The news is by your side.

پاکستان کے تعلیمی نظام میں خامی کیا ہے؟ (تیسری قسط)۔

تعلیم ایک ایسی شے ہے جس کی اہمیت کو ہر مہذب معاشرے میں ہمیشہ ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی بھی قوم کا ترقی کرنا ناممکن امر ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو بام ِعروج پر پہنچانے کا زینہ تعلیم ہی ہے مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک تعلیم کی اہمیت کو سمجھا نہیں گیا ہے

گزشتہ سے پیوستہ

کرن صدیقی


ہمارے ملک پہ اللہ کا سب سے بڑا کرم یہ ہے کہ نامساعد حالات اور گوناگوں مشکلات کے باوجود یہاں کے لوگ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیتے ہیں کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں عالمی سطح پر پاکستان کے لوگوں نے ملک کا نام روشن نہ کیا ہو، یہ ان کی خداداد صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں بھی نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ملک بھی ہمارے طالب علموں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں ، وطن عزیز کی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے ۔اب ذرا یہ سوچیں کہ اگر ہمارا تعلیمی نظام اس طرز کا ہوتا کہ جو طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کی بھرپور نشوونما کرتا تو یہ کیا کیا نہ کچھ کارنامے انجام دیں۔

ایک بات جو سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ نصاب ترتیب دیتے وقت طلبا کی عمر اور ذہنی استعداد کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا یہ شکایت زیادہ تر نجی اسکولوں سے ہے ابتدائی اور چھوٹی جماعتوں میں ہی دیکھ لیجئے ،طلبا پہ بھاری بھرکم کتابوں کا وہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے کہ انھیں سمجھنے اور پڑھنے میں ہی بےچارے معصوم بچے ہلکان ہوجاتے ہیں اب بھلا بتائیے تو یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بےچارے طلبا پر ویسے ہی کئی مضامین پڑھنے کا دباؤ ہوتا ہے اوپر سے مرے پہ سو درے والی بات یہ ہے کہ ہر مضمون میں ایسے مشکل اسباق بھی شامل کردیے جاتے ہیں جن کا سمجھنا طلبا کے لیے مشکل ہوتا ہے وہ ان کی ذہنی سطح سے مختلف بلکہ متضاد ہوتے ہیں اب سوچیں تو کہ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ہمارے تمام نجی اسکول انگریزی ذریعۂ تعلیم اپنائے ہوئے ہیں۔ اکثر نجی اسکولوں میں اساتذہ کو طلبا سے اردو میں بات کرنے کی ممانعت ہوتی ہے چاہے وہ کتنی غلط انگریزی بولیں لیکن بات انگریزی ہی میں کرنا ضروری ہے نجانے ہمارے صاحب اختیار حضرات یہ بات کب سمجھیں گے کہ انگریزی زبان جان لینا ہی قابلیت کا معیار نہیں ہے علم صرف انگریزی بول لینے کا ہی نام نہیں ہے زبان دانی بالکل الگ ہے اور علمیت یا تعلیم پانا قطعی مختلف چیز ہے۔

دنیا بھر میں طلبا کو خاص طور پر چھوٹے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بات کئی لحاظ سے بہتر ہے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان سے مانوس ہوتا ہے کیوں کہ وہ سب سے پہلے اپنے گھر میں وہ زبان سنتا ہے پھر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں وہ زبان سماعت کرتا ہے تو اس کا ذہن اس زبان کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ اس لیے بچوں خاص کر چھوٹے بچوں کو مادری زبان میں کچھ بھی پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ اکثر پسماندہ علاقوں میں مائیں آج بھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں تو ان کے لیےبھی یہ بات زیادہ مناسب اور بہتر ہے کہ مادری زبان میں تعلیم ہو تاکہ بچے کی ابتدائی طور پر تعلیمی بنیاد مضبوط کرنے میں وہ بھی حصہ لے سکیں۔

دوسرے اس لیے بھی کہ اس طرح مقامی اور علاقائی زبانیں مردہ نہیں ہوتیں ان میں تسلسل اور زندگی باقی رہتی ہے اور جب کسی بھی زبان میں کسی حوالے سے کام ہورہا ہوتا ہے خصوصاً لکھنے پڑھنے کے حوالے سے، تو ہوتا یہ ہے کہ پھر اس زبان کو طاقت اور توانائی ملتی ہے اور اس کی قوت نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے ، بظاہر بات چھوٹی سی ہے لیکن یہ حقیقت ہے اور تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہ دے کے بہت ظلم کر رہے ہیں ۔

گلی محلوں میں کھلنے والے چھوٹے چھوٹے نجی تعلیمی اداروں نے تعلیم کوفروغ دینے کے بجائے اور زیادہ اس کا بیڑہ غرق کیا ہے ویسے تو تمام ہی نجی اسکولوں سے جو شکایات ہیں ان میں سے چند مشترک ہیں ان کا بھی ذکر ہوگا لیکن اس وقت سب سے اہم اور قابل ذکر مسئلہ نصاب ہے کہ اس پہ نظرثانی کرنے اور اسے اپنی تاریخی، تہذیبی اور دینی تعلیمات و روایات کے مطابق ڈھالنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے علوم اور عصرحاضر کے تقاضوں کے ہم قدم بنانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہم چاہے ابتدائی جماعتوں سے ہی اس چیز کو اپنائیں لیکن کریں ضرور کہ اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کریں اس کے حوالے سے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں اگر ہماری زبان ہمارے بچوں کا ذریعہ تعلیم ہوگی تو ہوگا یہ اس زبان میں نصابی موضوعات کے حوالے سے بھی ذخیرہ کتب میں اضافہ ہوگا اور زبان کے ذخیرہ الفاظ میں بھی۔

ارباب ِاختیار کو چاہیے کہ بنیادی اور اہم قدم کے طور پر اسکولنگ سسٹم کے تضاد کو ختم کرکے ملک بھر میں نظام تعلیم ایک ہو اور نظام تعلیم ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ذریعہ تعلیم بھی اپنی زبان ہو اگر فوری طور پر یہی دو اقدامات کرلیے جاتے ہیں تو یہ ہی تعلیم کے شعبے کو کہاں سے کہاں لے جائیں گے بڑی خامیوں کی اصلاح ہوجائے تو بیشتر چھوٹی موٹی خامیاں رفتہ رفتہ خود بخود ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ بس اک ذرا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں