The news is by your side.

بھارت مذاکرات کی میزپرآئے گا؟

رفیع اللہ میاں


عمران خان کے پاکستان میں مسلسل کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے جو لوگوں کی نگاہیں اور لوگوں کے کان اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سب نے دیکھا کہ ایک بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔ پاکستان دنیاکے ساتھ ایک نئے اور نظر ثانی شدہ تعلق میں آگے بڑھتا دکھائی دینے لگا۔ خارجہ پالیسی میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا رُخ بہت واضح ہے، اس وقت حکومت کا مطمحِ نظر معیشت کو سنبھالا دینا ہے اور اس کی ساری کوششیں اور سرگرمیاں اسی کے گرد گھوم رہی ہیں، حتیٰ کہ بیرونِ ملک دورے بھی اسی ایک نکتے پر استوار ہیں۔

ادھر حکومت کے سو دن بھی پورے ہو گئے ہیں اور ایک طرف حکومتی کیمپ سے کارکردگی کی تفصیلات کی جھلکیاں سامنے لائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کیمپ سے کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔لیکن اس وقت جس ایشو نے خطے کو مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے وہ ہے بھارت کے سکھ یاتریوں کو بابا گرونانک کی زیارت کی آسانی فراہم کرنے کے لیے کرتارپور بارڈر کا کھولا جانا۔ ایک طرف پی ٹی آئی حکومت سکھوں میں مقبول ہو گئی ہے تو دوسری طرف انڈیا شدید پریشانی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔

ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے انڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے، سکھ جشن منا رہے ہیں اور مودی کی شدت پسند حکومت ماتم کناں ہے، اور بھارتی میڈیا اس کی ترجمان بنی ہوئی ہے۔ یعنی بھارتی میڈیا سے دراصل مودی حکومت کا بدلا اور تکلیف میں مبتلا چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا یہ اقدام بلاشبہ تاریخی ہے، بے نظیر بھٹو نے 1988 میں کرتارپور بارڈر کھولنے کی بات کی تھی، اسی طرح میاں نواز شریف بھی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ہمیشہ پیش پیش رہے، لیکن اس طرح کا تاریخی قدم صرف عمران خان کے حصے میں آیا ہے۔ دوستی اور امن کی جانب یہ ایک تاریخی قدم ہے جو پاکستان کی طرف سے اٹھایا گیا، پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ سرحد کے دونوں طرف دلوں کو جوڑا جائے۔ چناں چہ پاکستان کی طرف سے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کرتارپور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

پاک بھارت سرحد کھل جائے تو دونوں ممالک میں تیزی کے ساتھ غربت کے خاتمے کا امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے، لیکن انڈیا تا حال ہٹ دھرمی کا اسیر دکھائی دے رہا ہے، پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر بھارتی وزیرِ خارجہ کی جانب سے منفی ردِ عمل بھی آ گیا ہے۔ پاکستان ہندوستان کے ایک قدم کے جواب میں دو قدم آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔

عمران خان نے تو تاریخی الفاظ کہے وہ ذریں روشنائی سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ انھوں نے کہا ماضی صرف سیکھنے کے لیے ہے، جینے کے لیے نہیں، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، دنیا چاند پر پہنچ گئی کیا ہم کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ پاک فوج کی جانب سے بھی اس بار شان دار ردِ عمل سامنے آیا ہے، آرمی چیف نے بھی کہا کرتارپور بارڈر کھلنا خطے میں امن کی جانب بڑا قدم ہے۔ اسی مثبت اقدام کی خطے میں سخت ضرورت ہے۔ سرحدوں پر خار دار باڑ، خود مختار ریاست کی حدوں کا تعین کرتی ہے۔ کوریڈور اور گیٹس پُر امن لوگوں کی قانونی گزرگاہیں ہیں۔

لیکن مودی حکومت کا چہرہ بھارتی میڈیا نفرت انگیز پروپیگنڈے کا دوسرا نام بنا نظر آ رہا ہے، اس نے اپنے ہی سکھ شہریوں پر بھی انگلیاں اٹھا دیں اور راہ داری کھولنے کو دہشت گرد سفارت کاری کا نام دے دیا۔ سکھ رہنما گوپال چاؤلہ اور سابق کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو کی وزیرِ اعظم اور آرمی چیف سے ملاقات نے ماحول ہی بدل دیا۔ سدھو کی جانب سے تعریفوں کے پُل نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔

صرف یہی نہیں، بھارت کے ٹاک شوز میں پاکستان کے آرمی چیف کی تعریفیں سنائی دیں۔ سکھ اسکالر جی ایس ڈھلون کہتے ہیں جنرل باجوہ نے بہت زبردست قدم اٹھایا، بھارتی ریاست اور وزیرِ اعظم سمیت اعلیٰ حکام کے پاس سیاست کا کوئی راستہ نہیں بچا۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی پالیسی کے آگے بھارت کی ریاست نا کام ہوچکی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس پسِ منظر میں پاک انڈیا تعلقات مستقبل قریب میں کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ انڈیا مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسے پاکستان یک طرفہ طور پر ایسے اقدامات کرتا رہے جس سے بھارتی عوام تو خوش ہوگے لیکن بھارتی حکومت انگاروں پر لوٹتی ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں