The news is by your side.

امریکہ ! اب تم خود کچھ کرو ‘ پاکستان بہت کچھ کرچکا

ایک وقت تھا جب پاکستان کے طول و عرض میں دہشت کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب بے ضمیر دہشت گردوں کی سفاکیت کی بھینٹ معصوم لوگ نہ چڑھتے ہوں تقریباً ہر روز ہی دھماکوں اور حملوں کی خبریں ملتی تھیں اور پہلے ہی سے سہمے ہوئے لوگ مزید دہشت زدہ ہوجاتے، کراچی سے لے کر خیبر تک کے علااقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اس دہشت گردی کی وجہ سے ہماری تعلیم گاہیں، عبادت گاہیں، تنصیبات ہر ہر جگہ غیر محفوظ ہوتی جارہی تھی پھر آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنے خون سے وطن عزیز کا حال اور مستقبل نئے سرے سے لکھنا شروع کردیا۔

دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہونے والی پاکستان آرمی نے دہشت گرد تنظیموں اور ان کے معاونین کے خلاف بلا تفریق وبلا امتیاز کارروائیاں کرکے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور مہارت کا ثبوت ملک میں امن قائم کرکے دیا۔ اس لڑائی میں دھرتی کے ان بیٹوں کی پشت پر پوری پاکستانی قوم کھڑی ہوئی ہے جس نے دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا اور یوں عزم اور شجاعت نے امید کی ٹمٹماتی شمع کو قابل تقلید مثال میں بدلنا شروع کردیا ہے۔ تفریحی مقامات پر رش، بازاروں کی رونقیں، تہواروں پر گہماگہمی،لاہور اور کراچی میں پی ایس ایل کے مقابلے اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان پر آیا برا وقت بتدریج ختم ہورہا ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ایک عشرے سے بھی کم مدت میں نہایت کامیابی کے ساتھ چھوٹے بڑے دہشت گرد گروپس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس کے علاوہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر دیہات، شہر، پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ گنجان گلیوں، آبادیوں میں کومبنگ آپریشن کرکے دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا رہا ہے۔جبکہ ہمارے ہی جیسی شورش کا سامنا کرنے والے کم و بیش تمام ممالک کو امن قائم کرنے میں کئی کئی دہائیاں لگ گئیں، انگلینڈ میں آئی آر اے، ترکی میں پی کے کے، سری لنکا میں ایل ٹی ٹی ای وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اپنے تئیں سپر پاور ہونے کا خواب دیکھنے والے بھارت کی اپنی حالت اس ضمن میں انتہائی نازک ہے، بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والی بھارتیہ سینا ایک درجن کے قریب چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے آگے بند باندھنے میں نہ صرف یکسر ناکام ہے بلکہ ایسی تحاریک کا ذمہ دار ہمسایہ ممالک کو ٹھہرا کر اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی سر توڑ کوششیں کرتی رہتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی ہر شکل اور ہر رنگ میں خطرناک اور قابل مذمت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دہشت گرد مذہب کا چولا پہن کر اپنے ظاہر سے اپنے نظریات کی کالک کو چھپالیتے ہیں تو دہشت گردی ایسی خوف ناک اور گھمبیر صورت اختیار کرلیتی ہے جو قوموں کے لئے پتلی برف پر دوڑنے کے مترادف ہوجاتا ہے اور پاکستانی ایسی ہی صورتحال میں کئی برسوں سے پھنسے ہوئے ہیں، ہمارے دشمنوں نے اس مکاری اور عیاری سے معاشرے میں موجود مذہبی فالٹ لائنز کو استعمال کیا کہ ملک و قوم کی بنیادیں زلزلوں کی زد میں آگئیں۔ ہم نے اس ظلم و بربریت میں وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ہمارا ہر تہوار خون میں رنگ دیا جاتا تھا او ر جب پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئیں کہ بلوچستان میں کرائے کےٹٹو پاکستان کا جغرافیہ بدلنے والے ہیں یا پھر عنقریب دہشت گرد پورے ملک پر قبضہ کرلیں گے، ہمارے کندھے جھکنے لگے تھے لیکن قدرت نے پاکستان کے لیے اماوس کی رات کے بجائے روشن صبح محفوظ کر رکھی تھی سو دشمن کے داؤ الٹنے لگے اور مذہب کے نقاب مکروہ چہروں سے گرا دئیے گئے۔

آج پاکستان محفوظ ملک بنتا جارہا ہے اور مزید محفوظ بنانے کا حوصلہ اور فیصلہ لے کر ہم آگے بڑھ رہے ہیں لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ہماری قربانیوں اور کامیابیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہماری امداد بند کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہمارے نیوکلیئر اثاثہ جات کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے پر ایک بار پھر بحث شروع ہورہی ہے، ایف اے ٹی ایف کا رویہ اور امریکہ کی طرف سے سات پاکستانی کمپنیوں کے نیوکلیئر تجارت میں ملوث ہونے کا الزام اور پابندیاں، چہ معنی دارید۔ امریکہ کے اس لہجے اور الفاظ کے پیچھے بھارت کا وہ پاکستان مخالف بیانیہ ہے جو واشنگٹن میں موجود انڈین لابی کے ذریعے ٹرمپ انتظامیہ تک پہنچ رہا ہے۔ امریکہ کو خود بھی افغانستان میں اپنی ناکامی اور خفت چھپانے کے لئے ایک قربانی کا بکرا چاہئیے لہذٰا اس کی نظر انتخاب ایک بار پھر پاکستان پر آٹھہری ہے، اس سے پہلے بھی سوویت یونین کے خلاف لڑے جانے والے افغان جہاد کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر امریکہ نے اس جنگ سے اپنے ہاتھ کھینچ کر پاکستان کو بیچ منجھدار میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ اب بھی یہ ہی ہورہا ہے، امداد اور تربیت کے باوجود افغانستان کی انتظامیہ اور فوج اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوپارہی ہے اس کے ہاتھوں سے علاقےتیزی کے ساتھ پھسل رہے ہیں، کابل حکومت مکمل بے توقیری کی جانب گامزن ہے اور امریکہ اس دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے اس لیے وہ اپنا بوجھ پاکستان پر لاد کر سبکی سے بچنا چاہتا ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش امریکہ اور افغانستان دونوں جانب سے جاری ہے۔

حالآنکہ پاکستان نے وار آن ٹیرر کی قیمت پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون سے چکائی ہے یہ جنگ تو سب کا مشترکہ مسئلہ تھی اور ہے سو دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ تمام ممالک مل کر مذہبی منافرت اور دہشت گردی کو ختم کریں لیکن یہاں پاکستان کو واحد ذمہ دار بنایا جارہا ہے۔ ہمارا مغربی ہمسایہ افغانستان اپنی حدود کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنے سے قاصر ہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسلسل افغان حدود سے پاکستانی فوج کی چوکیوں پر دہشت گرد حملے کئے جاتے ہیں اور ہماری فوج ان حملوں کو ناکام بناتے ہوئے قیمتی جانوں کا نقصان اٹھاتی ہے لیکن افغان حکومت حقائق سے چشم پوشی کرے جارہی ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو دہشت گرد بھاگ کر افغانستان میں جا چھپے اور وہاں اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنالیں۔

ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ آج بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہے، آج بھی وہاں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپس چل رہے ہیں، آج بھی وہاں سے پاکستان میں حملوں کے منصوبے بن رہے ہیں- بلوچستان میں انتخابای مہم کے دوران میر سراج خان رئیسانی جیسے دلیر محب وطن بلوچ لیڈر کی ۱۵۰ معصوم لوگوں کے ساتھ شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں امن سبوتاژ کرنے کے لئے استعمال ہورہی ہے۔ اور یہ سب بھارت کی ایما اور شہ پر ہورہا ہے جس میں افغان حکومت کی کمزوری اور بھارت افغانستان گٹھ جوڑ کلیدی کردار ادا کررہے ہیں امریکہ کی موجودگی میں اس کھیل کا جاری رہنا بذات خود کئی سوالوں کا موجب ہے کیونکہ امریکہ تو پاکستان کو اپنا اتحادی کہتا ہےجبکہ پاکستان نے متعدد بار اس مسئلے کی نشان دہی بھی کی ہے اور افغانستان میں موجود بھارتی سفارت خانوں کی مشکوک سرگرمیوں پر بھی سوال اٹھائے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ غیر مؤثر سفارت کاری ہمارا بیانیہ دنیا کے سامنے اس شد و مد سے پیش نہیں کر پارہی جو وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کلبھوشن یادیو کی شکل میں بھارت کی پاکستان میں مداخلت اوراسٹیٹ ٹیررازم کا چلتا پھرتا زندہ ثبوت ہے جو اقرار اور اعتراف جرم بھی کرچکا ہے لیکن ہم اس کو بھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرپارہے دوسری طرف بھارت ہے جس نے ممبئی حملوں کے بعد ناقص اور ناکافی ثبوت اور ابہام میں لپٹے شواہد کے باوجود دنیا کو باور کروادیا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث ہے۔ ہماری کمزور لابنگ امریکہ کی نئی اور جارح مزاج حکومت میں اپنا اثر رسوخ بنانے میں ناکام رہی لہذٰا انڈیا نے موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے ساتھ اپنا ازلی بغض نکالنا شروع کردیا ہے۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے، ہم اب بھی حقائق سے پراپگنڈے کو شکست دے سکتے ہیں اور سرکردہ ملکوں کے سامنے اپنا مؤقف منواسکتے ہیں لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ اہل اور تجربہ کارسفیر متعین کئے جائیں جو بھرپور طریقے سے قومی بیانیہ پیش کرسکیں، بھرتی کے سفیر یہ کام نہیں کرسکتے۔ ہمیں انٹرنیشنل فورمز کو استعمال کرنے کے لئے سپر ایکٹو سفارت کاری درکار ہے جو اسی لیول کی خارجہ پالیسی کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑسکے۔

یہ جنگ ہماری نہیں تھی لیکن بن گئی، نائن الیون میں پاکستاں ملوث نہیں تھا لیکن خمیازہ ہم نے بھگتا، ۱۰۸ بلین مسلمانوں پرلگے دہشت گردی کے لیبل کو مٹانے اور دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے، ہماری معیشت پر اس جنگ نے اضافی بوجھ ڈالا، نہتے بےگناہ شہری خودکش دھماکوں کا نشانہ بن گئے، قوم کی نفسیات بدل کررہ گئی، ہمارے شیردل جوان بزدل دہشت گردوں کی کارروائیوں کا شکار ہوئے پھر بھی ہمیں ہی مزید کرنے کو کہا جارہا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اب امریکہ کی باری ہے افغانستان میں ڈو سم تھنگ کی تاکہ وہاں بھارت کی ریشہ دوانیوں کو لگام پڑسکےاور مضبوط مرکزیت کے ساتھ افغان حکومت اپنی رٹ ملک میں قائم کرکے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدوں کی مؤثر نگرانی کرسکے۔ پاکستانی قوم نے اپنی فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کوپسپا کردیا ہے اور ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے مزید کام بھی کررہے ہیں، آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان جیت رہا ہے ۔پاکستان پر پابندیاں اور بے جا الزامات مسائل کا حل نہیں ہے نہ بھارت کی پیٹھ ٹھونک کر افغان امن عمل سے پاکستان کو دور رکھ کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، اسلام آباد خطے میں امن اور طاقت کے توازن کے لئے سنجیدہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کوششوں کو کمزوری سمجھنے کے بجائے اب باقی ممالک اپنی ذمہ داری خود اٹھائیں اور اپنی سرزمین کو دوسروں کے خلاف استعمل نہ ہونے دیں کیونکہ پاکستان پورے عزم اور موثر حکمت عملی کے ساتھ اپنی زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے رہا۔

عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔ عمران خان کے وعدوں اور دعوں کی روشنی میں ان سے امید ہے کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کو بیلنس کریں گے اور امریکہ میں سرگرم بھارتی لابی کا توڑ بھی کریں گے۔ ویسے بھی بھارتی میڈیا تحریک انصاف کی جیت کو ہندوستان کے لئے منفی قرار دے رہا ہے تو یقیناً بھارت پاکستان کی نئی حکومت کے لئے لابنگ کرکے مسائل پیدا کرے گا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں