The news is by your side.

گوری میم اور قربانی کے بکرے

41سالہ امریکی خاتون کا سیالکوٹ کے رہائشی سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر رابطہ ہوا ،بات شادی تک پہنچ گئی ۔ خبر کے مطابق ماریہ ہلینا نے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کی۔ شادی کی تقریب کا شف کے عزیز و اقارب کی موجودگی میں مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی, اس موقع پر ماریا کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف کاشف سے محبت کرتی ہے بلکہ پاکستان سے بھی محبت بھی رکھتی ہے ۔یہ تھی وہ خبر جو کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی لیکن ابھی یہ خبر پرانی بھی نہیں ہوئی تھی کہ کسی کمپیوٹر وائرس کی طرح ہر اینڈ رائڈ سسٹم، لیپ ٹاپ اور سی پی او کمپیوٹر کے مانٹیرز پر ایسی عجیب غریب شادیوں کی مزید تصاویرنظر آنا شروع ہوگئیں ۔امریکہ کی انجیلا اور پاکستان کےمحسن جو کہ لاہور کا رہائشی کی ہے۔ شادی کوئٹہ کے اقبال مگسی کی چھبیس سالہ جرمن حسینہ سے شادی اور ایک اٹھائیس سالہ روسی لڑکی بھی دیسی نوجوان کی محبت میں اب تک پاکستان پہنچ چکی ہے تاہم ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ شادی کب ہے۔

ان واقعات میں جوباتیں مشترک ہیں ان نو بہاتا جوڑوں کا سوشل میڈیا پر رابطہ ہونا اور دوسرا ان شادیوں کا بے جوڑ نظر آنا ہے پہلی شادی میں کاشف اور ہیلینا کا کوئی جوڑ نہیں بنتا ہلینا اکتالیس سال کی ادھڑ عمر کی عورت ہے جبکہ کاشف اکیس سال کا دبلا پتلا نوجوان ہے۔عام حالات میں کاشف اپنےسے دو سال بڑی پاکستانی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا اور نہ خاندان ہی اجازت دیتا لیکن غیر ملکی ڈالر نیشنیلٹی کی چکا چوند نے ہر ایک زبان بند کردی ۔ان چیزوں کے سامنے دوگنی عمر کیا حثیت رکھتی ہے بلکہ یہاں تو کاشف کی قسمت پر رشک کیاجارہا ہوگا۔ دوسری شادی جو کہ انجیلا اور محسن کی ہوئی اس میں اگرچہ عمر کا اتنا فرق نہیں ہے لیکن دلہن بھاری بھرکم ہے اور شکل صورت بھی کوئی خاص نہیں جبکہ محسن ایورج مشرقی نوجوان نظر آرہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ محسن پاکستان میں کسی زیادہ وزن کی لڑکی کی طرف دیکھتا بھی نہ اور بہنیں ماں باپ صرف ایک فقرہ میں جواب دے دیتے کہ ہمارے لڑکے کی نصیبوں میں کیا یہ موٹی ہی رہ گئی ہے لیکن جہاں ڈالر آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوں امریکہ گرین کارڈ کی چربی چڑھی ہو فربا امریکی لڑکی کسی حور سے کم نظر نہیں آتی۔

کوئٹہ کے اقبال مگسی کی ایک جرمن سے شادی کی بھی خبر سرگرم ہے اقبال مگسی چھبیس سال کے نوجوان جبکہ جرمن خاتون ۵۰سالہ بوڑھی عورت اقبال مگسی کالی داڑھی تو جرمن محترمہ کے بالوں کی سفیدی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ دوسری طرف مگسی قبیلہ بلوچی روایات کے مطابق غیرت کے نام پر کیا کچھ نہیں کر جاتے لیکن کیا مجال کہ اقبال مگسی صاحب کی اس حرکت پر باپ کے چہرے ہر غصہ آیا ہو یا ماں کے ماتھے پر کوئی شکن ابھرا ہو، ابھرے بھی تو کیسے تارکین وطن کے پاکستانی رشتے داروں کے ٹھاٹھ باٹھ توانہوں نےدیکھے ہی ہونگے اب جب لکشمی خود چل کر ان کے گھر آرہی ہو تو بھلا ان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہوگا بھاڑ میں جائے رسم رواج ، روایات یہاں تو سب سے اول مقصد بیرون ملک کی شہریت حاصل کرنا ہےچاہئے۔

یہ تو خیر وہ خبریں تھیں جو کہ میڈیا کی وجہ سے خبروں میں آئیں لیکن بے شمار ایسے واقعات بھی ہیں جو کہ میڈیا کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔ آئیں آپ کو ایک یسے ہی متوسط طبقہ کے ایک گھر کی کہانی شئیر کرتا چلوں بشیر کی فیملی سات افراد پر مشتمل ہے اس کے پانچ بھائی اور دو ماں باپ گوجرانوالہ کے ایک گنجان آباد علاقہ کے سات مرلے کے گھر میں رہتے ہیں بڑے تین بھائیوں کی شادی ہوچکی تھی بشیر خود ابھی لاہور اورنیٹیل کالج زیر تعلیم تھا وہاں اس کے تعلقات اپنی ایک کلاس فیلو سے استعوار ہوجاتے ہیں اور بات شادی تک جا پہنچتی ہے ایک دن لڑکا یہ بات اپنے والدین کو بھی بتا دیتا ہے لڑکی جس کا نام سائرہ تھا بھی اپنے والدین کو بتاتی ہے کہ اس کیلئے اس کے کلاس فیلو کا رشتہ آنے والا ہے کچھ جھجھک اور ہاں نہ کرتے ہوئے دونوں خاندان پہلی ملاقات پر راضی ہوجاتے ہیں چناچہ ایک دن لڑکا اپنے والدین کو لے کر لاہور لڑکی کے گھر جا پہنچتا ہے سلام دعا اور چائے پانی کے بعد لڑکی کے والدین ایک ایسی بات لڑکی کے متعلق لڑکے کے والدین کو بتاتے ہیں جس کا ذکر ان کے بیٹے نے ان سے نہیں کیا ہوتا اور وہ یہ کہ لڑکی کا ایک بازو پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے کمزور ہے شاید اس کو بچپن میں پولیو کا حملہ ہوا تھا۔

بظاہر بشیرکی والدہ کچھ کہے بغیر وہاں سے اٹھ آتی ہے لیکن گھر آتے ہی ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے لڑکے کی ماں اپنے بیٹے کو کہتی ہے کہ اس کا گزارہ کیسے ایک معذور لڑکی کے ساتھ ہوگا جو کہ خود سے روٹی بھی نہیں پکا سکتی وہ دوسرے کام کیسے کرے گی کیسے وہ اپنے بچے پال گی اور سب سے بڑ کر رشتہ دار برادری کیا کہے گی غرض ایک لمبی بحث اور تو تکرار کے بعد رشتہ سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اس لڑکی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کی ایک بازو کمزور تھا لیکن ابھی ایک اور موڑ اس کہانی میں آتا ہے لڑکا جس کا فیس بک اکاوئنٹ ہے اس کا رابطہ ایک امریکی گوری سے ہوتا ہے کیونکہ لڑکا خوبصورت اور وجیہہ شخصیت کا مالک تھا اس لئے اس گوری کو وہ اچھا لگا یا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد تھا، تاہم اس نے بشیر کو شادی کیلئے پرپوز کردیا ۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ اندھا کیا چاہئے دو آنکھیں ایک پاکستانی بے روزگار کو جس کے باپ کا ایک سات مرلے کا گھر اور چند ایکڑ زمین کے سوا کچھ نہیں اور وہ بھی پانچ حصوں میں تقسیم ہونے والی تھی اسے کیا ملتا ، وہ فوراً راضی ہوگیا گوری نے کہا کہ پہلے وہ پاکستان آکر اسے اور اس کی فیملی سے ملے گی اور پھر شادی کا فیصلہ کرے گی چناچہ ایک دن وہ پاکستان آپہنچی لاہور کے ایک فائی سٹار ہوٹل میں ٹھہری اور بشیر سے اس کی پہلی آمنے سامنےملاقات ہوئی ۔ جہاں لڑکے کو گوری کے متعلق ایک چند حقائق بھی معلوم ہوئے کہ ایک تو اس کی گوری کی عمر اس کی اپنی والدہ سے چند سال ہی کم ہوگی اور دوسرا یہ کہ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو بشیر کی ہم عمر نہ سہی تو اس سے چند سال ہی چھوٹی ہوگی لیکن اس میں کیا مزائقہ تھا، ہے تو امریکن اور وہ بھی پیسے والی بلکہ ڈالروں والی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، گوری پانچ دن کے بعد پروگرام کے مطابق اپنی بیٹی سمیت گوجرانوالہ لڑکے کے گھر آگئی ایک ایسا گھر جس میں پہلے ہی چار خاندان آباد تھے۔

جیسے تیسے وہ چند روز لڑکےکے گھر والوں کے ساتھ رہی لڑکے کی ماں جس نے صرف اس لیے سائرہ کو مسترد کردیا تھا کہ وہ ایک ہاتھ سے معذورتھی باوجود کہ وہ ایم اے اردو اور خوبصورت شکل صورت کی مالک تھی، اس گوری پر واری صدقے جارہی تھی سائرہ کے گھر والوں سے تو یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ برادری کون سی ہے مسلک کیا ہے لیکن گوری سے کسی کو اتنا بھی پوچھنے کی ضرورت نہ تھی کہ آیا اس کا مذہب کیا ہے کیا وہ کیتھولک ہے پروٹیسٹینٹ ہے یا عیسائی ہے بھی کہ نہیں۔ بس دن رات نت نئے کھانے اور کافی چائے سے اس کی تواضح کی جارہی تھی بلکہ ایک مشروب جو کہ حرام تصور کیا جاتا ہے وہ بھی اس وقت لڑکے کے ماں باپ کواس وقت حلال نظر آرہا تھا گوری اور اس کی بیٹی کوشاپنگ کروائی گئی خوب گھومایا پھرآیا گیا۔ آخر کار گوری خاتون یہ کہہ کر لاہور چلی گئی کہ وہ امریکہ پہنچ کر اپنے فیصلہ سے لڑکے کو آگاہ کردے گی ۔گوری کے لاہور روانہ ہونے کے بعد کئی دن وہ پاکستان میں رہی لیکن لڑکے بشیر سے اس کا کوئی رابطہ نہ ہوا ، عین ممکن ہے کہ وہ اپنی کسی دوسری پرپوزل کا جائزہ لے رہی ہو۔ جب رشتہ ہی پاکستانی جوان سے کرنا ہے تو اور چوائسز دیکھنے میں کیا حرج تھا۔ بشیر اس کے جواب کا بےچینی سے انتظار کررہا تھا لیکن فیس بک پر وہ ایک ماہ بعد ایکٹو نہ ہوئی اور جب ہوئی تو اس نے لڑکے کو کوئی جواب دئے بغیر ہی بلاک کردیا مطلب صاف تھا کہ بشیر کے ارمانوں پر پانی پھر چکا تھا کوئی دوسرا شکاری گوری کو لے اڑا یا گوری نئے شکاری کو شکار کرگئی۔

پاکسانی نوجوانوں کا المیہ یہ ہے وہ کسی بھی صورت میں اپنے وطن کو چھوڑ کر امریکہ یورپ کینڈا میں بسنا چاہتے ہیں اس کے لیے اخلاقی مذہبی اور معاشرتی اقدارکی ہر حد کو عبور کرتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے ، مذہبی طور پر ان غیر ممالک میں اپنا مذہب و فرقہ دوسرا ظاہر کرکے اور یہ بتا کران کی جان کو خطرہ ہے سیاسی پناہ حاصل کرنا ایک عام سی بات ہے جبکہ ایسے کیس بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ کسی غیر ملک میں مقیم اپنے کسی ایسے عزیز یا عزیزہ سے جس سے شرعاً شادی جائز نہیں اپنا خاوند یا بیوی ظاہر کرکے امیگریشن حاصل کرلی کی جاتی ہے یہ ایک علیحدہ اور مکمل موضوع ہے جس پر زیر بحث لاوُں گا یہ گوری بڑی عمر کی عورتیں کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہوسکتاہے ایسے کئی سوال ہیں جن میں سے چند کا جواب اس تحریرمیں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اول: کیا یہ واقعی محبت کی تلاش میں پاکستان آنا شروع ہوگئی ہیں یا پھر ان کی سب سے بڑی کمزوری وہ جسمانی ضرورت ہے جس کے لئے انہیں مغربی معاشرے کے مرد کی ضرورت پڑتی ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ مادر پدر آزاد معاشرے کا یہ ایک تاریک پہلو ہے کہ وہاں عورت مرد کے جسمانی تعلق کو فطرتی ضرورت سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا جب یہ گوریاں اپنے مغربی لائف پارٹنر سے اکتا جاتی ہیں یا انہیں کوئی بوائے فرینڈ نہیں ملتا تو ان کی نظر مشرقی معاشروں خاص طور پر ایسے سماج جہاں جنس پر بہت زیادہ پابندیاں ہوں کے جوان مردوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں سوشل میڈیا ایک آسان ذریعہ ہے ایسے مردوں تک رسائی کا جبکہ مشرقی معاشرے کے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری غربت اور معاشی پسماندگی ہے اور ایسی کسی گوری کے ساتھ شادی اس کا ایک آسان حل نظر آتا ہے۔

دوئم: کیا یہ کوئی انسانی ٹریفکنگ کے کیس تو نہیں؟ بہت حد تک امکان ہے کہ ان عورتوں کو پیسے کا لالچ دے کر بلایا گیا ہو اس کے لیےتحقیقاتی اداروں کو الرٹ ہو جانا چاہئے۔ان گوریوں کا ریکارڈ ان کی حکومتوں سے مانگنا چاہئے آیا وہ اس سے پہلے کتنی شادیاں کر چکی ہیں اور جن سے ان کی شادیاں ہوئی تھیں کا تعلق کہاں کہاں سے تھا اور اب وہ تمام سابق خاوند یا پارٹنر کہاں ہیں نیز یہ بھی ممکن ہے کہ یہ گوریاں پیسے لینے کے بعد ان کی شکایت کروا دیں اور ان کو ڈیپورٹ کروادیں۔

سوئم: کیا ان شادیوں کی پیچھے منشیات اسمگلرمافیا توایکٹو تو نہیں ؟ یہ خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہیں ان پاکستانی نوجوانوں کو کیریئر کے طور پر استعمال نہ کیا جارہا ہو یہ کوئی نئی بات نہیں منشیات کے اسمگلر یہ طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ جس میں باہر جانے والے کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے سامان میں منشیات چھپائی گئی ہیں ایسا کئی طریقوں سے ہوتا ہے اور یہ مافیا بڑے منظم انداز مین ایسے شکار کو قابو کرتے ہیں محبت کا ڈھونگ رچا کر کسی کو ساتھ لیجانا ان گوری میموں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

چہارم: انشورنس کیلئے ، امریکہ میں ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ غیر قانونی طور پر رہنے والے کسی دیسی نوجوان نے پیپر میرج کی یا کسی مقامی عورت نے محبت پیار کا ڈھونگ رچا کر اس سے شادی کا ڈرامہ کیا اس کی انشورنس کروائی اور پھر اس کو مروا کر لاکھوں ڈالر انشورنس کمپنی سے حاصل کرلئے ایسے پاکسانیوں سے جو اس چکر میں ہیں ذرا محتاط رہیں کہ یہ سب کچھ کہیں ان کے ساتھ نہ ہو جائے۔

 ہرچارصورتوں میں ان دیسی نوجوانوں کی حیثیت مجھے کسی قربانی کے بکرے سے زیادہ نظرنہیں آتی  کہ دیکھیں پہلے کون سا ذبحہ ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پرخبر وائرل ہوتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں