The news is by your side.

عالمی یومِ سیاحت، چترال اورعاطف خان

شہزاد ایوبی


’’یہ غارِ تیر ہے، اس کے اندر جاتے ہوئے ٹارچ ساتھ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ اندر گھپ اندھیرا ہے‘‘۔ یہ جملہ ہمارے ایک قابلِ احترام ٹیچر کا تھا۔ ہم اسکول میں چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔ پکنک کلچر کا ابھی سرکاری اسکولوں میں آغاز نہیں ہوا تھا مگر چونکہ ہم ایک نجی اسکول میں پڑھ رہے تھے لہٰذا ہمیں سال میں ایک آدھ بار مختلف تاریخی یا سیاحتی مقامات کی سیر کرائی جاتی تھی۔

غار میں باری باری داخل ہونے کے لئے لائن بنائی گئی، چونکہ اندر داخل ہونے کا راستہ تنگ تھا لہذا ہم سب تقریبأ گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ ہمارا ٹیچر پہلے ہی اندر جا چکا تھا۔ ان دنوں موبائل فون کا رواج نہیں تھا لہٰذا ان کے دونوں ہاتھوں میں ٹارچ تھے جس سے غار کے اندر روشنی کابندوبست ہوا، اندر داخل ہوتے ہی ہماری حیرت انتہا کو پہنچ گئی۔

ہم ایک بڑے غار میں داخل ہوچکے تھے۔ غار کی چوڑائی 25سے 30فٹ تھی، اونچائی شاید 50فٹ تک جبکہ لمبائی کی کوئی حد ہی نہیں تھی، حد اس لئے نہیں تھی کیونکہ ایک خاص مقام تک پہنچ کر آگے جانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے، آگے راستہ تنگ ہے اور اوپر چڑھتے ہوئے جانا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ غار کا یہ عجیب و غریب راستہ کہاں تک جاتا ہے اور اس پر اسرار غار کی انتہا میں کونسا راز دفن ہے۔ غار کے اندر چمکتے پتھروں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک بڑا آئینہ توڑا گیا ہے اور یہ اس کے ریزہ شدہ ٹکڑے ہیں۔

ہمارے ٹیچر نے بتایا کہ اس غار کو قدیم دور کی جنگوں کے وقت بطورِ محفوظ مقام استعمال کیا جاتا تھا اور جب قبیلوں میں جنگیں لڑی جاتی تھیں تو خواتیں اور بچوں کو اسی غار کے اندر چھپایا جاتا تھا اور مرد جنگیں لڑتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اس غار کے اندر اللہ کے کسی ولی کا بسیرا تھا اوروہ غار میں اللہ تعالی کی عبادت ریاضت میں وقت گزارتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کافی کتابیں چھان ماری، مگر کسی بھی کتاب میں اس پر اسرار غار کا کوئی تذکرہ نہیں ملا۔ غار کیسے بنا؟ غار کے اندر کا راستہ کہاں تک جاتا ہے؟ اندر چمکتے ہوئے شیشہ نما پتھروں کی موجودگی کی وجہ کیا ہے؟ غار گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم کیوں ہوجاتا ہے؟ اس غار کا نام غارِ تیر کیوں پڑا؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جنھیں آرکیالوجسٹس نے ڈھونڈ نکالنا ہے اور یہ وہ پر اسرار مقام ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

غار دیکھنے اور دل و دماغ میں اس کی نہ مٹنے والی تصاویر نقش کرنے کے بعد ٹیچر نے ہمیں ایک عجیب چشمے کی سیر کرائی، یہ چشمہ مقامی لینڈلارڈ کی ملکیت ہے لہٰذا پہلے ان سے اجازت لینے کے بعد ہی آپ چشمہ دیکھنے جا سکتے ہیں، بلکہ صرف دیکھنے نہیں بلکہ نہانے بھی جاسکتے ہیں کیونکہ قدرت کا یہ انمول تحفہ تقریبأ تمام جلدی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ اس کی وجہ پانی کے ساتھ ملا ہوا زیرِ زمین سلفر کے اجزا بھی ہوسکتے ہیں یا اس کے علاوہ کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے تاہم یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ سر سبزو شاداب میدان میں پھوٹتا یہ صاف و شفاف چشمہ جلدی بیماریوں کے لئے ایک بہترین علاج کیوں ہے اور اس کے پیچھے قدرت کا کونسا راز پوشیدہ ہے۔ لہٰذا اگر آپ نے صاف و شفاف چشمے کا خوبصورت نظارہ دیکھنا ہے یا اگر جلدی بیماریوں سے تنگ ہیں، تو یہ چشمہ آپ کا منتظر ہے۔

غار اور چشمہ دیکھنے کے بعد ٹیچر نے ہمیں ایک بزرگ کے مزار کی زیارت کرائی، فرمایا کہ یہ مزار ملاحیج کا مزار کہلاتا ہے ، یہ ایک صوفی بزرگ تھے جو ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے عظیم شاعر تھے، کہا جاتا ہے کہ وہ اس مقام پر انسانی آنکھوں سے اوجھل ہوئے اور وہاں اس کی زیارت تعمیر کرائی گئی۔ ہم نے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور آگے بڑھ گئے۔

ٹیچر نے پہاڑ کی چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بچو ں!اس چوٹی کے اوپر ایک پتھر ہے، وہ پتھر سائز کے لحاظ سے چھوٹا ہے، البتہ اس کا وزن حیرت انگیز طور پر بھاری ہے، جو کوئی بھی اس چوٹی کو عبور کرتے ہوئے وہ پتھر اٹھا دیتا ہے وہ پہلوان کہلاتا ہے اور بہت کم لوگ اس بظاہر چھوٹے مگر بھاری بھر کم پتھر کو اٹھا پائے ہیں لہٰذا جب آپ بڑے ہوجائیں تو ایک بار چوٹی پر چڑھنے اور پتھر کو اٹھانے کی کوشش ضرور کریں۔ ہم سب ہنس پڑے اور آگے بڑھ گئے۔

ٹیچر ہمیں لیکر ایک تاریخی درخت کے پاس پہنچے، فرمایا کہ یہ درخت چترال کی تاریخ میں دو وجوہات کی بناء پر اہمیت رکھتا ہے۔ ایک شاہی خاندان خوشوخت سے تعلق رکھنے والا نوجوان مہتر امیر ولی کے ان الفاظ کی وجہ سے جنھیں انھوں نے زخمی حالت میں اس وقت لکھا تھا جب ان کو دشمن نے گھیر رکھا تھا اور ان کو اپنی موت نظر چاروں طرف نظر آرہی تھی، وہ چونکہ فارسی کے شاعر بھی تھے لہٰذا کسی نوک دار چیز سے درخت پر جو شعر کنندہ کیا تھااس کا ترجمہ یہ ہے، ’’ اجل قریب ہے، اور موت عقل و فراست والوں کی آنکھوں کی روشنی بھی چھین لیتی ہے‘‘۔ تارٰیخ کی متعدد کتابوں میں اس واقعے کا ذکر ہے مگر چونکہ درخت کافی نشونما پاچکا ہے اور اب وہ الفاظ صاف دیکھائی نہیں دیتے۔ اس درخت کی شہرت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ یارخون یو سی اور مستوج یوسی کے درمیان باؤنڈری تصور کیا جاتا ہے۔ درخت کے ساتھ ہی چوٹی سے آبشار اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ گر رہا تھا اور دیکھنے والوں کو فطرت کے قریب آنے کی دعوت دے دہا تھا۔

یہ صرف ایک چھوٹے سے گاؤں کھوژ کی کہانی ہے، اس گاؤں میں درجن بھر مزید تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں، چترال میں ہر ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی مقام ہے، ہر طرف سر سبز و شاداب نظارے ہیں، صاف و شفاف چشمے ہیں، آسمان جیسے نیلے رنگ کی جھیلیں ہیں، بہتے ہوئے دریا ہیں، دریاؤں میں ٹراؤٹ مچلیاں ہیں، اونچے اونچے پہاڑ ہیں، پہاڑوں میں پاکستان کا قومی جانور مارخور، قومی پرندہ چکور، قومی درخت دیودار اور سینکڑوں قسم کے نباتات اور حیوانات پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ الحمد للہ چترال اپنی روایتی مہمان نوازی اور مثالی امن کی وجہ سے سٰیاحت کے لئے ہر لحاظ سے بہترین ہے۔

آج چونکہ سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، خیبر پختو نخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت دوبارہ آئی ہے، وزیرِ سیاحت کی کرسی پر جناب عاطف خان براجمان ہوچکے ہیں، یہ وہ شخص ہیں جنھیں جب تعلیم کی وزارت ملی تو صوبے کی تقدیر بدل کر رکھ دی، آج پختون خوا میں آئی ہوئی تعلیمی تبدیلی تشہیر و تعریف سے مبرا ہے۔ اب ان کو سیاحت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، لہٰذا میں عاطف خان سے پر امید ہوں کہ یہ صوبے میں انقلابی اقدامات اٹھائیں گے، سیاح کو تحفظ اور سیاحت کو فروغ دیں گے، سیاحوں کی آمد کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے۔ مقامی افراد کا کاروبار ترقی کرے گا اور پاکستان کی آمدنی میں سیاحت کا بڑا کردار ہوگا۔۔۔۔۔انشا اللہ

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں