تحریر: نادیہ حسین
چند روز پہلے ایک خبر نظر سے گزری کہ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کے ایک پیٹرول پمپ پر سانپ نظر آیا جسے دیکھ کر وہاں موجود لوگ خوف زدہ ہو گئے اور ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ خیر، سانپ نے کسی کو ڈسا نہیں۔
ایدھی کا عملہ آیا اور سانپ پکڑ کر لے گیا۔ کراچی شہر میں ایسے اکا دکا واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ تاہم یہ شاذ ہوتا ہے۔ چند ہفتوں بعد ایک عزیز سے معلوم ہوا کہ ان کے اپارٹمنٹ کی بیسمنٹ کار پارکنگ میں بھی سانپوں کا جوڑا دیکھا گیا ہے۔ یہ سن کر تھوڑا خوف محسوس ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کراچی میں سانپ کہاں ہوتے ہیں۔ خیر اسے اتفاق سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا۔
گذشتہ ہفتے شاہراہِ فیصل سے گزرنا ہوا تو ایک گھر میں لگے آم کے پیڑ پر نظر پڑی۔ اس پر کیریاں بھی تھیں۔ خیال آیا کہ ابھی تو نومبر کا شروع ہے، کیریاں کہاں سے آگٸیں؟ آم پر تو جنوری میں پھول آتا ہے اور اپریل تک جا کے کیریاں بنتی ہیں۔ سوچا وہم ہو گا کیوں کہ ہم پاکستانی آموں کے شوقین ہیں، آم کا خیال آیا ہو گا تو پیڑ پر کیریاں نظر آنے لگیں۔ لیکن گزشتہ دنوں اپنے گھر کے قریب لگے ہوئے آم کے دو پیڑوں پر نظر پڑی تو حیران رہ گئی۔
دونوں کی شاخیں آموں سے جھول رہی تھیں، کچھ تو پک چکے تھے۔ اچانک میں نے سوچا یہ بے موسم آم کیسے؟ اور بے موسم کا خیال آتے ہی مجھے ایک زور دار جھٹکا لگا۔ اسی لمحے سانپ کے نکلنے کے واقعات بھی ذہن میں آگئے۔ کراچی جیسے شہر میں سانپ اور پھر یہ بے موسم پھل کا آنا، کچھ گڑبڑ ہے۔
میرا ذہن انیس سال پیچھے چلا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ فروری 2000 میں کراچی سے لے کر بھارتی شہر گجرات تک زلزلہ محسوس کیا گیا تھا جس کی شدت 7.9 بتائی گئی تھی۔ کراچی میں تو معمولی نقصان ہوا تھا، مگر بھارتی شہر گجرات میں ہلاکتوں کے ساتھ وہاں سیکڑوں عمارتیں منہدم ہو گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ماہرین نے کہا تھا کہ زلزلے کی پیش گوٸی نہیں کی جاسکتی، لیکن اس سے پہلے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر زلزلے کا خدشہ ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ ان علامات میں پرندوں کا نقل مکانی کرنا، حشرات الارض کا زمین سے نکلنا اور درختوں پر بے موسم پھل آنا شامل ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ کوئی ناگہانی آفت آنے والی ہے۔ یہ محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی خلافِ توقع یہ سب ہو رہا ہو۔ گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ، برف باری اور طوفانی بارشیں یہ سب موسم میں بدلاؤ کا نتیجہ ہیں۔
مذکورہ واقعات سے جب میرا خیال زلزلے کی وجوہات کی طرف گیا تو حضرت عمر فاروق ؓ کے دور کا ایک واقعہ یاد آیا۔ روایات میں ملتا ہے کہ ایک دن حضرت عمر مسجد میں تشریف فرما تھے، زمین زلزلے کے باعث ہلنے لگی۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی لاٹھی زمین پر زور سے ماری اور کہا کہ کیا میں نے تجھ پر انصاف قاٸم نہیں کیا؟ اتنا کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ مدینہ شہر میں پھر کبھی زلزلہ نہیں آیا۔
اس پر غور کرنے کے بعد کم از کم میں تو یہی سمجھی ہوں کہ جب اللہ کی زمین پر ناانصافی اور ظلم کا سلسلہ دراز ہو جائے تو قدرتی آفات کی شکل میں عذاب نازل ہوتا ہے۔
ہم اپنے سماج پر نظر ڈالیں تو ہر طرف ظلم اور ناانصافی نظر آئے گی۔ حکم رانوں کو چھوڑیے، عام لوگ آپس میں ایک دوسرے کی حق تلفی، زیادتی اور ظلم کا جیسے کوئی موقع ہی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ چوری ڈکیتی، لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ انسانی جان کی کوٸی قیمت نہیں رہی۔ خون ناحق بہہ رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اس تواتر سے ہو رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ دو وقت کی روٹی غریب کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ناانصافی اور ظلم کی مختلف شکلیں اور اس کے مختلف اسباب ضرور ہیں، مگر ذمہ دار انسان ہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہم تمام لوگ ہیں جو آسمان اور زمین کے غیظ و غضب کو آواز دے رہے ہیں۔
من حیث القوم ہم اپنے اعمال کا جاٸزہ لیں تو شرمندگی اور ندامت سے ہمارے سر جھک جائیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں تو ہم خود ہی کانپ اٹھیں کہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنے اعمال اور اپنے کردار کا جائزہ نہیں لینا چاہیے؟ کیا وقت نہیں آیا کہ ہم آپس میں محبت، اخوت اور بھائی چارہ قائم کریں اور ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے جذبات کو پروان چڑھائیں۔ ظلم اور ناانصافی کا راستہ روکیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کے لیے کوششوں کا آغاز کریں جس میں کسی کو بھوک اور ذلت کا خوف نہ ہو، کسی کو اپنے بچوں کے کھو جانے کا ڈر نہ ہو، عورتوں کی عزت اور خاندانوں کا وقار سلامت رہے۔
شاید، اپنے اعمال و کردار کا جائزہ لینے اور خود کو سدھارنے کا وقت آگیا ہے۔ شاید اب ہمیں ہوسِ مال و زر اور انفرادی فائدے کی سوچ ترک کر کے آگے بڑھنا ہو گا ورنہ پچھلی قوموں کا انجام ہم نے پڑھ رکھا ہے، جن کو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد کردیا گیا۔