The news is by your side.

سمندرپارپاکستانیوں کو یہاں سب کچھ برا کیوں لگتا ہے؟

پاکستان کی سرحد سے نکل جانے کے بعد اور کسی پہلی دنیا کی کامیاب ریاست یا کسی ترقی یافتہ معاشرے میں کچھ عرصہ رہنے اور اس کا حصہ بن جانے کے بعد انسان کی سوچ میں اس کے خیالات میں،جسم میں کردار میں کچھ عجیب وغریب تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے شیزوفرنیا کا مریض آہستہ آہستہ صحت یاب ہو کر زندگی کو نئے رنگ اور انداز سے دیکھنے لگے یا کینسر کا مریض صحت یاب ہونے کے بعد خود کو اور دنیا کو پھر سے جانے۔

انسان خود کو کچھ انسان انسان محسوس کرنے لگتا ہے،صرف سفید اور کالا دکھائی دینے کی بجائے تصویر کے ہر رنگ الگ الگ دکھائی دینےلگتے ہیں۔شخصیت میں اعتماد اور رویوں میں ایک بشاشت اور تمیز اترنے لگتی ہے۔ذہنوں کو آسیب کی طرح جکڑے بہت سے خوف اور ڈر مکڑی کے جالوں کی طرح دماغ کی دیواروں سے صاف ہونے لگتے ہیں۔ہمیشہ جھکے رہنے والے کندھے خودبخود سیدھے ہونے لگتے ہیں۔کچلی عزت نفس میں سانس دوڑنے لگتی ہے،کچھ کچھ اخلاقیات کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائض کا کردار زندگیوں میں اور معاشرے میں سمجھ آنے لگتا ہے۔اور یہ سب تبدیلیاں صرف جغرافیہ اور معاشرہ بدل جانے سے ان لوگوں میں آ جاتی ہیں جو ساری عمر پاکستان کے معاشرے کا ایک لازمی اور اہم جزو بن کر اسے تقویت پہنچاتے رہے ہوں۔ان میں سے کچھ تبدیلوں کا زکر خاصا دلچسپی کا امر ہے

شخصیت میں اک باوقار سا حسن پیدا ہونے لگتا ہے تو اس کی وجہ وہ انسان نہیں وہ معاشرے انکا نظم اور ان کے رسم و رواج کا ہوتا ہے جن میں جا کر انسان اپنے قدم جمانا شروع کرتا ہے۔کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں آپ اپنی مرضی سے جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر نہیں رہ سکتے آپ کو اس کا حصہ بننے کے لئے ان کے جیسے عمل اور ردعمل سیکھنے پڑتے ہیں۔اس کے علاوہ معاشرہ آپ کی شخصیت کو ایک واضح رخ دیتا ہے۔

اگر آپ خود کو خوبصورت یا وجیہہ سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرہ آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہے۔اسی طرح اگر آپ خود کو انسان سمجھتے ہیں اور اپنے فرائض ادا کر کے اپنے حقوق کا علم رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرہ آپ کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرتا ہے۔وہ سلوک جو بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اپنے لوگوں کے ساتھ اور یہاں کی حکومتیں اپنی عوام کے ساتھ نہیں کرتے۔وہ معاشرہ جہاں پر ایک ہی سادا اصول ہو کہ’ہارن دو اور رستہ لو!‘کیا آپ کو پاکستانی سڑک پر کبھی ہارن کے بغیر جگہ ملی ہے؟یہی ہارن بجانے والے باہر جا کر ہارن پر انگلی رکھنا بھول جاتے ہیں کیونکہ روڈ کے اصولوں کی وجہ سے اور قانون کی سختی کی وجہ سے ہر کوئی اپنے ساتھ دوسروں کی جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔جب کہ پاکستان کی سڑک پر ہر چھوٹی گاڑی بڑی گاڑی کے لئے رستہ چھوڑتی ہے اور ہر ہارن آپ کے لئے رستہ ہموار کرتا ہے۔پاکستانی سڑک پر بغیر ہارن کے رستہ ملنا مشکل ہے۔پاکستان میں ذرا سی گاڑی کو خراش لگ جانے پر نکل کر چھوٹی گاڑی والے یا سائیکل موٹر سائیکل والے کا گریبان پکڑ کر اسے دو جھانپڑ مار دینے والے امارات کی سڑک پر گاڑی پچک جانے پر بھی خموشی سے نکلتے ہیں اور گاڑی کی صورت دیکھ کر پولیس کو فون کرتے ہیں۔

مارنے والا اور لگنے والا دونوں آگے پیچھے صلح صفائی سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پولیس کا انتظار کرتے ہیں۔پولیس جو آ کر پہلے ہاتھ ملاتی ہے پھر انتہائی تمیز سے دونوں گاڑیوں کا معائنہ کر کے قصور وار کا چالان کاٹ کر انہیں رخصت کرتی ہے اور نقصان کرنے والا نقصان اٹھانے والے کے نقصان کا بغیر کسی چوں چراں کے بل بھرتا ہے۔اور یہ سب کہنے سننے کی باتیں نہیں ایک باقاعدہ سسٹم کا حصہ ہے،ایسا سسٹم جو بغیر کہے بغیر بتائے خودبخود چلتا ہے جیسے صدیوں سے ایسے ہی چل رہا ہو اور انسان اسی سسٹم کے ساتھ پیدا ہوئے ہوں۔اس سارے تمیز دار عمل میں اک پیشمانی تو ہوتی ہے مگر تضحیک یا بے عزتی قطعا نہیں۔یہاں پر آ کر بہت دھیرے دھیرے انسان سیکھنے لگتا ہے کہ پولیس والے آپ کے تحفظ کے لئے ہیں ڈر کے لئے نہیں۔کبھی کسی اکیلی سڑک بھٹکتے ہوئے پولیس کی گاڑی نظر آجائے تو جان میں جان آ جاتی ہے،انسان خود کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔مگر یہ اپنی زمین کے پالے ہوئے اور سیکھے ہوے خوف بہت دھیرے دھیرے جاتے ہیں۔

عورتوں کے ساتھ یہ روئیے مزید محتاط اور مہذب ہو جاتے ہیں نظریں جھک جاتی ہیں۔امارات کے عربی مرد کی بات کریں تو وہ عورتوں کو دیکھ کر نظریں نہیں ٹپکاتا۔آپ کو سڑک پر ،دکانوں پر مالز میں ہر قدم پر نظریں ابلتی ،بل کھاتی اور مچلتی نظر نہیں آتیں۔بلکہ یہاں کا عربی عورت کو دیکھ کر دور سے ہی ذرا پرے ہو جاتا ہے ،عورت کے لئے رستہ دے دیتا ہے۔یہ رحجان یہاں کے سخت قوانین کی وجہ سے ہے ، معاشرت کی وجہ سے یا اسلام کی وجہ سے یا پھر ان سب وجوہات کے اکٹھے ہونے سے۔لیکن خدا گواہ ہے کہ پاکستان میں ان میں سے کسی بھی وجوہات کی بنا پر ایسا کچھ بھی کیا نہیں جاتا بلکہ ہر قدم ابلتی آنکھوں اور تعاقب کرتے نظروں اور ہاتھوں سے بچ کر اٹھانا پڑتا ہے۔

صرف یہی نہیں یہاں بھی جن علاقوں میں پاکستانی کمیونٹی کی کثرت ہو وہاں پر پاکستانی ایسے ہی رویوں کے ساتھ پائے جاتے ہیں جہاں کوئی پاکستانی عورت نظر آئی زبان اور آنکھیں لٹک کر پیروں میں گرنے لگیں۔یہ پاکستانی بھائی جانتے ہیں کہ ان مسکین پاکستانی عورتوں کو ایسی ہراسمنٹ کی شکایت لگانے کی اکثر ہمت یا عادت نہیں ہوتی۔وہ ایسی کونین کی گولیاں بچپن سے بند آنکھیں کر کے نگلنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے عموماً قانوں کے عین سائے تلے سخت ترین قوانین اور کڑی نگاہ کے باوجود پاکستانی عورت اکثر اپنے پاکستانی بھائیوں کی ہراسمنٹ کی شکار ہوتی رہتی ہے صرف اس لئے کہ اسے کبھی بھی کسی نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی عادت نہیں ڈالی۔ہاں یہی نظریں کسی عربی یا انگریز عورت کو دیکھ کر فٹا فٹ تمیز دار ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ سیکورٹی والوں کو آواز لگاتے ایک منٹ نہیں لگاتیں۔

امارات میں گزارے کچھ سالوں میں ہم نے سیکھا کہ پاکستانی معاشرے اور اسلامی معاشرے میں کیا فرق ہے۔پاکستان سے باہر رہ کر پاکستان کی جتنی سمجھ آتی ہے اتنی پاکستان کے اندر رہ کر نہیں آتی۔اسلامیات کے پرچوں کے لئے ساری عمر نماز کی اہمیت کو رٹا لگاتے رہے،گھروں میں قاری صاحب سبق رٹا رٹا تھک گئے کہ نماز کس قدر ضروری ہے مگر ہم اس ضروری کو ہمیشہ غیر ضروری ہی سمجھتے رہے۔یعنی جب دل کرے تو کبھی کبھار پڑھ لو۔یہی معاشرے سے ہم نے سیکھا کہ نماز پڑھنا فقط ایک مخصوص اور محدود انتہا پسند طبقے کا کام ہے ۔یہاں رہ کر سیکھا کہ نماز اور مسلمان کس طرح ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اور اس قدر بنیادی عمل ہے جیسے کھانا،پینا اور سونا۔باغ میں پکنک مناتے ،بڑے خاندان کے ساتھ کرسیاں سجائے بیٹھے،باربی کیو کرتے اذان ہو جائے تو گورے اور کالے ہر رنگ کے عرب مرد اور عورتیں،عبائے والی اور جینز والی سب، سب چھوڑ فٹا فٹ نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔یہ نہیں کہتے کہ کھانا کھا لیں بعد میں پڑھ لیں گے۔رستے میں اذاں ہوئی تو سڑک کنارے گاڑی روک کر نماز کی ادائیگی ہونے لگتی ہے ،گھر تک پہنچنے کا صبر تک نہیں کرتے۔یہاں کی مسجدیں نماز کے اوقات میں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں ۔

پاکستانی معاشرے میں مجموعی طور اسلام کے نام پر زمانہ جہالت رائج ہے جہاں برصغیر کی ہندو تہذیب کو تو عین مذہب اور مبارک سمجھا جاتا ہے مگر اسلام کی بنیادی باتوں کو بغاوت ، ہندوازم کے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنا تو عین نیکی کا کام ہے مگر رشتوں میں لڑکا لڑکی کی پسند کو اولیت اور رضامندی کی اجازت دینا عین گناہ۔عورتوں کو برقعے اوڑھانا عین نیکی ہے مگر گھروں میں مخلوط نظام عین اخلاقی تقاضا۔عام عورتوں کی اکثریت کو پردے کے نام پر گھروں میں بند کر دو مگر اپنی مرضی کے تایا چچا کے بیٹے،دیور جیٹھ،نندوئ،بھابی سب کے سب محرم!کیا کیا مثالیں دیں عرض یہ کہ اسلامی معاشرے اور پاکستانی معاشرے میں زمین و آسماں کا فرق ہے۔عرب کی عورتوں کو ہم نے گھروں میں بنے سنورے،سیکسی جوڑوں میں دیکھا مگر یہ بھی کہ دیور جیٹھ کے نام پر کسی غیر محرم کے گھر میں داخلے کی اجازت نہیں۔برقعہ لپیٹ کر چلتی ہیں مگر سر اور کندھے اٹھا کر ،پاکستانی عورت کی طرح دبک دبک کر ،سمٹ سمٹ کرجھک جھک کر نہیں۔

کسی مہذب معاشرے کا حصہ بن جانے سے بحیثیت فرد ایک خود اعتمادی اور ذات کا احترام پیدا ہونے لگتا ہے۔پیدل چلنے والا سڑک پر پاؤں رکھ دے تو گاڑیاں رک جاتی ہیں کہ پیدل چلنے والے کا حق سب سے بڑھ کر ہے۔مارکیٹس میں آپ کے بچے کو چیزوں کو ہاتھ لگانے سے کوئی روک نہیں سکتا بلکہ روتے بچوں کے لئے غبارے ہر طرف مفت میں حاضر ہیں۔یہاں رمضان میں ہر گلی محلے اور مسجد میں دستر خوان سج جاتے ہیں جہاں پر لامحدود کھانا پینا تقسیم ہوتا ہے۔یہاں سڑکوں پر آپ کو کوئی ہارن صرف تب سنائی دیتا ہے جب آپ سے کوئ غلطی سرزد ہو جائے۔یہاں ہارنوں کا نفسیاتی مریض بنا دینے والا شور نہیں۔یہاں رونگٹے کھڑے کر دینے والا جنگل کا قانون نہیں۔یہاں انسانیت کو دفن کر دینے والے کردار و اقدار نہیں۔یہ ملک جہاں سرکاری سکول اور ہسپتال سب سے اچھے اور ستھرے ہوں جہاں کا لوکل انسان سب سے زیادہ سہولتیں لے۔جہاں حکومت عوام کی صحت تعلیم اور رہائش کا خرچ برداشت کرے اور گھر کے ہر فرد کی ملازمت کا ذمہ لے۔

ایسی ریاستوں میں رہتے اور ان معاشروں کا حصہ بن کر پاکستانی دماغوں کو بھی کالے اور گورے کا فرق دکھائی دینے لگتا ہے،اندھیرے کالے اور اجالے روشن لگنے لگتے ہیں۔انہیں غلط لگتا ہے کہ جب بنیادی سہولتیں پیسوں سے خریدنی پڑیں۔صاف پانی خرید کر پینا پڑے،اچھے علاج کے لئے اپنے پیسے،اچھی تعلیم کے لئے اپنا خرچہ،ہر چیز کی ایک بڑی قیمت ہو۔جب کروڑوں والے غریبوں پر حاکم ہو جائیں اور ان کو غریب ہی رکھیں۔جب عام انساں کو عزت نہ ملے جہاں دھوکہ ،فریب اور کرپشن عین ذہانت اور کامیابی ہو ۔تو پھر یہ سب عجیب عجیب سا لگنے لگتا ہے گرچہ پہلے نہیں لگتا تھا مگر مہذب معاشرے میں کچھ عرصہ رہ کر لگنے لگتا ہے۔ان کے ذہنوں سے شدید ترین نفسیاتی عارضے ختم ہونے لگتے ہیں اور وہ کچھ کچھ انسانیت اور تہذیب کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں