گزشتہ سے پیوستہ
کرن صدیقی
تعلیم ایک ایسی شے ہے جس کی اہمیت کو ہر مہذب معاشرے میں ہمیشہ ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی بھی قوم کا ترقی کرنا ناممکن امر ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو بام ِعروج پر پہنچانے کا زینہ تعلیم ہی ہے مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک تعلیم کی اہمیت کو سمجھا نہیں گیا ہے ،آزادی کے اکہتر سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن تھے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ شعبہ پوری شدت سے رو بہ زوال ہے۔
آج تک حکومت کی طرف سے ہمارے یہاں تعلیم کے شعبے میں نت نئے تجربے کیے جاتے ہیں اور مسلسل کیے ہی جارہے ہیں جن کے نتائج بہتر نہیں نکلتے لیکن اس کے باوجود بھی اربابِ اختیار و اقتدار اک عجیب سرفروشانہ قسم کےجذبۂ استقلال کے ساتھ اپنی ہی روش پہ استقامت کے ساتھ گامزن ہیں ، بلکہ اس سلسلے میں زیادہ مناسب لفظ جو استعمال کرنا چاہیے وہ ڈھٹائی ہے، تو بات یہ ہے کہ اگر استقامت یا ڈھٹائی کا عملی مظاہرہ دیکھنا مقصود ہو تو وہ ہمارے یہاں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر شعبے میں سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے بہتری آنے نہیں دی ہے اگر ان برایوں کو ختم کرکے صرف اور صرف قابلیت کے حساب سے کام کیا جائے اور اس قسم کی ہر نوع کی بدعنوانی سے اس شعبے کو پاک کردیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار بہترین ہو اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک پہنچ جائے ۔ بات تو نیت کی ہے کرنا چاہیں تو آج ہی تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اس سلسلے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی خرابیاں ہیں کیاہیں۔؟
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں جو چند بہت بڑی بڑی خامیاں ہیں ان میں ایک یہ ہے پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم نہیں
یہاں متوازی طور پر بیک وقت کئی تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں مثال کے طور پر ہر شہر کا اپنا بورڈ سسٹم اور نصاب ہے پھر یہاں کیمبرج، او اور اے لیولز، امریکن اسکولنگ سسٹم اور آغا خان بورڈ وغیرہ جیسے تعلیمی نظام طلبا کو تعلیم دے رہے ہیں مگر ان سب کا نصاب اور امتحانی طریقہ کار باہم مختلف ہے۔ ہر تعلیمی نظام کے نصاب میں شامل مضامین اور طریقہ تدریس میں اتنا اختلاف ہے کہ دیکھ کے حیرانی ہوتی ہے۔ جب ایک سے زائد چیزیں سامنے ہوں تو لازمی بات ہے ان میں سے ایک دوسری سے بہتر ہوگی، تو کیا یہ مناسب بات نہ ہوگی کہ ان تمام نظام ہائےتعلیم میں سے کسی ایک بہترین نظام کو منتخب کرکے اسی کو پورے ملک میں رائج کیا جائے، تاکہ ہر علاقے کے طلبا کو آگے بڑھنے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اپنے من پسند شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کروانے کے برابر مواقع میسر آسکیں۔
ان تمام متوازی تعلیمی نظاموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں جان بوجھ کے اس لیے تشکیل دیا گیا ہے کہ کلرک کا بیٹا ہمیشہ کلرک اور افسر کا بیٹا افسر ہی بنے۔ بھلا بتائیے تو کوئی تک بھی بنتی ہے اس بات کی کہ تعلیمی نظام کچھ لوگوں کے لیے اور ہو اور باقی لوگوں کے لیے اور۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے متوازی تعلیمی نظام کو ختم کرکے ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں ،مزید یہ کہ نصاب بھی ایسا ہو کہ جو طلبا کو نہ صرف کارآمد شہری بنائے بلکہ ان کی اخلاقی تربیت بھی اس انداز میں کرے کہ وہ اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی بنیں یہ بات جان لینا بےحد ضروری ہے کہ ایک بہتر اور معتدل نصاب تعلیم طلبا کی بہتر نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے اور آج کی دنیا میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا راستہ روکنے کا ایک یہ ہی یقینی راستہ ہے۔
ہمیں بچوں پر پڑھائی کا بے پناہ بوجھ نہیں لادنا چاہیے مضامین کی بھرمار بےچارے طلبا کو پڑھائی تو کیا زندگی سے ہی بےزار کردیتی ہے لہٰذا اس بات کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ ہر عمر کے طلبا کے سیکھنے، سمجھنے اور جذب کرنے یعنی یاد کرنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے تو مناسب یہ ہے کہ نصاب اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہی ترتیب دیا جائے ہمیں طلبا کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور نکھارنا ہے نہ کہ ضایع کرنا۔ تدریس میں موزوں نصاب کی جتنی اہمیت ہے اس کا درست اندازہ ایک معلم سے زیادہ کسی کو نہیں ہو سکتا ۔
لیکن یہاں بنیادی بات یہ بھی ہے کہ معلم کو نہ صرف تدریسی اصولوں سے بلکہ طلبا کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہونا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں قطعی ناکام ہے۔ ایک استاد کا کام شاگردوں کو صرف درسی کتب ہی پڑھاکے رٹوا دینا نہیں ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کرنا بھی ہے اور ان کی شخصیت کو سنوارنا بھی، اس کے علاوہ طلبا کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لانا بھی استاد کے اہم فرائض میں سے ایک ہے لیکن آج کا استاد اپنے ان اہم فرائض میں سے کسی ایک کو بھی ادا نہیں کر رہا، شاید خال خال ہی ایسے استاد ہوں جو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور انھیں پورا بھی کرتے ہوں شعبہ تعلیم کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے اور ہر استاد کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔