جب سے وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے افغان اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا ہے تب سے ملک میں نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ ایک طبقہ اس فیصلے کی شدت سے مخالف ہے تودوسرا طبقہ اس کے حق میں ترقی یافتہ یورپی ممالک سے مثالیں دے رہے ہیں۔
بنگالی چونکہ اپنی مرضی سے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یا اس سے قبل پاکستان آکر آباد ہوئے تھے اور وہ بنگلہ دیش جانے سے خوفزدہ تھے لہذا ان کو شہریت دینا سمجھ آتی ہے لیکن افغانیوں کو چونکہ خانہ جنگی کے وقت پاکستان نے پناہ دی اور ملک میں امن آنے کی صورت میں ان کی واپسی ناگزیر تھی۔
اب اس ہجرت کو چالیس برس کا عرصہ بیت گیا ہے افغانستان میں بہت حد تک امن قائم ہوگیا ہے تو اب ان افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بعد امیگریشن کے اصولوں کی پیروی کرکے اگر کوئی واپس آنا چاہے تو ان کو ویزے اوردوسری ضروری کاغذات کے ساتھ واپس آنے کی اجاز ت ملنی چاہئے ۔ بے لگام شہریت دینے کے جو مسائل پیدا ہونگے اس کا شاید فی الوقت کسی کو بھی اندازہ نہیں ۔
اگر عمران خان صاحب اتنے ہی غیر روایتی اور بولڈ فیصلوں کے شوقین ہے تو کیوں نہ لگے ہاتھوں ستر سالوں سے بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور شناخت کے بحران کا شکار خطہ بے آئین یعنی گلگت بلتستان کو پانچویں آئینی صوبہ بنا کر وہاں کے لوگوں کوبھی آئینی وقانونی حقوق دئیے جائے ۔
آج جو لوگ افغانیوں کے غم میں نڈھال ہے ان کو پچاس ساٹھ برسوں سے کراچی ، اسلام آباد، لاہور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مقیم گلگت بلتستان کے لوگوں کے حقوق یاد نہیں آرہے ہیں، ان کی زبان سے گلگت بلتستان کے شہریوں کو آئینی مطالبہ کیوں نہیں ہورہا ہے ؟۔
گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جی بی کے شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہونا ضروری ہیں جو پاکستان کے کسی دوسرے شہری کو حاصل ہے ۔ پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے ، سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک پھیلا دیا جائے ، اور سب سے بڑھ کے گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ بنا کر ستر سالہ احساس محرومیوں کا آزالہ ناگزیر ہے ۔
یاد رہے کہ جی بی کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کی سرد مہری نے وہاں احساس محرومی کو جنم دیا ہے جس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔