The news is by your side.

چٹ محبت پٹ بیاہ

دعاعلی، حیدرآباد


ابرام پہلی بار گاؤں آیا تھا اس کے تایا جان کے بیٹے خرّم کی شادی تھی سب نے اسے بہت مجبور کیا کہ وہ اس بار گاوں ضرور آئے وہ بچپن میں گاوں کئی بار جا چکا تھا مگر پھر حصولِ علم میں مصروف رہا اور تعلیم مکمل ہوتے ہی اسے اچھی ملازمت مل گئی اس لیے وہ گاوں دوبارہ جا نہیں سکا تھا۔وہ تھکن سے چورتھا سفر کافی لمبا تھا وہ بستر پر گرتے ہی سو گیا اور اگلے دن کافی دیر تک سوتا رہا اسے کافی دیر سے مہندی کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی مگر وہ آنکھیں بندکیے لیٹا رہا مہندی کی خوشبو اسے سحر زدہ کر رہی تھی جیسے جیسے فضا معطر ہو رہی تھی اس پر ایک نشہ سا طاری ہو رہا تھا مہندی کی خوشبو اسے ویسے ہی بہت پسند تھی اسے ایسا لگا جیسے اس کے قریب بھیگی مہندی کا برتن رکھا ہوا ہو مہندی کی خوشبو اس کے انگ انگ میں بسی جا رہی تھی اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں دیکھا تو کھڑکی کے باہر دلان میں اُسے ایک سریلی سی آواز سنائی دی۔ دالان میں نظر دوڑائی تو بڑی بڑی آنکھوں اور اجلی رنگت والی ایک پر کشش لڑکی کھڑی تھی اس میں عجیب سی کشش تھی جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں بھیگی مہندی کا تھال تھا وہ کسی سے کہہ رہی تھی کہ میں نے مہندی بھگو دی ہے آپ چیک کر لیجئے کہ اس کی مقدار صحیح ہے کیا ؟ یہ نہ ہو کہ مہندی کم پڑ جائے پھر سب مجھے کہیں گے کہ حنا نے حنا کم بھگوئی ہے اس نے اپنی بڑی اور نمدار آنکھوں سے ابرام کی طرف دیکھا اور محرابی ابرو معنی خیز انداز میں اٹھا کر بولی کون ہیں آپ؟ اور خرم بھیا کے کمرے میں کیا کر رہے ہیں اور باہر کیوں تانک جھانک کر رہے ہیں؟۔

ابرام نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتا رہا اس کی آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر تھی جو اس کی آنکھوں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہی تھی اس کی آنکھوں میں بہت معصومیت تھی اس نے کہا مجھے کیوں گھورر ہے ہیں، بتایے کون ہیں آپ؟ ابرام نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا میرا نام ابرام ہے اُس نے کہا اوہ اچھا تو آپ ابرام ہیں فاروق چچا کے منجھلے بیٹے اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ابرام کو حیرت ہوئی کہ ابھی آگ بگولہ ہوتی ہوئی یہ لڑکی مسکرا کیوں رہی ہے اُس نے پوچھا کہ مسکرانے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں کہنے لگی کیوں بتاؤں؟وہ کہنے لگا مسکرا ہٹ توآپ کے چہرے پر میرا نام سنتے ہی آئی ہے اسی لیے وجہ بھی جاننا چاہ رہا ہوں وہ جواب دیے بنا مسکرا کر چلی گئی ۔

وہ جاچکی تھی اس کا قد لمبا تھا دبلی پتلی سی کالے سیاہ گھنگریالے بال اجلی اجلی سی رنگت ستواں ناک جس میں سفید رنگ کا لونگ جھلملا رہا تھاوہ اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا اس میں عجیب کشش تھی کچھ دیر بعد ہی خرم آگیا کہا کہاں کھوئے ہو ئے ہو یا ر؟ ابرام نے کہا کہیں نہیں ایک دو بار دل چاہا کہ خرّم سے پوچھوں کہ وہ آفت کو ن تھی ؟ پھر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ نہیں معلوم کون ہے میں توکسی کو جانتا بھی نہیں یہ نہ ہومیرے اس طرح پوچھنے پر خرّم ناراض ہو جائے۔ شام کو مہندی تھی اور اُس کی نظریں بس اسی کو تلاش کر رہی تھیں مگر وہ تھی کہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔

لیکن کب تک ، کچھ دیر بعد وہ نیم اندھیرے میں کھڑی نظر آگئی ابرام نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا اُس کا چہرہ بہت داس لگ رہا تھاابرام نے کہا آپ اتنی اداس کیوں لگ رہی ہیں؟ اور یہاں گم سم سی کیوں کھڑی ہیں ٹھنڈی اُجلی چاندنی میں وہ اور بھی پیاری لگ رہی تھی وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہنے لگا نے بتائیے ناں کیا ہو ا ا ٓپ کیوں اداس ہیں ؟۔

کہنے لگی میری مہندی خراب ہو گئی ہے وہ مہندی کو لے کر اداس تھی اُس کے ہاتھ کی مہندی خراب ہو گئی تھی ابرام نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ اور مہندی لگوا لیجئے کہنے لگی بدھو ہو کیا اب مہندی کے اوپر مہندی کیسے لگاوں اتنی جلدی تو یہ اترے گی نہیں اور آپ اپنا مشور ہ اپنے ہی پاس رکھیے یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ وہ اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا اور سوچا کیسی لڑکی ہے ابھی تو اتنی اداس تھی اور اب مجھے باتیں سنا کر چلی گئی تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو سب کے ساتھ مل کر ڈھولک پر گیت گا رہی تھی اور بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے وہ اداس کھڑی تھی۔

اگلے دن بارات تھی بارات لے کر پاس کے ہی گاؤں جانا تھا سب ہی لڑکے لڑکیاں تیار ہو رہے تھے ابرام جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں لطیف مہک کا بسیرا تھا جیسے پورا کمرا خوشبو سے بھرا ہوا ہو لگتا تھا کسی نے پرفیوم کی ساری شیشیاں ایک ساتھ ہی اپنے اوپر انڈیل لی ہوں وہ اپنے بناؤسنگھار میں لگی ہوئی تھی وہ دور کھڑا اُسے دیکھتا رہا لیکن اُس نے ایک بار بھی ابرام کی طرف توجہ نہیں دی وہ پاس کھڑی لڑکی سے بغیر رکے بولے جارہی تھی میرے لہنگے کا دوپٹہ ٹھیک طرح سے سیٹ کرو جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے سب مجھ پر ہی چلائیں گے کوئی اور تو نظر نہیں آتا سب کی سوئی ہمیشہ مجھ پر ہی نہ جانے کیوں اٹک جاتی ہے وہ مسلسل بولے جارہی تھی اور بولتے ہوئے یونانی اپسرا لگ رہی تھی پیاری سی موہنی سی صورت والی وہ اسے گردوپیش سے بے خبر ہو کر ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔

وہ کچھ دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا جیسے ہی اس کی نظر ابرام پر پڑی وہ بولی آپ کو لڑکیوں کو گھورنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کیا؟ ابرام نے وہیں کھڑے کھڑے سگریٹ سلگائی اس نے سگریٹ کو دیکھتے ہوئے کہا اچھا تو آپ سگریٹ بھی پیتے ہیں ابرام کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ آگئی اتنے میں تائی جان نے آکر کہا تم لوگ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟ دیر ہو رہی ہے بارات کا ٹائم صبح دس بجے کا تھا اور تم لوگوں نے یہیں بارہ بجا دیئے ہیں بھائی صاحب باہر ہم پر چلائے جا رہے ہیں اور حنا تم تو ویسے ہی گھنٹوں لگاتی ہو تیار ہونے میں اب شیشے کے سامنے سے ہٹو بھی تمھیں تو بناو سنگھار سے ویسے ہی فرصت نہیں ملتی۔ حنا نے ناک بھوں چڑا کر کہا مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ مجھے ہی کہا جائے گا باقی سب تو جیسے تیار کھڑی ہیں صبا،سارہ ،ردا ،سمیرہ فضاآپی وہ کسی کو نظر نہیں آتیں۔ سب میرے ہی پیچھے پڑ جاتے ہیں تیار ہوں میں تائی اماں آپ باقیوں کو بھی بول دیں ذرا یہ کہتے ہوئے وہ غصے سے پیر پٹختی ہوئی باہر چلی گئی۔

ابرام کی یہی کوشش تھی کہ وہ اس کی گاڑی میں بیٹھے اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے کہا جائے کسی اور کو بھی کہوں تو کیسے کہوں کہ حنا کو کہے وہ شش وپنج میں مبتلا تھا کہ سامنے صبا آپی نظر آگئیں ابرام نے کہا صبا آپی آپ سے ضروری کام ہے صبا نے کہا ہاں کہو ابرام کیا کام ہے؟ اُس نے بنا کسی تردد کے صبا کو ساری بات کہہ دی صبا مسکرا دی صبا آپی بڑے تایا جان کی بیٹی تھیں وہ ابرام سے کافی بے تکلف بھی تھیں کیونکہ صبا نے ایم ایس سی ابرام کے گھر رہ کر ہی کیا تھا صبا نے کہا ابرام جس لڑکی کے رشتے کی بات چل رہی ہے وہ حنا ہی ہے اورتم نے بغیر دیکھے ہی انکار کر دیا۔ابرام صبا کی شکل دیکھتا رہ گیا اوہ تو وہ حنا ہے صبا نے کہا ہاں وہ حنا ہی ہے اسی لیے سب نے تم پر بہت زوردیا تھا کہ اس بار گاؤں ضرور آوتا کہ اس بہانے تمھاری ملاقات حنا سے ہو جائے۔

ابرام نے پریشان ہوتے ہوئے کہا صبا آپی امی جان نے کہیں انکار تو نہیں کر دیا ؟ صبا نے کہا نہیں ابھی نہیں کیا انکار میں نے ہی منع کیا تھا چچی جان کو کہ ابھی وہ اس رشتے سے انکار نہ کریں ابرام نے شکر ادا کیا کہ ابھی امی جان نے انکار نہیں کیا اُس کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی جو کہ کچھ دیر پہلے غائب ہوچکی تھی۔

اتنے میں حنا پیر پٹختی ہوئی آگئی صبا نے کہا حنا اب کیا ہوا؟ حنا نے کہا جس کو دیکھو میرے ہی پیچھے پڑ جاتا ہے اور تو کوئی نظرہی نہیں آتا ابرام نے کن انکھیوں سے اس کے لال ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا اور مسکرا دیا کہ غصّے میں بھی کتنی پیاری لگتی ہے صبا نے کہا حنا اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا تائی اماں صحیح ہی تو کہہ رہی تھیں بہت دیر ہو گئی ہے وہاں صبح سے بارات کا انتظار ہورہا ہے آواب جلدی سے میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھوکچھ دیر بعد ہی بارات روانہ ہو گئی اُس نے بیک ویو مرر میں کئی بار حنا کی طرف دیکھا مگر حنا اپنے دھیان میں صبا آپی سے باتیں کیے جارہی تھی۔ بارات کا استقبال بہت خوبصورت طریقے سے کیا گیا اُس کا خیال تھا کہ گاوں کی شادیاں بس ایسی ہی ہوتی ہیں مگر لڑکیوں کے ہاتھ میں پھولوں کی مالا تھی اور پلیٹوں میں سرخ گلاب کے پھولوں کی پتیاں جو باراتیوں پر نچھاور کر رہی تھیں۔اور ساتھ میں گانے بھی گائے جا رہے تھے بہت اچھا لگ رہا تھا یہ سب دیکھ کرکہ شادی کا انتظام بہت اچھے طریقے سے کیا گیا تھا پہلے نکاح ہوا پھر کھانا کھلانے کے بعد رسم شروع ہوئی حنا ہر رسم میں پیش پیش تھی اور وہ بس اسی کو دیکھے جا رہا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے جب دودھ پلائی کی رسم کے بعد پیسوں کی مانگ ہوئی اور اس پر جو بحث افف توبہ 50 ہزارروپے مانگ رہی تھیں خرّم کی سالیاں پر حنا 5 ہزار بھی دینے کو تیار نہیں تھی منع کر رہی تھی خرم کو کہ اتنا مہنگا دودھ ؟ اتنے میں تو بھینس ہی آجائے۔

ایک گلاس 50ہزار کا ہمیں پتا ہوتا تو ہم اپنے گھر سے ہی دودھ لے آتے سامنے بھی خرم کی سالیاں تھیں وہ بھی بحث کیے جارہی تھیں آخرایک گھنٹے کی مسلسل بحث کے بعد معاملہ طے پایا او ر کہیں جا کر 25000 پر بات بنی واپسی پر شام کے 6 بج گئے اور سورج مغرب میں ڈبکی لگانے کی تیاری کر رہا تھا گھر پہنچ کر زیور سے لدی دلہن کو باہرآنگن میں جامن کے پیڑ تلے بٹھا دیا گیا۔

برکھا کی اس شام میں بادل بھی جھوم جھوم کر آرہے تھے موتیا اور سرخ گلاب کے پھولوں سے اسٹیج بنایا گیا تھا جو کہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا ہوا سے حنا کا دوپٹہ بار بار پھسل جاتا پھر وہ اسے ٹھیک کرتی پھر ہوا کا شریر سا جھونکا آتا اور دوپٹہ پھر سے پھسل جاتااُسے حنا بہت بھا گئی تھی، شادی ختم ہو تے ہی سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے اُس کی بھی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں پھر بھی وہ ایک دن مزید رک گیا کہ حنا کے دل کی بات جان سکوں صبا نے کہا بھی کہ وہ بات کر لے گی مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ خود بات کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کی رضا مندی جان سکے سب کی باہمی رضا مندی سے اُسے حنا سے بات کرنے کی اجازت مل گئی جب اُس نے حنا سے پوچھا تو وہ مسکرا دی وہ حنا کی مسکراہٹ دیکھ کر ہی سمجھ گیا کہ حنا بھی اسے پسند کرتی ہے جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہو گیا حنا کی پسند نا پسند وہ پہلے ہی جان چکا تھا اس لیے کمرہ بھی حنا کی مرضی کے مطابق سجایا گیاوہ حنا کو پا کر بہت خوش تھا اُسے اپنی من پسند بیوی مل گئی تھی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں