The news is by your side.

بے نظیراور مریم نواز میں بنیادی فرق

ہمارے ملک کی دومایہ نازخواتین۔ دونوں کا لڑکپن وزیراعظم ہاؤس میں گزرا۔ دونوں کے وزیراعظم والد کو عدالت نے رخصت کیا۔ ایک کے باپ کو پھانسی کی سزا ہوئی اور دوسری کے باپ کو عدالت نے نااہل کردیا۔ دونوں خواتین اپنے اپنے باپ کی سیاسی جانشین بنیں۔ دونوں پر اپنے اپنے شوہرسمیت کرپشن کے الزامات لگےاور دونوں نے عدالتی کارروائیاں بھگتیں۔

یہاں تک تو محترمہ بےنظیر بھٹو اور مریم نواز میں مماثلت ہے لیکن اس سے آگے دونوں میں فرق ہے۔ محترمہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور مارشل لا کے نفاذ کے بعد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہاں تک کہ والد کی پھانسی اور تدفین کے وقت بھی محترمہ ہاؤس اریسٹ میں تھیں۔ بعدازاں جلاوطن ہوئیں اور پنکی سے بےنظیر بھٹوبن کرانتہائی مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کی کمان سنبھالی اور اندرون ملک اور بیرون ملک پارٹی کو منظم کیا۔ ۱۹۸۶ میں جب محترمہ نے پاکستان کی زمین پر قدم رکھا تو یوں لگا جیسے پورا ملک انہیں خوش آمدید کہنے سڑکوں پر امڈ آیا ہے۔ دو سال بعد بی بی نے پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن کر تاریخ رقم کردی۔ بےنظیر بھٹو دو بار وزیراعظم پاکستان بنیں اور دونوں ہی بار پیپلز پارٹی کی حکومت طاقت کی راہداریوں میں پنپنے والی سازشوں کا شکار ہوکر ختم ہوئی۔ بی بی پر کرپشن کے الزامات لگے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری گیارہ سال تک جیل میں رہے اور وہ خود جلاوطن ہوئیں وطن واپسی پر عدلیہ تحریک میں حصہ لیا اور ۲۰۰۸ کی الیکشن مہم کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں ۔

اب ہم آتے ہیں مریم نواز کی طرف۔ مریم نواز ہمیں ۲۰۱۳ میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت میں زیادہ متحرک نظر آتی ہیں۔ آپ اپنے والد کے شانہ بشانہ سیاسی سرگرمیوں میں شریک رہیں یہاں تک کہ جولائی ۲۰۱۷ میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے میاں نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہل قرار دیکر وزیراعظم ہاؤس سے رخصت کردیا۔ مریم نواز نے اپنے والد کی سیٹ پر حلقہ ۱۲۰ سے کلثوم نواز کو ممبر قومی اسمبلی منتخب کرواکر سیاسی میدان میں کامیابی سمیٹی۔ بعد ازاں باپ بیٹی کو قید با مشقت کی سزا ہوئی اور دونوں لندن سے سیدھے اڈیالہ جیل پہنچے جہاں مریم بی بی کے شوہر کیپٹن رٹائرڈ صفدر پہلے ہی قید ہیں۔ یہاں سے بے نظیر بھٹو اور مریم نوازمیں فرق آجاتا ہے۔ بی بی اپنے کمسن بچوں کے ساتھ آصف زرداری سے جیل میں ملنے اور عدالتی پیشیاں بھگتنے جاتی رہیں مگر کبھی اداروں کے خلاف نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کئے۔ جبکہ مریم نواز شاہانہ پروٹوکول میں احتساب عدالت میں پیش ہوتیں اور اپنا فرض عین سمجھ کر ریاستی اداروں پر تنقید کرتی ہیں۔ یوں تو ان کی گفتگو نپی تلی ہوتی ہے لیکن الفاظ کے چناؤ میں حقارت اور توہین کا عنصر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ مریم نواز کی پختگی پر حیرانی ہوتی ہے۔

بی بی کی حکومتیں سازش کی نظر ہوئیں۔ بھٹو کی پھانسی پاکستان کی عدالتی تاریخ پر دھبہ قرار پائی لیکن محترمہ نے کبھی اس طرح سازش کا ڈھول نہیں پیٹا جیسے مریم نواز لگاتار عوام کی سماعتوں پر سازش سازش کا شور تھوپتی رہتی ہیں۔ کمال بات یہ ہے کہ پاناما ایک بین الاقوامی اسکینڈل تھا جس نے بہت سے ممالک کی سیاست کو اثرانداز کیا۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے جہاں حکمران خاندان اس اسکینڈل کی زد میں آیا۔ مہذب ممالک میں پاناما زدہ لیڈر خود ہی مستعفی ہوکر حکومت سے الگ ہوگئے جبکہ ہمارے یہاں یہ فریضہ عدالت کو انجام دینا پڑا۔

بہرحال ہم موضوع پر واپس آتے ہیں۔ ہماری دونوں خواتین میں بنیادی فرق سیاسی تربیت اور دونوں کے والد کے سیاسی قد کاٹھ کا ہے۔ ہم بھٹو کے نظریات اور پالیسی سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں بھٹو جیسا دوسرا لیڈر پیدا نہیں ہوا جس کا سیاسی مرتبہ مسلم دنیا میں بھی بلند ہو او رجسے امریکہ بھی اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھتا ہو۔ بھٹو نے ملک کے دولخت ہونے پر اقتدار سنبھالا اور زخم خوردہ قوم کا اعتماد بحال کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اپنے وقت میں بھٹوسارے مسلم ممالک میں ممتاز اور جگمگاتا ہوا لیڈر تھا جو عوامی لیڈر کی شناخت لے کر پاکستان کے اندر اور باہر بیک وقت مقبول تھا۔ بےنظیر نے اس ماحول میں بھٹو سے سیاسی داؤ پیچ سیکھے۔ دوسری طرف نواز شریف ہیں جو سرمایہ دارانہ پس منظر کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب بنے اور بعد میں وزیراعظم ہاؤس تک پہنچے۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ ان دونوں نے اپنے اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا لیکن دونوں کی سیاست، سیاسی قبلہ اور سوچ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بھٹو نے پاکستانی عوام کو اسلامی سوشلزم کا نظریہ دیا جو پاکستانی عوام کیلئے اچھوتا ہونے کے باعث بے حد مقبول ہوا جب کہ میاں صاحب کا انحصار ہمیشہ بزنس کمیونٹی اور روایتی سرمایہ داری کی ترویج پر رہا۔ بھٹو بائیں بازو اور میاں صاحب دائیں بازو کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو نواز شریف نہ بھٹو کے ہم پلہ لیڈر ہیں اور نہ ہی انکی سیاسی سمجھ بوجھ بھٹو کے برابر ہے۔ میاں صاحب کا بین الاقوامی امیج بھی ذوالفقار علی بھٹو سے کہیں کم ہے۔ مریم نواز نے سیاست اس آرام دہ ماحول میں سیکھی جب نواز شریف سکون سے حکومت یا اپوزیشن میں رہے ۔ طیارہ سازش کیس کے نتیجے میں میاں صاحبان نے ضامنوں کے ذریعے معاہدہ کیا اور یوں پورے مشرف دور کو بھی شریف فیملی نے آرام سے سعودی عرب میں گزارا اور مریم نواز تو اس تمام زمانے میں چین کی بانسری ہی بجاتی رہیں۔ نہ انہیں سڑکوں پر آکر حکومت مخالف تحریک چلانی پڑی اور نہ اپنے والد کے سیاسی مورچوں کی ازسر نو تعمیر کرنی پڑی۔

دونوں خاندانوں کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی مشکلات ہی دونوں خواتین کی سیاست میں بنیادی فرق ہے۔ محترمہ نے کم عمری میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم کو پختہ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر استعمال کیا اور مہارت کے ساتھ اپنی جماعت کی انفرادیت بھی قائم رکھی۔ وہ اکیلے ضیاء الحق کے سامنے ڈٹی رہیں اور بھٹو کے نظریات کو دنیا کے سامنے پیش کرتی رہیں۔ آپ نے بھٹو کی پھانسی کو بہانہ بناکر اداروں کی ایسی تیسی کرنے کی نہیں ٹھانی بلکہ اداروں کو ساتھ لےکر آگے چلیں اور اپنا مقدمہ عوام کی عدالت اور وقت پر چھوڑ دیا۔

نوازشریف اورمریم نوازکا معاملہ اس کے الٹ ہے یہاں کرپشن، بدعنوانی کا کیس ہے۔ بھٹو نے دوران اسیری ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ نامی کتاب لکھ کراپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے خلاف اور اپنی بےگناہی کے حق میں منطق دینے کی کوشش کی۔ دوسری طرف میاں صاحب نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا لایعنی نعرہ لگادیا۔ زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اپنی جماعت کے دور حکومت میں ہی عدلیہ مخالف تحریک چلاکر اپنی ہی حکومت کیلئے پورس کے ہاتھی بنے اورمریم نوازاس خطرناک اور تباہ کن کھیل میں اپنے والد کے ساتھ ساتھ قیادت کے فرائض بھرپور طریقے سے انجام دیتی رہیں ہیں۔ ان کی کل سیاست کا محور میاں صاحب کو کیوں نکالا بن کر رہ گیا ہے۔ جب باپ بیٹی کی یہ جوڑی چلا چلا کر کہتی ہے کہ ملکی ترقی کا راستہ روکنے کیلئے نواز شریف کو نااہل کرکے جیل بھیجا گیا ہے تو ہنسی آتی ہے کہ حکومت کی اصل باگ ڈور تو میاں صاحب کے ہاتھ میں ہی رہی ہے۔ تمام حکومتی منصوبے اورپالیسیاں بھی جوں کی توں رہیں تو پھر ترقی اگر کہیں ہورہی تھی تو وہ کیسے اور کیونکر رک گئی۔

مریم نواز نے جارحانہ سیاست کا جو انداز اپنایا ہے اس سے عوام کا تعلق نہیں ہے، یہ سراسر ذاتی محاذآرائی اور انا کے بل پر ٹکراؤ کی پالیسی ہے۔ جب پورا پاکستان زینب کیس پر دکھ میں ڈوبا تب مریم بی بی اگر قصور چلی جاتیں تو لوگ انہیں سراہتے کہ انہوں نے عام آدمی کے دکھ کو بانٹا لیکن وہ تو عوام میں آکربنیادی مسائل پربات کرنے کے بجائے ہر جگہ اداروں کی تضحیک کرتی رہتی ہیں جس سے یہ تاثر اور تقویت پکڑتا ہے کہ ن لیگ خاندانی مفاد کو بڑھانا عوامی مفاد سے زیادہ سود مند سمجھتی ہے۔

یہاں پھر بےنظیر بھٹو اور مریم نواز میں فرق آجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے قطع نظر یہ سچ ہے کہ محترمہ ہمیشہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ چلتی تھیں۔ وہ سیاسی درجہ حرارت کو عوامی امیدوں سے ہم آہنگ کرنے کے فن میں طاق تھیں۔ وہ ہر بڑے لیڈر کی طرح لوگوں کے دکھ میں آگے آتیں۔ کبھی کسی بوڑھی عورت کو گلے سے لگالیتیں تو کبھی کسی گندے کپڑوں میں ملبوس بچے کو گود میں اٹھالیتیں۔ یوں آپ کا عوام سے رابطہ استوار رہتا۔ اسکے علاوہ وہ ہر وقت محاذ آرائی کرنےکے بجائے جلسے جلوس کو سیاسی فائدوں کےلئے استعمال کرنے کی افادیت سے خوب واقف تھیں – محترمہ مجمع کو جگادیتی تھیں، وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں جب تقریر کرتے ہوئے ٹھپے پہ ٹھپہ تیر پہ ٹھپہ کہتیں تو جیالوں میں برق سی دوڑ جاتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے بعد پیپلز پارٹی اس طرح سے میدانِ عمل میں نہ رہ پائی جیسا کہ ماضی میں رہا کرتی تھی اور مسلسل قیادت کے بدترین بحران کا سامنا کررہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں پی پی کی کارکردگی اس کا ثبوت ہے۔

مریم نواز کےپاس ان تمام چیزوں کا فقدان ہے۔ ان کے اردگرد مصنوعیت کا گہرا گمان چھایا رہتا ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی مخصوص نظریہ ہے نہ عوامی مسائل کا کوئی حل پھر بھی ان کےلئے سیاست محترمہ کے مقابلے میں قدرے آسان ثابت ہورہی ہے لیکن وہ اس سے پورا فائدہ اٹھانے میں خود اپنی غلطیوں کے باعث ناکام ہورہی ہیں۔ کل کو شاید انہیں ہم وزیراعلیٰ پنجاب یا وزیراعظم پا کستان دیکھیں کیونکہ ایک نئے این آر او یا سمجھوتے کی سرگوشیاں شروع ہوچکی ہیں۔ میاں صاحب جیل سے نکل پمز پہنچ چکے ہیں جہاں ان کی نامکمل میڈیکل ہسٹری کی راگنی چھڑ چکی ہے ، ہوسکتا ہے کہ نئے متوقع وزیراعظم عمران خان کو تکلیف دئیے بغیر ہی میاں صاحب ان کی حلف برداری سے پہلے پہلے علاج کے لئے انگلینڈ چلے جائیں۔ پیچھے مریم بی بی اور کیپٹن رٹائرڈ صفدر کا بھی کچھ انتظام ہو ہی جائے گا۔ لیکن سچ یہ ہی ہے مریم نواز فی الحال عوامی سیاست کے بجائے خاندان کا مقدمہ لڑرہی ہیں اور اس میں بھی شکست ان کے سامنے جیل کی سلاخوں کی صورت کھڑی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں