کرن مہک
اخلاق کامیابی کی وہ کنجی ہے جس سے دنیا کی کامیابی کا ہر دروازہ کھولنا ممکن ہے اور پھر آپ اس کنجی سے کسی بھی انسان کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں، مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب سچے دل اور پوری سچائی کے ساتھ بنا لالچ کے اس پر عمل کیا جائے۔
اخلاقی تربیت وہ تربیت ہے جو انسان چاند ستاروں جیسا چمکا سکتی ہے ۔اخلاقی تربیت کی ابتدا ماں کی گود سے شروع ہو کر خاندان کے باقی افراد دادا دادی نانا نانی اور دیگر قریبی رشتوں کے درمیان پروان چڑھتی ہے جو کہ بعد میں اگلی نسل میں منتقلی کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ پرانے وقتوں میں بچوں کی تربیت پر خاص توجہ مرکوز رکھی جاتی تھی اور اس بات کا خاص دھیان رکھا جاتا تھا کہ بچے میں منفی اوصاف کا خاتمہ ہو اور اس کی شخصیت مثبت اوصاف کی حامل ہو۔
اس زمانے میں تعلیم کا دوسرا نام تربیت تھا، اخلاقی تربیت کے ذمہ داری بچے کے والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔ اخلاقی تربیت کی تکمیل کسی بھی اسکول یونیورسٹی میں ممکن ہی نہیں ہے، جب تک وہاں کے استاد اعلیٰ اخلاق و کردار کا عملی نمونہ نہ ہوں، ڈگریاں تقسیم کرنے والے صرف ڈگریاں ہی بیچ رہے ہیں اگر وہ اپنے شاگرد کے اندر اخلاقی صفات کو نہ اجاگر کر سکیں۔
ہمارے اسکولوں میں جو کتابیں جو بچوں کو پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں، ان کے علاوہ طلباء کو دیگر کتابیں بھی مطالعہ کے لئے دینی چاہیئں تاکہ ان کے اندر مختلف علوم حاصل کرنے کا شوق و جنوں بیدار ہو اور اخلاقی عادات شخصیت میں شامل ہو سکیں، بچے آپس میں محبت اور اپنائیت سے بات کرنا سیکھیں، یاد رکھیں کتابیں علم ضرور دیتی ہیں مگر اخلاقی درس صرف عمل سے ممکن ہے۔
اخلاقیات کا سبق سیکھنے کے لئے ہمیں ہمارے پیارے نبی کی سیرت پر عمل کرنا ہوگا، کیونکہ اخلاقیات میں ہمارے لیے اس سے بہتر کوئی عملی نمونہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہوں “ایک مقام پر اپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں کہ ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے ” اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور نبی کریم کے خلق عظیم کی عظمت یوں بیان فرمائی ہے کہ ”بے شک آپ کو خلق عظیم عطا کیا گیا“۔
بےشک ہمارے نبی کریم کی سیرت ہم مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
ایک اور مقام پر قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ : اے نبی یقیناً آپ اخلاق کی اعلیٰ قدروں پر فائزہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے حضور اکرم کے خلق کے بارے میں سوال پوچھا گیا توآپؓ نے فرمایا کہ رسول اﷲ کا خلق قرآن پاک ہے۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا ”میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں“ ۔
ہم نبی کریم کے امتی ہیں اور ہمارا رب ہمارے اندر بھی اپنے نبی جیسی صفات دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے قیامت کے بارے میں نبی کا بیان ہے کہ’’قیامت کے دن میرے نزدیک تم سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب مجلس میں وہ ہو گا جو اخلاق میں تم سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور تم سب سے زیادہ قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ ہوں گے جو بہت زیادہ باتونی ، جبڑے پھاڑ کر بات کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے‘‘۔ (ترمذی)۔
گویا ثابت ہوا کہ بدخلق کی حیثیت نہ دنیا میں معتبر ہے نہ آاخرت میں، بد اخلاق کی زبان زہر آلود ہوتی ہے اس کی زبان سے ایسے کانٹے دار الفاظ نکلتے ہیں جو دل کو زخمی کر دیتے ہیں ایسا انسان جس جگہ چلا جاتا ہے وہاں تعفن پھیل جاتا ہے اسی لیے ایسے بد اخلاق سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آج کے دور کے ابو جہل ہیں
۔۔۔۔۔”قرآن مجید اس بد زبان شخص کے جواب میں فرماتا ہے :
”ابو لہب کے دونوں ہاتھ کٹ جائیں،یا وہ ہلاک ہو جائے اور خسارہ اُٹھائے “۔
قرآن پاک ہمیں زندگی کے ہر مسئلے پر اخلاقی تربیت کی طرف امادہ کرتا ہے۔ علم حاصل کریں قابل بننے کے لئے مگر جب قابل بن جائیں تو خود پہ غرور نہ کریں اور نہ اپنوں کی تذلیل کریں، ہر کتاب پڑھیں مگر ساتھ ساتھ اپنے ساتھ رہنے والوں کو سمجھیں ان انسانوں کے رویے کو بھی سمجھیں چھوٹی چھوٹی باتوں اور خوبیوں کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں، جیسے قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے اسی طرح اچھے اوصاف خود میں شامل کرنے سے انسان کی شخصیت چاند ستارے جیسی چمکنے لگتی ہے، معاف کردینا ،راستے کانٹے ہٹا دینا، چلتے چلتے کسی کے کام آجانا ۔۔ کسی کے آنسوں کو مسکراہٹ میں تبدیل کردینا، جینے کا مقصد دینا یہ سب اخلاقی تربیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ عمدہ اخلاق والے ہی جنت کے حق دار ہیں، کسی کا دل دکھا کر آنسودے کر نہ انسان کو عزت مل سکتی ہے اور نہ ہی کسی دل میں جگہ مل سکتی ہے، ایسے بندے کی اس سے بڑی سزا کیا ہوگی لوگ اسے دیکھ کر منہ پھیر لیں یا راستہ بدل لیں۔