The news is by your side.

سانحہ ساہیوال، اصل قاتل کون ہے

ابصارفاطمہ


ہمارا مجموعی معاشرتی رویہ ہے کہ ہم قوانین کی پاسداری، حب الوطنی اور بنائے گئے ضوابط کی بجا آوری میں پیش پیش ہوتے ہیں. ساتھ ہی ہم سزا دینے اور دلوانے کے بہت شوقین ہیں۔ گھر کی ملازمہ پہ چوری کا شک ہے تو سزا دینی ضروری ہے، اولاد نے آپ کے اصولوں کے مطابق بد تمیزی کی اب سب کے سامنے بے عزتی کی جائے تاکہ آئندہ وہ ایسی بدتمیزی نہ کرے۔ کوئی بچہ روٹی چراتا پکڑا گیا تو اب اہل محلہ مل کر اسے ماریں گے، گنجا کریں گے ،ہو سکتا ہے برہنہ بھی کردیں کیوں کہ اسے سدھارنا ضروری ہے اور وہ نہ بھی سدھرے دوسروں کو سبق ضرور حاصل ہوجائے۔

ہمارے یہاں سزا دینے کا صرف یہی مقصد سمجھا جاتا ہے کہ باقی مجرموں کو عبرت حاصل ہو۔ کتنی عبرت حاصل ہوئی ، یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ اور جب معاملہ دہشت گردی، بچوں اور لڑکیوں سے زیادتی، غیر ملکی جاسوس اور گستاخی رسول جیسے سنگین جرائم کا ہو تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر عام شہری تک ہر کوئی سزا دینا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ رونا پیٹنا تب مچتا ہے جب کوئی بہت اہم واقعہ سامنے آتا ہے۔ یعنی روٹی چرانے والے کو سر عام گنجا کرنے سے لے کر کسی مجرم کو گھر والوں کے ساتھ مار دئیے جانے تک ہم بالکل آواز بلند نہیں کرتے ۔اگر سامنے والے کے مجرم ہونے کے امکان واضح ہوں یا اس کی قومیت، فرقے مذہب یا معاشی حالات کی وجہ سے ہم چاہتے ہوں کہ یہ مجرم ثابت ہوجائے پھر تو منہ سے چوں بھی نہیں نکلتی۔ بڑے بڑے معاشرے کے واعظین منہ سیے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ایک طرف ہم احتجاج کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ امریکی جیل میں مناسب سلوک نہیں ہوا ،دوسری طرف عمران کو ثبوت ملنے سے پہلے ہی مجرم قرار دے کر سزا بلکہ سب کے سامنے پھانسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ احمدیوں کو غیر مسلم شہری کے حقوق دینے کی بھی گنجائش نہیں دی جاتی۔ اور پھر ساہیوال جیسے واقعات پہ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ملک میں اتنی اندھی کیسی مچی ہوئی ہے۔ تو محترم ہم وطنو! یہ اندھی ہمارے اندھے معیاروں کا فائدہ اٹھا کے ہی مچائی گئی ہے۔

اگر ہم طالبان کے مخالف ہیں تو طالبان اور داعش کا نام لے کر نوزائیدہ بچے کو بھی مارا جائے گا تو ہم پہلے یہی سوچیں گے کہ چلو اچھا ہوا سانپ کی اولاد تھی ، سنپولیا ہی بنتی۔ اسی وجہ سے ملک کے بہت سے افراد عافیہ صدیقی کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت بحیثیتِ مجرم کسی بھی قسم کی سپورٹ دینے کے قطعی خلاف تھے اور ہیں، جبکہ وہ مجرم ہے یا نہیں ہر صورت میں سزا سے پہلے اور بعد میں کچھ حقوق ملنا اس کا بنیادی حق تھا اور ہے، اور یہی اصول ہم ہر کنٹروورشل معاملے پہ لاگو کرسکتے ہیں۔

سلمان تاثیر کا قتل ہو، وہ گستاخی کا مرتکب رہا ہو تو بھی یہ عدالت میں طے ہونا ضروری تھا، اس کے جواب میں ممتاز قادری بحثیت مجرم سامنے آتا ہے تو بھی اسے ہر وہ حق ملنا ضروری ہے جو انسان اور پاکستانی شہری ہونے کی بنیاد پہ اسے ملنا ضروری ہے بغیر عدالتی کاروائی کوئی بھی اٹھ کے اسے سزا نہیں دی سکتا۔فری ٹرائل، وکیل رکھنے کا حق، جیل میں مناسب غذا، صحت کی سہولت، اپنا بیان کسی بھی دباؤ کے بغیر دینے کی آزادی یہ ہر ملزم اور مجرم کا حق ہے۔

ایک دوسرے سے متضاد مثالیں دینے کا مقصد یہی ہے کہ میری اور آپ کی ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پہ کسی بھی شہری وہ مجرم کیوں نہ ہو اس کے حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے۔ اور اگر آپ فل فرائی ( ماورائے عدالت قتل) ، ہاف فرائی (ماورائے عدالت زخمی کرنا) کسی ایک جرم میں مجرم ثابت نہ ہونے والے کو کسی جھوٹے کیس میں سزا دلوانے، ڈاکوؤں یا بلاسفیمی کے مجرموں کو سرعام جلانے وغیرہ کو آپ درست سمجھتے ہیں، تو امید رکھیے کہ مرحوم خلیل، مرحوم نقیب اللہ محسود، اور مرحوم مشال خان کی جگہ میں اور آپ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور ان کے والدین اور اولاد کی جگہ ہمارے بچے اور والدین ہوسکتے ہیں۔

میں اور آپ ممتاز قادری کی طرح عشق رسول میں کسی ان پڑھ ملا کی باتوں سے متاثر ہوسکتے ہیں کہ اپنا ہاتھ کاٹ دیں یا کسی دوسرے کا گلا۔آپ لبرل ہیں یا مذہبی دونوں صورتوں میں ماورائے عدالت قتل اور سزا کی حمایت کا مطلب آپ اپنے مخالفین کو موقع دے رہے ہیں کہ جب چاہو مجھے سڑک پہ پیٹو یا قتل کردو ،بہانہ بعد میں سوچ لینا کہ میں گستاخِ رسول ہوں یا طالبان کا ساتھی کوئی تم سے ثبوت نہیں مانگے گا۔

اگر آپ مانتے ہیں کہ ’اگر‘ وہ مجرم تھے تو ان کے ساتھ ٹھیک کیا گیا ،تو یقین مان لیجیے آپ کا یہ’اگر‘ ہی ان کا قاتل ہے،جس نے اداروں کو یہ موقع دیا کہ وہ سڑکوں پہ نہتے عوام کو بھونتے پھریں اور بھپرا ہوا مجمع کسی کو بھی جلا دے کیوں کہ مرا ہوا انسان اپنی نے گناہی ثابت نہیں کرسکتا تو مجرم ہی قرار پائے گا۔

جب تک ہم سزا برائے سزا، سزا برائے عبرت اور سب سے اہم سزا برائے تسکینِ قلب کے نظرئیے سے نکل کر سزا برائے اصلاح کی سوچ نہیں اپنائیں گے اور بحیثیت انسان مجرم کو بھی اس کے حقوق دینے پہ زور نہیں دیں گے۔ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ مجرم کو حق دینے کا مطلب اسے سزا سے مبراکرنا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کوئی معصوم سزا نہ پاسکے، اور مجرم کو بھی سزا، اتنی ملے جتنی کا وہ سزاوار ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں