کرن صدیقی
وطنِ عزیز پاکستان کو اللہ پاک نے ہر نعمت سے نوازا ہے صرف وسائل کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ باصلاحیت لوگوں کے لحاظ
سے بھی ، پاکستان پہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے لیکن یہ کِس قدر افسوس کی بات ہے کہ تمام تر بہترین وسائل کے باوجود ہم اُس طرح ترقی نہیں کرپائے جس طرح کرنا چاہیئے تھی ہمارا مُلک ترقی پذیر ملک ہے، ترّقی پذیر ممالک جنھیں اِصطلاحاً تیسری دُنیا کہا جاتا ہے تو ہم بھی اُسی تیسری دُنیا سےÇanakkale Escort تعلق رکھتے ہیں اور تیسری دُنیا کے مُمالک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بھی وہاں مسائل حل ہو نہیں پاتے۔
اگرچہ اِن تمام مسائل کے بارے میں گفتگو خاصی طویل ہے لیکن اگر مُختصراً اِس بارے میں بات کی جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں کے مسائل کی اصل وجہ وہاں کے عوام کا باشعور نہ ہونا ہے کیوں کہ اگر عوام باشعُور نہ ہوں تو وہ نہ اپنے لیے اچھے حُکمرانوں کا اِنتخاب کرسکتے ہیں اور نہ ہی قومی نوعیت کے مُعاملات کہ دُرست انداز میں سمجھ کر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔
بات اصل میں یہ ہے کہ شعور آتا ہے علم سے، کیوں کہ عوام باشعُور اُسی وقت ہوں گے جب وہ تعلیم یافتہ ہوں ۔ علم یعنی تعلیم کی جو صُورتِ حال ہمارے یہاں ہے وہ کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے۔ یہ ابتری یا دُوسرے لفظوں میں اگر کہیے تو یُوں کہیئے کہ تعلیم کے حوالے سے خوفناک صُورتِ حال صِرف ہمارے یہاں یعنی پاکستان میں ہی نہیں تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک میں یہ ہی صورتِ حال ہے۔آج کے دور میں کسی بھی مُلک کے ترقی کرنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے تعلیم۔ جن قوموں نے یہ راز سمجھ لِیا اُنھوں نے تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کی بھرپُور کوشش کی اور اِس اہم ترین شعبے پر اتنی توجہ دی کہ اُن کے یہاں طالب علموں کو صرف ڈگریاں ہی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں علم بھی دِیا جاتا ہے، اگر آج آپ غور کریں تو اقوامِ عالم کی صف میں وہ ہی قومیں نُمایاں اور مُمتاز حیثیت رکھتی ہیں اور وہ تمام آج ترقی یافتہ قومیں ہیں۔
ہمارے یہاں شُروع دن سے تعلیم کے شُعبے پہ کبھی توجہ نہیں دی گئی اِس کی جو بھی وجوہات ہیں وہ ایک الگ بحث ہے لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اِس عدم توجّہی اور غفلت کا نُقصان صرف اور صرف عوام کو بُھگتنا پڑا ہے اور یہ وہ نقصان ہے جو نسل درنسل چلتا ہے آج ہم یہ چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تعلیم کے شُعبے میں غلط پالیسیز اختیار کرنے سے ہمارا کِتنا نقصان ہوا ہے اِس کا ثُبوت ہمارے آج کے طلباکی علمی سطح ہے۔ ہماری آج کی نسل رٹّا لگا کے امتحان تو پاس کرلیتی ہے اور پھر ڈگریاں بھی حاصل کرلیتی ہے لیکن کیا وہ علم بھی حاصل کرتی ہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لِیئے آج کے طلبا سے گفتگو کیجئے خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔
ہمارے کہنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہمارے طالب علم غبی یا کُند ذہن ہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہمیں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں پر پورا پورا اعتماد بھی ہے اور بہت زیادہ فخر بھی لیکن یہ کہتے ہُوئے بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کے سائنسی اور تیز ترین ترقی کے دور میں عِلمی حوالے سے جس طرح ایک طالب علم کی ذہنی ساخت ہونا چاہیئے ہمارے پالیسی ساز ادارے اس کے مطابق تعلیمی پالیسیز نہیں بناتے۔
اگر ہمارے اربابِ اختیار اس سلسلے میں درست سمت میں کام کریں اور ایسی تعلیمی پالیسیاں بنائیں جو ہمارے طلباکی صلاحیتوں کو نِکھاریں اور اُنھیں اِس قابل بنائیں کہ وہ عصرِحاضر کے تیزی سے بدلتے ہُوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں۔
ہمارے یہاں اگرچہ باصلاحیت طالب علموں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اُنھوں نے مُختلف شُعبوں میں بُہت نام کمایا نہ صرف نام کمایا بلکہ اپنے شعبے، اپنی مادرِعلمی اور اپنے مُلک کا بھی نام روشن کِیا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں طلباو طالبات کی کھیپ میں سے ایسے طلبا کم ہوتے ہیں جو کسی شعبے میں ایسی کامیابی حاصل کریں کہ اُس شعبے کا فخر بن جائیں۔
بات وہی ہے جو ہم نے اُوپر بیان کی کہ تعلیم کے شعبے میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور ہنگامی بُنیادوں پہ کرنے کی ضرورت ہے کاش اہلِ اختیار اِس بارے میں کُچھ ٹھوس اِقدامات کریں۔