محمد مہدی
بچے کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اورمستقبل کی کنجی سمجھے جاتے ہیں۔اگر بچوںکی تربیت میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی برتی جائے تو معاشرے کی پسماندگی کو کوئی شے نہیں روک سکتی۔ جدید دور کے بڑھتے ہوئے ہوئے تقاضوں کے پیش ِنظر آج کل کے والدین ضروریات ِ زندگی پوری کرنے کی دوڑ میں بچوں سے اتنے غافل ہوجاتے ہیں کہ پھر ان کے بچوں کا زیادہ تر وقت ٹی وی کی نذر ہوجاتا ہے۔
اکثر ماں باپ کام سے فارغ ہونے کے بعد اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ ان میں اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اور ان کی تربیت کرنے کی بھی ہمت باقی نہیں رہتی۔ روز صبح جلد بازی میں ناشتہ کرنا اور آفس کے لیے نکل جانازندگی کا معمول بن جاتا ہے اور اسی بھاگ دوڑ میں جیسے تیسے وقت کے ساتھ بچے بھی بڑے ہونے لگتے ہیں۔
پریشانی و اضطراب کی بات یہ ہے کہ جن بچوں کو بچپن میں مختلف کارٹونز اور بچوں کے چینلز کے ذریعے بہلایا جاتا ہے وہ بڑے ہو کر دیگر چینلز کی طرف مانوس ہوجاتے ہیں ۔زیادہ ٹی وی دیکھنا نہ صرف بچوں کی جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت اور نشو نما پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بچے بنا سوچے سمجھے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کا انتخاب کرلیتے ہیں اور ان سے اس قدر متا ثر ہوچکے ہوتے ہیں کہ اب اگر انہیں پڑھائی کے بعد فراغت کے چند لمحات میسر بھی ہوجائیں تو وہ بھی ٹی وی کے آگے ہی گزر جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر اس چھوٹے سے ڈبے میں ایسا کیا ہے جو بچوں پر نظر رکھنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ایک حد تک ہی ٹی وی دیکھا جائے۔
چند سال قبل میڈیا میں اس قدر بہتری اور انقلاب برپا ہوا ہے کہ اب ان گنت چینلز کی بھرمار ہوگئی ہے۔فلموں ،گانوں ،خبروں مختلف ڈراموں نیز ہر طرح کے چینلز اب باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی ایک بڑی آبادی کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جس میں ماں اور باپ دونوں ہی ذریعہ معاش کے لیے تگ و دو کرنے نظر آتے ہیں اور بچے اپنا وقت والدین سے زیادہ فلموں اور گانوں کے ذریعے گزارتے دکھائی دیتے ہیں۔شروعات میں تو یہ ان معصوم بچوں کی مجبوری ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ وہ ان کے عادی ہوجاتے ہیں یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہیں ٹی وی کی لت لگ جاتی ہے۔
آج کل کے ڈراموں اور فلموں میں زیادہ تر رومانوی موضوعات اور لمحات کی ہی عکاسی کی جاتی ہے جس سے بچوں کو سیکھنے کو تو کچھ نہیں ملتا البتہ وہ فحاشی سے ضرور متعارف ہوچکے ہوتے ہیں۔بچے شادی بیاہ کے علاوہ بھی اکیلے میں ناچ گانا اور اداکاری کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔اداکاری اور گانا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن معصوم ذہنوں کی نشو نما میں اس کا عنصر ہونا خطرے کی علامت بن جاتا ہے۔بچوں کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہوجا تا ہے، ان کی معصومیت اور شرارتیں کہیں کھو جاتی ہیں۔بچے وقت سے پہلے ہی ایسی چیزوں سے واقفیت حاصل کرلیتے ہیں جو عمر کے ایک خاص حصے سے تعلق رکھتی ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر ہی ایسے بچے ہوتے ہیں جو فلموں ، ڈراموں کی جگہ خبروں اور تعلیمی چینلز دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔
بچوں کو اگر بچپن سے ہی پڑھائی اور وقت کی اہمیت سے اجاگر نہ کیا جائے تو معاشرے میں ٹھوکروں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ میڈیا انڈسٹری کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ایسے چینلز بھی متعارف کرائے جائیں جن میں اردو،انگریزی،ریاضی،دنیاوی اور دینی تعلیمات بھرپور انداز میں دی جائے تاکہ بچے اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے کارآمد بنا سکیں اور والدین بھی چین کا سانس لے سکیں۔
بچوں کی تربیت صرف والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کے ہر اس فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے جن سے بچوں کا تعلق پڑتا ہے ،چاہے وہ ایک وین ڈرائیور ہی کیوں نہ ہو۔اسکول وینز میں گانے چلانے پر پاندی عائد ہونی چاہیے تاکہ بچوں اور ڈرائیورز دونوں کوسمجھ آئے کہ کون سی چیز کس جگہ پر جچتی ہے۔