عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر بیٹی ہے تو رحمت ہے۔ بیوی ہے تو دکھ سکھ کی ساتھی ہے۔ بہن ہے تو گھر کی رونق ہے۔ غرض عورت کا ہر روپ ہر رنگ خوبصورت اور باعث اطمینان ہے۔ شاید اسی لیے شاعر نے کہا کہ قوموں کی عزت ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے ہے۔ خدا نے عورت کی جبلت میں صبرو تحمل، محبت اور تسلیم و رضا وافر مقدار میں رکھی ہے اسی لیے آئندہ نسلوں کی تربیت اور گھر کا انتظام و انصرام بھی قدرت نے عورت کو ہی تفویض کیا ہے۔ صنفِ نازک کے بغیر خاندان اور معاشرے کا تصور ازل تا ابد نا مکمل ہے۔ تاریخ انسانی عورت کے لافانی کردار کو خراج عقیدت پیش کرتی رہتی ہے جہاں عورت ضروت پڑنے پر رزم وبزم اور امور خانہ داری سے لے کر مسند اقتدار تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی رہی ہے۔
کہتے ہیں ، وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔لیکن ہم پاکستان میں جانے کون سی کائنات تخلیق کرنا چاہتے ہیں جہاں وجود ِزن کا ہر رنگ پھیکا پڑتا جارہا ہے۔ ہمارے یہاں صنفِ نازک کے ساتھ ہر روز انسانیت سوز واقعات جنم لیتے ہیں جو نیوز چینلز کی رپورٹنگ اور اخبار کی دو کالمی خبر بن کر ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ہم میں سے کتنے لوگوں کو رواں سال ہونیوالے تیزاب گردی کے واقعات ،زیادتی یا غیرت کے نام پر ہونیوالے قتل کے اعداد و شمار یاد ہیں۔ یقیناً ایک یا دو اور زیادہ سے زیادہ پانچ ۔ اس کے بعد کی گنتی قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئے روز ہونیوالے ایسے گھناؤنے واقعات کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ ہم ایسی خبروں کو روٹین کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور باقی کا وقت اس بات پر فخر کرتے گزار دیتے ہیں کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر فہمیدہ مرزا کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہم تحریک ِپاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کا کردارلازماً اسکول میں پڑھاتے ہیں- ہم بی اماں کی تربیت کو مثالی کہتے ہیں۔ ہم اسلام کی برگزیدہ خواتین کو تعظیم دیتے ہیں لیکن یہ سب کرتے ہوئے ہم ایک عام پاکستانی عورت کی عزت کرنا اور اسے اس کا جائز مقام دینا بھول جاتے ہیں۔ اور پھر جب کبھی خواتین کے حقوق یا معاشرے میں ان کے کردار اور مقام پر بات چھڑ جائے تو ہم غیرت و حمیت کے سمندر میں غوطے لگانے لگتے ہیں یا غیر فطری اور مصنوعی طریقوں سے سماجی سطح پر مرد اور عورت کو برابر کہنے پر تل جاتے ہیں۔
درحقیقت ہم عورت کے معاملے میں بھی دو انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ مکتبہ فکر ہے جو خواتین کو ہر معاملے میں پیچھے رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک صنف نازک کی حیثیت کیڑے مکوڑے جیسی ہے۔ یہ لوگ پنچایت اور جرگے بٹھا کر غیرت اورعزت کے نام پر عورت کا ایسا استحصال کرتے ہیں کہ انسانیت اپنا چہرہ چھپا کر وہاں سے نکل جاتی ہے۔ کبھی یہی لوگ من پسند رشتہ نہ ہونے پریا گھریلو تنازعہ پر معصوم عورتوں پر تیزاب پھینک دیتے ہیں تو کبھی باہمی چپقلش ختم کرنے کے لیے کم سن بچیوں کی شادی کئی گنا بڑے مردوں سے کردیتے ہیں۔ شعور اور تہذیب سے نابلد یہ لوگ عورتوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سرراہ برہنہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور نہ زیادتی کا حکم دیتے ہوئے ان کی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔ ہمارے یہاں آج بھی جائیداد کا حصہ غصب کرنے کیلئے خاندان کی لڑکیوں کو کنوارا رکھا جاتا ہے یا پھر قرآن سے ان کی شادی کرواکرآئینِ پاکستان کے تحت سنگین جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ بس! مقام شکر یہ ہے کہ ایسے تمام کاموں کے بعد خاندان کی عزت کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں اور مرد حضرات کی غیرت کا شملہ اور اونچا ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف حقوق نسواں کے ایسے علمبردار ہیں جن کی اکثر تحاریک کا مقصد یا تو بیرونی امداد کا حصول ہوتا ہے یا پھر بین الاقوامی میڈیا پر کوریج حاصل کرنا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ اکثر اوقات خواتین کیخلاف ہونیوالے جرائم کو بہانہ بنا کر ریاستی یا مذہبی قوانین کیخلاف اشتعال انگیزی بھی انہی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے شروع کی جاتی ہے جو آگے چل کر انتہائی بد صورت شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ یہ لوگ شہروں اور دیہات میں نہایت برق رفتاری سے اپنا کام کرتے ہیں اور متاثرہ عورت تک فوراً پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کے یہاں نسوانیت یا عورت کے معاشرتی مقام کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ یورپ میں چلنے والی سیاسی تحاریک نسواں سے مستعار لیا ہوا ہےلہذٰا انکے اکثر کاموں پر شکوک و شبہات چھائے رہتے ہیں۔ یہ این جی اوز چونکہ زیادہ تر غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کرتی ہیں اسلئے انکے نظریات بھی اکثر لوگوں کو امپورٹڈ ہی لگتے ہیں ۔باقی رہی سہی کسر یہ اسلام پرغیر ضروری اور لا یعنی تنقید کرکے پوری کرلیتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس مکتبہ فکر کا کوئی اور ہی ایجنڈا ہے جسے انہوں نے عورت کے استحصال اور حقوق نسواں کے پردے میں چھپایا ہوا ہے۔ حالانکہ بہت سے ایسے غیر سرکاری ادارے ہیں جو حقیقی معنوں میں خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
غیرت کے نام پر جو مکروہ کام پاکستان میں جاری ہے اسکی کوئی توجیہ ہو ہی نہیں سکتی۔ اسلام میں اس کی اجازت تو درکنار اس کا تصور ڈھونڈنا بھی محال ہے۔ پھر بھی ہمارے کتنے ہی نام نہاد مولوی اور دانش ور حضرات غیرت کے نام پر کی جانیوالی اس بے غیرتی کو درست کہنے کے لیے بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی آخری الزماں حضرت محمدﷺ عورتوں کو کتنی عزت دیتے تھے اور ان کے ساتھ کتنی شفقت اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ وہ اس سلسلے میں قرآنی احکامات کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں اور معاشرتی تہذیب اور شائستگی کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنیوالوں نے خود کو کبھی ظلم و زیادتی کا شکار کسی مظلوم عورت کی جگہ رکھ کر سوچا؟ یا اندھی غیرت کے بہیمانہ وار کھا کر بے وقت کی موت مرنے والیوں کی سامنا روز حشر کرنے کا سوچاہے؟ یقیناً نہیں وگرنہ وہ اس کے خلاف آواز ضرور اٹھاتے۔ لیکن یہاں اس تعفن زدہ ماحول میں تو شہری اور دیہی عورت یکساں طور پر مردوں کی عزت کا بوجھ ڈھو رہی ہیں اور کتنی ہی خاندانی غیرت کا خراج ادا کرکے اپنا لہو دستانے پہنے ہاتھوں پر تلاش کررہی ہیں۔
ہمارے یہاں غیرت کی بھینٹ چڑھنے والی عورت کو کبھی انصاف نہیں ملتا کیونکہ ان کے خاندان قتل کا ارتکاب کرنیوالے اپنے چشم و چراغ کو ہمیشہ معاف کرکے قانونی سزا سے بچا لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک باپ بھائی کی غیرت کی اتنی اہمیت ہے کہ اسکے سامنے لڑکی کی جان کی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ خود ہی مدعی خود ہی منصف بن کر ایک جیتی جاگتی زندگی کو درندگی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ کئی دفعہ تو ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر معاملہ پولیس تک پہنچ بھی جائے تو وہ پولیس کی روایتی نااہلی کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ طویل قانونی سقم ، عدم پیروی اور گواہان کا تحفظ، یہ سب مل کر بھی انصاف کے تقاضے پورے ہونا مشکل بنادیتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم نے گرتے پڑتے غیرت کے نام پر قتل کیخلاف قانون تو بنالیا ہے لیکن اس پر عمل کرنے میں دل کی پوری رضا شامل ہی نہیں ہے کیونکہ ہماری اشرافیہ خود جرگہ اور پنچایت میں شامل ہوتی ہے اس لئے وہ ان کے خلاف بننے والے قوانین کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہتی ہے۔
بہت سے لوگ پاکستان میں عورتوں کی قابل رحم حالت کا ذمہ دار جنرل ضیاءالحق کے دور کو بالعموم اور حدود آرڈیننس کو بالخصوص قرار دیتے ہیں۔ اگر اس کو ٹھیک مان بھی لیا جائے تو بعد کے ادوار میں کیا ہوا؟ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے پاکستان میں خواتین پر دائرہ حیات آج کے دور میں بھی تنگ ہوتا جارہا ہے۔ کہنے کو آج پاکستانی عورت زیادہ پڑھی لکھی اور باشعور ہے جو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے لیکن اس بظاہر چمک دمک کے پیچھے خالص جاگیردارانہ ذہنیت اور ماحول اب بھی کارفرما ہے۔ ہم وہ بیوقوف لوگ ہیں جو عورت کو ووٹ ڈالنے سے روک کر مطمئن ہوجاتے ہیں اس کےلئے باقاعدہ میٹنگز اور مفاہمتیں کی جاتی ہیں۔ اور ایسا کرنیوالی ہماری اپنی سیاسی جماعتیں ہیں تو پھر سوچیں کہ اس معاشرے میں عورت کھل کر کیسے سانس لےسکتی ہے۔
اگر ہم واقعی عورت کے معاملے میں دن رات پستی کی جانب گامزن سماج کو سنبھالنا ہے تو ہمیں لڑکیوں کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں خواتین کیلئے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور عورتوں کیخلاف کئے جانیوالے جرائم کے مرتکب مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دینا ہوں گی۔ ہمیں نچلی سطح پر آکر عورتوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا ہوگا کیونکہ محض اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھانے سے عام عورت کے مسائل حل نہیں ہوتے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں