راشد علی
قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی۔ مسلم حکمرانوں نے اس شہر کو فتح کرنے اوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا مصداق بننے کی سات صدیوں تک کوشش کی مگر رتبہ بلند ملا جس کومل گیا کا مصداق ترک سلطان محمد فاتح ٹھہرا ۔جس شخصیت کو رسالت مآب نے اپنی بشارت میں باکمال کے کمال سے نوازا ہو اس کی عظمت ،بہادری ،جرت اوراسلامی وفاداری کے کیا کہنے۔سپہ سالاروں کے لیے مشعل راہ ،جواناں وتواناں ،ہمت مرداں کی باہمت تصویر،ترک قبیل کا درخشندہ روشن ستارہ ،تاریخی انسانی کے عظیم سپہ سالاروں میں صف اول کا عظیم فاتح
بقول شاعر:
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
عقیدت ومحبت کا پیکر رسالت مآب کا غلام ،دین اسلام کا سپاہی ،آسمان کی بلندیوں کو چھوتاہوا عزم درباریوں کے لیے حیرت سے کم نہ تھا ۔بازطینی ریاست کے خلاف 21سالہ ترک سلطان محمد فاتح کا غیرمتزلزل فاتحانہ عزم کامیابی کا زینہ ٹھہرا۔جس محاذپر بڑے بڑے سرخیل فتح کا جھنڈا نہ لہراسکے ہوں وہاں ایک نوجوان کا بلند وبالا عزم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ۔تاریخ بدل دیں گے ،خون کا اک اک قطرہ بہادیں گے چاہے کچھ بھی فتح ہماری ہوگی ۔میں لڑوں گا ،پیٹھ نہیں پھیروں گا۔پھر صف اول میں تلوار لیے غاصبوں کے پرخچے اڑانے والا وہ جنگ جیتا جس کی شروعات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہوئی تھیں اور ہر کوئی یہ جاننے کیلئے بے تاب تھا کہ آخر یہ سعادت کس کے حصے میں آ ئے گی۔
تاریخی اعتبار سے اس شہر کا 24مرتبہ محاصرہ کیا گیا مگر ہر مرتبہ عیسائی اس کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے ۔سلطان محمد کے عزم سے قسطنطنیہ کا حاکم خبردا ر ہوچکا تھا ۔اپنے شہر اورمذہب کے دفاع کے لیے سلطنتِ روما نے ہنگری اوروینس سے فوج اورکلیسا کا تعاون طلب کیا ۔صہیونیوں کے اتحاد کی خبریں سلطان محمد فاتح کو موصول ہورہی تھیں ۔دشمن نے ساحل سمندر پر باڑلگوادی تاکہ محاصرہ توڑا نہ جاسکے ۔پہلے دس دن تک توپوں کے ذریعے لڑائی جاری رہی مگر سلطان محمد قلعہ کے درودیوار توڑنے میں ناکام رہا ۔دوسری جنگی سٹریٹیجی اپنائی گئی پوری شدت سے مسلسل پے درپے توپ خانوں سے حملے کیے گئے بیس دن گزرگئے مگر مقصد پورا نہ ہوسکا ۔جنگی چالیں روز بروز ناکام ہورہی تھیں چالیس دن بیت چکے تھے ۔اب اک دوایسے سپہ سالار تھے جو سلطان محمد سے کہہ رہے تھے فوجی تھک گئے ہیں ۔بہت زیادہ تعداد میں زخمی ہوگئے ہیں سرنگیں غیر موثر ثابت ہوئی ہیں ۔موجودہ حالات میں جنگ جاری نہیں رکھی جاسکتی ۔سلطان محمدفاتح اکتالیسویں دن فجر کی نماز کی امامت کرواتاہے ۔اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہتا ہے یہ جنگ ہماری ہے ۔رسالت مآ ب کی بشارت کے ہم مصداق ہیں ۔ہم آخری سانس تک لڑیں گے واپسی کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔
سلطان نئی چال چلتا ہے ۔حدیث مبارکہ ہے الحرب خدا ،جنگ چال ہے ۔سلطان اپنے فوجیوں کو حکم دیتا ہے کہ ایشیائی ساحلوں پر لنگر انداز ہوں وہ سائیڈ کمزور ہے ۔یہاں پہنچنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔وہ مشکلات کو عبور کرتے ہیں ۔پہاڑوں کو زینے ،درختوں کو سڑک ،ڈھلوانوں کوگھوڑے بناتے ہیں ۔تاریخ میں پہلی مرتبہ بحری جہازوں کو پانی کی بجائے پہاڑوں پر چلاکر سمندر میں اتارا جاتاہے ۔قسطنطنیہ کا عیسائی اتحاد رات بھر رقص وسرود کامزہ لیتے رہتاہے ۔فتح کا جشن، پیالے سے پیالا ٹکرانے کی آوازیں ،شوخ اورتکبر سے اٹی زبانیں ،مدحوشی میں مدغم آنکھیں ،شراب و سرود میں لتھڑے ہوئے انسانی ڈھانچے آہ واہ کی صدائیں بلندکررہے ہیں۔ سارنگی ،ڈھول اوربانسری کی آوازیں ان کے فاخرانہ شوخ کو بڑھاوا دے رہیں ہیں۔اوردوسری طرف سلطان محمدفاتح کے سپاہی قسطنطنیہ فتح کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی پھرپور کوشش کررہے ہیں
بقول شاعر:
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
وہ قسطنطنیہ جس کو تین طرف سے بحیرہ باسفورس نے گھیرے میں لیا ہوا تھا جو اس کے لیے شہر پناہ کا کام کرتا تھا۔ بازنطینیوں نے گولڈن ہورن کو ایک بڑی زنجیر لگا کر بند کر رکھا تھا جب کہ دوسری جانب ان کے 28 جنگی جہاز پہرے پر مامور تھے۔22 اپریل 1453 کو عثمانی سلطان محمد فاتح نے ایک ایسی چال چلی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ انھوں نے خشکی پر تختوں کی شاہراہ تیار کی اور اس پر تیل اور گھی ڈال کر اسے خوب پھسلواں بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے 80 بحری جہاز اس راستے پر مویشیوں کی مدد سے گھسیٹ کر دوسری طرف پہنچا دیے اور شہر کے حیرت زدہ محافظوں پر آسانی سے قابو پا لیا۔صبح صادق سورج اپنی کرنیں بکھیررہا تھا اورسلطان محمد فاتح کی فوج قسطنطنیہ میں داخل ہورہی تھی ۔قلعے پر سلطنت عثمانیہ کا جھنڈا لہرایا جاچکا تھا ۔یونانیوں کو قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دی گئی جو فتح کے بعد ہرجانہ اداکرنے لگے اور انھیں ایک خاص مدت کے لیے محاصل سے چھوٹ دی گئی۔ فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو برطرف کرکے گرفتار کرلیاگیا اور اس کی جگہ اس کے حریف زاگانوز کو تعینات کر دیا گیا قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنادیا۔
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بے زار ہو جائے
ہمت کی جولانی اورچالوں روانی ایسی تھی کہ قسطنطنیہ والوں کا گھمنڈ خاک آلود ہوا ۔وہ خواب ،وہ کوشش، ،وہ لگن جس کے لیے کئی صدیوں سے اہلیان اسلام دعاگواورسربکف تھے پوری ہوئی ۔رسالت مآب ﷺ کی پیشین گوئی سلطان محمدفاتح اوراس کی فوج کے حصے میں آئی ”تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی“۔