The news is by your side.

دنیا کا مشکل ترین ریسکیو آپریشن

وہ بچپن سے ہی بہت بہادر اور ہمت والا تھا اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا، اسے زندگی میں بہت خوشیاں تو نصیب نہ ہوئیں ، لیکن بہت سارے دکھ اورپریشانیاں ضرور ملیں ، شاید پریشانی غربت و بھوک نے اسے اس قدر طاقت وار بنا دیا کہ وہ کسی مشکل میں گھبراتا نہیں تھا بلکہ دوسروں کی پریشانی اور مشکل میں ان کے حوصلے بھی بڑھتا رہتا تھا۔

اس کا نام ایکا پول چٹا وانگ تھا ، سخت جان اور بہت محنتی ایکاپول جب محض 12 سال کا ہوا تو علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ،تبھی طاعون کے سبب اس کا پورا گھرانہ موت کی آغوش میں چلا گیا۔ ایکا پول کا سات سال کا بھائی اور ماں باپ کی اس دردناک بیماری کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس حادثے کے بعد ایکاپول پوری دنیا سے کٹ کر رہے گیا ، والدین کی بے وقت موت نے ایکاپول کو ہلا کر رکھ دیا ، اس کا دنیا میں کوئی سہارا نہ رہا ، اور یہ ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ ایکا پول اس ڈپریشن سے نکلنا چاہتا تھا۔اس کے والدین کا مذہب بدھ مت تھا۔ وہ سکون کی تلاش اور ڈپریشن کو دور کرنے کے لیے بدھ مت کے مذہبی پیروں کاروں کے پاس جا کر رہنے لگا۔ اور وہاں جا کر ایکا پول سادھو بن گیا۔ زبردست ڈپریشن اور مایوسی میں ایکاپول کو سادھو پن میں زندگی جینے کی طاقت ملی، جس کے بعد ایکاپول کی زندگی کی گاڑی پھر سے پٹری پر لوٹ آئی، اب اس میں ہمت اور حالات سے لڑنے کی طاقت بڑھ چکی تھی۔

ایکا پول آج سے تین سال پہلے تک ایک سادھو تھا، جب اس نے اپنے آپ کو سادھو سے باہر نکالا تو وہ ایک فٹبالر بن گیا اور یہی وہ میدان تھا جس نے اسے پوری دنیا میں ہیرو بنا دیا ، ایکا پول خود کھیلنے کی بجائے کھلاڑیوں کو تربیت دینے لگا یعنی فٹ بال کا کوچ بن گیا جو سولہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کو تربیت دیتا تھا ، ایکا پول وہی فٹ بال کوچ ہے جو تھائی لینڈ کی غار میں 17 دن اپنے بارہ شاگردوں کے ہمراہ غار میں پھنسا رہا، غار میں پھنسے اس کے شاگردوں کی عمریں 11 سے 16 سال تک کی تھیں اور خود ایکا پول کی عمر 25 سال ہے ، اگر اس غار میں ایکا پول ان لڑکوں کے ساتھ نہ ہوتا تو شاید ان میں سے کوئی بھی زندہ باہر نہ نکالا جاتا۔

ایکال پول اور اس کی انڈر 16 ٹیم کے بارہ کھلاڑی 23 جون کو ایک پریکٹس میچ کے بعد تھائی لینڈ کے علاقے تھام لوانگ غار کی سیر کو نکل پڑا، ان لوگوں کو سیر کرتے اور غار کے پراسرار حصوں کو دیکھتے ہی دیکھتے پتہ نہ چلا اور یہ لوگ تقریباً چار کلومیٹر تک غار کے اندر چلے گئے۔

یہ غار ایک سیلابی پانی کی گزر گاہ تھی جو دس کلو میٹر تک طویل ہے ، تھائی لینڈ میں مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی تھیں ، مختلف جگہوں سے آنے والا پانی غار میں داخل ہو چکا تھا ، جب یہ لوگ اندر موجود تھے تو پانی بھی ان تک آن پہنچا، ان لوگوں نے غار کے ایک اونچے حصے پر بیٹھ کر اپنے آپ کو محفوظ کیا ، ایکا پول اور اس کے ٹیم کے لڑکے پانی نیچے اترنے کا انتظار کرنے لگے لیکن ایک دن گزر گیا لیکن پانی نیچے نہ اترا ایسے دو دن پھر تین دن چار دن حتی کہ ان لوگ کو نو دن غار میں پھنسے ہوئے ہو گئے تھے، ان کے پاس بہت تھوڑی سی مقدار میں خورک تھی جو یہ لوگ ساتھ لائے تھے ، اتنے دن غار میں پھنسے رہنے سے لڑکوں کی حالت خراب ہورہی تھی ، ادھر پانی بھی نہیں اتر رہا تھا اور نہ ہی کوئی مدد کرنے آ رہا تھا ، ایکاپول سوچ رہے تھے کہ پہلے بھی زندگی میں بہت مصبتیں سہ چکا ہوں ،اب ایک اور مصیبت کہا ں سے آن پڑی ہے۔ اس نے سوچا میری تو خیر ہے ان لڑکوں کا کیا ہوگا جن کی عمر بھی کم ہے جو بھوک اور تکلیف برداشت کرنے کی اتنی ہمت نہیں رکھتے۔

ادھر تھائی لینڈ کی حکومت کو تب ان لوگوں کی گمشدگی کی اطلاع ملی جب ٹیم میں سے ایک لڑکے کی ماں نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس میں درج کروائی ، پولیس نے ان لڑکوں اور کوچ کی تلاش شروع کر دی ، پولیس کو چھان بین سے پتہ چلا یہ لوگ تھام لوانگ غار کی سیر کو گئے تھے اور پولیس کو ان کے سائیکل غار کے دھانے اونچی جگہ پر کھڑے دیکھ کر پولیس کو اندازہ ہوگیا یہ لوگ کہیں غار کے اندر پھنسے ہوئے ہوں گے ، اگر یہ پانی میں بہے جاتے تو ان کی لاشیں باہر مل جاتیں ، اور زندہ نہیں بھی ہیں تو یہ اندر ابھی تک ہیں ضرور زندہ یا مردہ حالت میں ، تھائی لینڈ کے حکام نے برطانیہ سے ماہر غوطہ خور مانگوائے اور ساتھ ہی ان کی مدد کے لیے تھائی نیوی سیل کے غوطہ خور شامل تھے ، پہلے دن جب غوطہ خوروں کو غار میں داخل کیا گیا تو ان کو ہائی انرجی گولیاں اور فسٹ ایڈ کا سامان بھی دیا گیا اگر وہ لوگ زندہ ہوئے تو انہیں خوراک اور فسٹ ایڈ کی ضرورت ہوئی تو ان دی جا سکے۔

2 جولائی کو برطانوی ٹیم سے تعلق رکھنے والا ایک غوطہ غور جب غار کے اندر چار کلومٹر تک پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہے گیا کہ ایکاپول اور اس کی ٹیم کے 12 کھلاڑی زندہ سلامت ایک چٹان پر بیٹھے ہیں، اس غوطہ خور نے ان لوگوں کو ہائی انرجی گولیاں دیں اور ان کاظاہری جائزہ لیا کہیں ان میں سے کوئی زخمی تو نہیں ، غوطہ خور نے ان کی ویڈیو بنائی اور واپس غار سے باہر آ گیا۔ جب اس غوطہ خور نے ان کے زندہ ہونے کی اطلاع دی تو ان کے والدین کے ساتھ پورے ملک عوام کی جان میں جان آ گئی ، اب تھائی لینڈ کے حکام ان لڑکوں کو باہر نکالنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ ان افراد کو زندہ کیسے نکالا جائے ، تھائی لینڈ کے اس واقع کا سن کر مختلف ممالک نے اپنی ریسکو ٹیم اور ماہر غوطہ خور تھائی لینڈ روانہ کیے جن میں برطانیہ ، فرانس ، اسٹریلیا، چین اور فلپائن کے ریسکو حکام شامل تھے۔

دوسری طرف ان لوگوں کو غار میں پھنسے کافی دن ہوگئے تھے ، ساتھ ہی محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی بری خبر سنائی دی اور کہا کہ غار میں پانی کی سطح مزید بلند ہو سکتی ہے ، جبکہ ریسکو ٹیم اس بارے میں سوچ رہی تھی کہ ان لڑکوں کو ابھی غار میں رہنے دیا جائےاور تین ماہ بعد جب پانی اتر جائے گا تو ان کو نکال لیا جائے ، پر موسمیات کے الرٹ نے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا تھا اور وہ کچھ مزید آپشن کے بارے سوچنے پر مجبور ہوگئے ، اسی دوران ان لڑکوں کو خوراک اور آکسیجن دینے والے ایک غوطہ خور کی ہلاکت ہو جاتی ہے جس کے آکسیجن سلنڈر میں گیس راستے میں ختم ہوگئی تھی یہ غوطہ غور تھائی لینڈ نیوی سیل کا سابق اہلکار تھا، ریسکو ٹیم مزید دو آپشن پر سوچنا شروع کردیا ایک تو غار کے باہر سے سوراخ کر کے ایکا پول اور ان لڑکوں کو نکال لیا جائے یا پھر تیسری آپشن ان لڑکوں کو غوطہ غوری کی تربیت دے کر ان کو پانی کے اندر سے باہر لایا جائے۔

ریسکو حکام نے غار سے باہر کم از کم 100 سوراخ کیے جن میں سے کچھ چار سو میٹر تک گہرے تھے لیکن یہ لڑکے جس جگہ موجود تھے وہ جگہ آٹھ سو میٹر سے زیادہ گہری تھی اس منصوبے میں بھی ریسکو حکام کو ناکامی ہوئی اب آخری آپشن پر کام کیا گیا ، 8 جولائی کو اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ ان لڑکوں کو باہر نکال لیں گے کیونکہ اب غار میں آکسیجن کی مقدار مسلسل کم ہورہی تھی جو 21 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد تک رہے گئی تھی ، حتمی آپریشن شروع کرنے سے پہلے ان لڑکوں کے والدین سے اجازت طلب کی گئی، ریسکو ٹیم نے کہا کہ ہم اپنی طرف سے بھر پور کوشش کریں گے کہ سب افراد کو زندہ باہر لایا جائے پھر بھی کسی بھی قسم کے حادثے کا اندیشہ ہر صورت ممکن رہے گا۔

ایکا پول اور اس کی ٹیم کے لڑکوں کو نکالنے کے لیے 8 جولائی کو ریسکو آپریشن کا آغاز کیا گیا ، 18 غوطہ خور غار میں داخل ہوئے اور گیارہ گھنٹوں کی طویل جدوجہد کے بعد 4 لڑکوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ، ایکا پول اور ان لڑکوں غار کے جس حصے میں موجود تھے وہاں تک پہنچنے میں 5 گھنٹے کا وقت لگتا تھا اور اتنا ہی واپسی پر وقت لگتا تھا ، 9 جولائی کو دوسرے دن دوبارہ آپریشن شروع کیا اس دن بھی اتنے ہی غوطہ خور غار میں داخل ہوئے جتنے پہلے دن داخل ہوئے اور یہ لوگ 9 گھنٹوں میں مزید چار لڑکوں کو باہر لانے میں کامیاب رہے اس مرتبہ پہلے دن کی نسبت دوگھنٹے وقت کم لگا ، اب غار میں کوچ ایکاپول اور چار لڑکے باقی تھے جن کو باہر نکالنے لیے اگلے دن یعنی 10 جولائی کو تیسرے دن کے آپریشن کا آغاز کیا گیا اور 9 گھنٹے کے وقت میں غوطہ غور چار لڑکوں اور ان کے کوچ ایکا پول کو ہاہر لے آئے ، کئی روز تک جاری رہنے والا مشکل ترین آپریشن بالاخر اختتام کو پہنچ گیا ، یہ لوگ سترہ دن تک اس اندھیری اور خطر ناک غار کے اندر موجود رہے ۔

اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں تھائی لینڈ کی حکومت نے تمام تر وسائل کو استعمال کیا اور پوری حکومتی مشنری سر جوڑ کر بیٹھ گئی ، اس مشکل ترین مشن کو پایا تکمیل تک پہچانے میں ان ہیروز کا کردار اہم ہے جو گیارہ گیارہ گھنٹے پانی میں غوطے لگا کر ان لڑکوں کو غار سے باہر لاتے رہے ، اور ان کو سب سے پہلے تلاش کرنے والا بھی بڑا ہیرو ہے اور مشن میں جان کی بازی ہارنے والا تھائی لینڈ نیوی سیل کا سابق اہلکار بھی کوئی کم ہیرو نہیں ، تمام اہلکاروں نے ایکا پول اور اس کی ٹیم کے لڑکوں کو بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی۔اس مشکل کی گھڑی میں ٹیم کے کوچ ایکاپول چانٹاوانگ نے اپنی پوری ٹیم کا حوصلہ بڑھایا ، ان کے پاس اگر کچھ کھانا موجود بھی تھا تو ایکا پول نے بڑی احتیاط سے اسے استعمال کرتے ہوئے کچھ دن تک اسے چلایا تاکہ یہ لڑکے کمزور ہو کر بیمار نہ پڑ جائیں ، اتنا ہی نہیں، کوچ ایکاپول لگاتار اپنے شاگردوں کا حوصلہ بڑھاتا رہا اور انھیں مشکل حالات میں خود کو بچائے رکھنے کے طریقے بھی بتاتا رہا، کوچ ایکاپول نے باہر نکلنے تک اپنے شاگردوں کو جسم کی توانائی اور طاقت بچائے رکھنے کے لیے کئی طریقے بتائے۔ وہ سبھی کی ہمت بڑھاتا رہا اور خود کے حصے کا کھانا بھی اپنے شاگردوں میں تقسیم کرتا رہا۔

ایکاپول چانٹاوانگ نے لڑکوں سے کہا کہ حالات مطابق اپنے آپ ڈھالنا ہوگا اور اس مشکل وقت میں ہار نہیں ماننی ہوگی۔زندگی موت تو خداکے ہاتھ میں ہے لیکن مشکل کی گھڑی میں اگر کوئی حوصلہ بڑھانے والا ساتھ ہو تو انسان ہمت نہیں ہارتا۔ اپنے شاگردوں کا حوصلہ بڑھانے والا کوچ ایکا پول چانٹاوانگ تھائی لینڈ میں ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں