997 کو پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے ۔ انتخابات میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور قدامت پسند راہ نماء نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کے درمیان سخت مقابلہ تھا ۔نواز شریف نے پاکستان کی بدترین معاشی بدحالی اور مرتضیٰ بھٹو کی موت کو متضاد بناتے ہوئے خوب کیش کیا اور غیر معمولی اکثریت کے ساتھ اس وقت پاکستان کے 12ویں وزیراعظم منتخب ہوئے ۔

قومی سلامتی کے معاملات کے حوالے سے صدر فاروق لغاری کی طرف سے بے نظیر بھٹو کی سابق پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو مسترد کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ بے نظیر بھٹو کی حکومت پر مالی بد انتظامی ، فسادات کے الزامات ، اپنے آبائی صوبے میں نسلی کشیدگی ، سپریم کورٹ کے ساتھ معاملات ، آئین کی سنجیدگی سے متعلق خلاف ورزی اور پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں خاص طور پر مرتضیٰ بھٹو جو آصف علی زرداری کو حکومت میں کسی طور برداشت نہیں کرتے تھے ۔ ن لیگ نے 137 سیٹیں نکالیں اور پیپلز پارٹی نے صرف18 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی۔

حق پرست ، متحدہ قومی موومنٹ نے 12 سیٹیں نکالیں۔اور باقی سیٹیں مختلف پارٹیوں کے حصے میں آئیں 36 فیصد ووٹ کاسٹنگ ہوئی۔ ان انتخابات میں نواز شریف کو بھاری اکثریت ملی جس پر بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کا الزام لگا کر نہ ماننے کا علان تو کیا تھا لیکن اس پر چونکہ خود ہی بہت زیادہ کرپشن کے الزامات تھے اور یورپی یونین نے بھی کہہ دیا تھا کہ ایسے شفاف انتخابات آج تک پاکستان میں نہیں ہوئے ، پاکستان میں جمہوری استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ان انتخابات کے بارے میں مجھے دھندلا دھندلا نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے برج الٹے تھے ، زرداری کو گرفتار کر لیا گیا ، فیصل صالح حیات جیسے گدی نشین اپنی سیٹوں سے ہارے ، بالکل سیاست کا رخ بدل دیا گیا ، جس کے پیچھے نعرہ تھا کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کیا جائے گا، ایک اسلامی ریاست بنائیں گے ، کشمیر کو آزاد کروائیں گے وغیرہ ۔

نواز شریف ہر بار تھوڑا خوش قسمت بھی ٹھہرے ہیں اور زیادہ بد نصیب ،کیوں کہ ان کے دور میں ایسا کام ہو جاتا رہا ہے جو انہیں لوگوں میں زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے ، جیسا کہ 1999 کے ایٹمی دھماکے انہی کے دور میں ہوئے جس کے بارے میں مشرف دور میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کے انٹرویوز چلائے گئے کہ نواز شریف تو بہت ڈر پوک ہے اور امریکی لابی کا بندہ ہے وہ تو کبھی بھی یہ نہیں چاہتا تھا اس کے پیچھے ہم تھے ، مشرف تھا ۔ اسی طرح سی پیک منصوبے کا افتتاح بھی نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں ہوا ۔

نواز شریف کے دور حکومت میں بالکل اسی طرح کی خبریں پیپلز پارٹی مخالف بھی ملتی ہیں کہ سارا خاندان باہر بیٹھا ہے ، زرداری قاتل ہے اور اسرائیلی لابی کے خاص آلہ کار ہیں ۔ وقت خود کو یوں دوہرائے گا شاید کوئی نہیں سوچ سکتا ہو گا ، عمران خان بھی نوا ز شریف کے 97 والے ایجنڈے کو لے کر اٹھا ہے اور حالیہ انتخابات نے بھی تاریخ دوہرائی ہے ، بڑے بڑے برج الٹ گئے اور پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیا ب ہوئی ہے ۔ ان انتخابات کی شفافیت پر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے سوال اٹھایا ہے لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نواز جیل میں ہے اور شہباز شریف خود پکڑ میں ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تلوار ان پر لٹک رہی ہے ۔

اگر ہم دیکھیں 97 کے انتخابات کو تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور دیگر جماعتوں نے نواز شریف پر سنگین کرپشن کے الزامات لگائے تھے لیکن بعد میں کارگل کے واقعے میں نواز شریف کی دغا بازی کھل کر سامنے آئی تو پرویز مشرف کو موقع مل گیا اور اس نے مارشل لاء لگا کر ایک حکومت قائم کر لی ، شروع کی مشرف پالیسیوں کو عوام نے بہت سراہا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام اپنی فوج سے دل و جان سے بڑھ کر محبت کرتی ہے جو ہمیشہ سے پاک فوج کے حق میں رہی ہے ۔اس بار نواز شریف کا پاناما پہ اقامہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیس نے ن لیگ کی دھجیاں اڑائیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی جان بچانے کی خاطر شہباز شریف کی نواز کے ساتھ دغا بازی بھی کھل کر سامنے آئی۔

انتخابات سے پہلے تک عمران خان کو کسی اور نظریے سے دیکھا جا رہا تھا لیکن اس کی پہلی ہی تقریر نے من موہ لیا ہے ، اور اس نے جو دعوے کئے ہیں واقعی عوام اور ملکی مفاد کیلئے بہت اہم ہیں ۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج جو اس کی حکومت کیلئے ہو گا وہ احتسابی عمل ہے جس کی زد میں کئی سیاست داں جو اس کے دائیں بائیں پھرتے ہیں، وہ بھی آئیں گے اور پیپلز پارٹی متحدہ مجلس عمل اور آزاد امید وار بھی کافی حد تک اس کیلئے چیلنج بن جائیں گے۔ یہاں 1997 اور آج کے حالات یکساں نظر آتے ہیں کہ شاید عمران خان اپنے وعدوں سے ناکام ہو جائیں اور ملکی مفاد میں ا سٹیبلشمنٹ کو موقع مل جائے عوام میں یہ باور کروانے کا کہ یہ تمہارے لیڈر صرف تمہارے جذبات کو کیش کر کے لوٹنے کیلئے آتے ہیں ۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان کے ساتھ وہ کابینہ نہیں جو نواز شریف کے پاس تھی ، اسد عمر ، اور شیریں مزاری جیسے قابل لوگ بھی موجود ہیں ، اور اب وہ حالات بھی نہیں رہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کافی حد تک پاک اسٹیبلشمنٹ کو عوام میں بدنام کر چکی ہے کہ یہ لوگ جمہورت کے مخالف ہیں اور صرف جمہوریت ہی سے کسی بھی ریاست کی ترقی ممکن ہے ۔ حالانکہ یہ کوئی ضروری نہیں ۔ عمران خان نے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ ہماری سٹیٹ اسی اور بیس کے تناسب سے چل رہی ہے یعنی اسی فیصد عوام دیتی ہے اور بیس فیصد حکومت اس کے با وجود ہم لگ بھگ سو ارب روپے کے خطیر قرضوں میں ڈوب چکے ہیں اور خارجی و داخلی پالیسیوں میں ناکام ہو چکے ہیں ۔اس وقت عمران خان کے ماضی کو لے کر دوسرا قائد اعظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے بالکل اسی طرح نواز شریف کی تاریخ پیدا ئش کو لے کر اسے قائد اعظم بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔

اب اگر عمران خان اپنے ماضی کی طرح حکومت میں رہ کر تمام دعوؤں کو پورا کرتا ہے تو یہ ترکی کے صدر طیب اردگان ثابت ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو عوام کا جمہوریت پر اعتبار ضرور کمزور ہوگا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں