The news is by your side.

پاکستان معاشی گرے لسٹ میں آخر کب تک رہے گا؟

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج اور عوام کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر پھر بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ جس کی مثال منی لانڈرنگ ، مجرمانہ سرگرمیوں یا ناجائز ذرائع سے کمایا اور بعد ازاں چھپایا گیا سرمایہ ہے جو دہشت گرد تنظیموں کی مالی اعانت یا شرپسند سرگرمیوں کی فنڈنگ کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سال 2017ء میں اسی منی لانڈرنگ اور شر پسند تنظیموں کی مالی معاونت کے الزام کی پاداش میں ایک بین الاقوامی ادارے فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں شامل کیا گیا جس کے باعث ایشیا پیسیفک ٹیم کو پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ کے قوانین مزید سخت کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل کیا گیا بلکہ اس سے قبل 2008ء اور 2012ء سے 2015ء کے دوران بھی پاکستان اس لسٹ پر رہ چکا ہے۔ پاکستان کے دیگر ہمنوا ممالک جو اس وقت اس لسٹ میں موجود ہیں ان میں سری لنکا، ایتھوپیا، شام، سربیا، یمن وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان ممالک کے ناموں پر غور کیا جائے تو پاکستان ہی ان میں ممتاز نظر آتا ہے جو اپنی غیر معمولی آبادی، بڑی معیشت اور طاقتور فوج کے باوجود اس لسٹ کی زد میں بار بار آرہا ہے۔

اسی سلسلے میں مورخہ 9جنوری 2019ء کو آسٹریلوی شہر سڈنی میں ہونے والے پاکستان اور فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کے مابین اجلاس میں پاکستانی وفد نےمنی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت سے متعلق بریفنگ دی۔ یوں تو پاکستان نے ان چھ ماہ کے دوران اس ضمن میں متعدد اقدامات اٹھائے ہیں مگرسب سے اہم یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے کالعدم تنظیموں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کر د یئے ہیں جن میں داعش، القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے علاوہ جماعت الدعوۃ اوراس کی ذیلی سماجی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈ یشن بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ ان شر پسند تنظیموں کی مالی اعانت روکنے کے لئے پاکستان سختی سے اقوام متحدہ کی شق 1267 اور شق 1373 پر عمل پیرا ہے اور دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھا رہا ہے۔

پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے حال ہی میں پاکستانی حکام نے منی لانڈرنگ کی انسداد کے لئے متعدد اقدامات لئے جن میں وفاقی اور صوبائی سطح پر اینٹی منی لانڈرنگ ٹاسک فورس بنانے کے فیصلے کے علاوہ ایف آئی اے ایکٹ 1974 اور اسٹیٹ بینک ایکٹ 1947 میں بھی ترامیم کا فیصلہ قابل ذکر ہے۔

گزشتہ سال جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015ء سے اب تک دہشت گردوں سے مالی معاونت کے سلسلے میں رقم کی4643 مشتبہ منتقلیوں کی نشاندہی ہوئی جو کہ بعد ازاں بلاک کر دی گئیں۔ سال 2018ء کے دوران مجموعی طور پر1167 ٹرانزیکشنز پکڑی گئیں جس میں 975 مشتبہ ٹرانزیشکن رپورٹس کی صورت میں اور جبکہ210 خفیہ مالیاتی رپورٹس کی صورت میں سامنے آئیں۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ریئل اسٹیٹ بزنس سب سے زیادہ منی لانڈرنگ کا سبب بن رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسی رپورٹ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے دو انتہائی اہم راستوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں پاک ایران اور پاک افغان سرحد شامل ہے جبکہ طویل ساحلی پٹی کے علاوہ اسمگلنگ، قدرتی وسائل، منشیات، این جی اوز، اور بین الاقوامی تنظیمیں شر پسند تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے متنوع ذرائع میں سر فہر ست ہیں۔ علاوہ ازیں، افغانستان جانے والا تجارتی سامان بھی اس غیر اندراج شدہ مالی منتقلیوں کی وجہ ہے۔

مزید براں، ایف بی آر کی جانب سے 2015ء سے اب تک1185 ٹرانزیکشنز، ایس ای بی پی نے 1149 جبکہ ایف آئی نے 1295 ٹرانزیکشنز کا سراغ لگایا۔ پھر بھی اچنبھے کی بات یہ ہے کہ پاکستان بد قسمتی سے ان83 ممالک میں شامل ہے جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت بہم پہنچانے کی جڑیں زیادہ شدت سے پیوست ہیں۔

اب بات کی جائے انسداد دہشت گردی ایکٹ یعنی ‘اے ٹی اے’ کی جو پاکستان کے تمام تر انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر حکمران گردانا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات کو بڑھانا، دہشت گردی سے متعلق معاملات کی تفتیش کرنا، اور عسکریت پسندی میں ملوث ملزمان کے مقدمات کی سماعت کو تیز کرنے کے لئے خصوصی عدالتوں کی تشکیل شامل ہے۔ اس قانون کے حوالے سےآئی ایس ایس آئی( انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز اسلام آباد) کی گزشتہ سال اگست میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ نہایت اہم ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی اے یعنی اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ 1997ء میں ایک خامی تو یہ کہ اس کی دفعات میں دہشت گردی کی تعریف بہت مبہم اور ضرورت سے زائد وسیع ہے۔ اس سے ایسے جرائم جن کا عسکریت پسندی یا دہشت گردی کے کالعدم نیٹ ورک سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا پر بھی ان دفعات کو لاگو کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس قانون کے تحت جن مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد عسکریت پسندی یا متشدد انتہا پسندی میں ملوث نہیں ہوتی اور نتیجتاً انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں رش لگ جاتا ہے۔

نیز انسانی حقوق اور قانون کی دو تنظیموں جسٹس پراجیکٹ پاکستان (لاہور) اور ریپرائیو (لندن) کی 2014ء کی تحقیق کے مطابق اے ٹی اے کے تحت دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں سزا پانے والوں میں سے تقریباً 80 فیصد ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں جن کا دہشت گردی سے دور دور تاک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اے ٹی اے میں بھی ضروری ترمیم درکار ہے۔

الغرض پاکستان اپنی سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ وہ فی الفور اس لسٹ سے باہر آسکے۔ اور اپنی اسی خواہش کے پیش نظر پاکستان اپنی ساحلی پٹی کو محفوظ بنانے کے لئے کوسٹ گارڈز کی خدمات لے رہا ہے اور پاک افغان بارڈر پر باڑ لگوا رہا ہے تا کہ اسمگلنگ کی مکمل روک تھام ممکن ہو سکے۔ الغرض! پاکستان نے دہشت گردی میں مالی اعانت کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 36 نکاتی عملی منصوبہ تیار کیا ہے جو جون 2018ء سے ستمبر 2019ء تک کہ 15 ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔ اس کے بعد ایف اے ٹی ایف پاکستان کی کوششوں کا ازسر نو جائزہ لے گا اور فیصلہ لے گا کہ پاکستان گرے لسٹ پر مزید رہے گا یا نہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں