کیا کبھی آپ نے دورانِ خواب یہ محسوس کیا ہے کہ آپ ایک خواب دیکھ رہے ہیں؟ اور یہ جان کر آپ پُرسکون ہوگئے ہوں کہ خواب میں جس مصیبت کا سامنا آپ نے کیا ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے؟
آئیے، اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ کے قومی ادارۂ صحت (NIH) کے مطابق ہماری نیند دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ پہلا حصہ نان ریپیڈ آئی موومنٹ (non rapid eye movement sleep) ہوتا ہے، جسے عام زبان میں ہم کچی نیند کہتے ہیں۔ اس حصے کو انسانی جسم اور ذہن کی مختلف حالتوں کی بنیاد پر مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ ریپیڈ آئی موومنٹ (rapid eye movement) کہلاتا ہے، یعنی گہری نیند۔ ہمارے سونے کے بعد نیند کے عالم میں یہ دونوں فیز ایک کے بعد ایک چلتے رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پورا سائیکل تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔
سلیپ فاؤنڈیشن آرگنائزیشن کے مطابق ہماری نیند کے دوسرے فیز یعنی “ریپیڈ آئی موومنٹ” میں ہمارا دماغ اتنا ہی متحرک ہو جاتا ہے جتنا کہ جاگتے ہوئے ہوتا ہے۔ اسی فیز میں ہمیں زیادہ تر خواب نظر آتے ہیں۔ یہ خواب حقیقت کے اتنے قریب معلوم ہوتے کہ اگر ان کے دوران ہمارے مسلز کام کرنا نہ چھوڑ دیں تو ہمارا جسم خواب کے مطابق حرکت کرنے لگے جس سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
اسی فیز میں ہم ایک قسم کا وہ خواب دیکھتے ہیں جسے لوسڈ ڈریم (Lucid Dream) کہا جاتا ہے۔ اسٹیفن لا برگ (Stephen LaBerge) کی کتاب “ایکسپلورنگ دی ورلڈ آف لوسڈ ڈریمنگ” (Exploring the World of Lucid Dreaming) ہمیں شعوری خوابوں کے کئی ایسے رازوں سے آگاہ کرتی ہے جو حیران کن اور ہمارے لیے ناقابلِ یقین بھی ہیں۔
اسٹیفن لا برگ کے مطابق لوسڈ ڈریم ایک ایسا خواب ہوتا ہے جس میں ہم اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہم اس وقت خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب کی اس حالت کے دوران ہم خود کو، اپنے آس پاس کی چیزوں کو اور لوگوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ کبھی کسی برے خواب کے دوران، کسی مشکل سے گزرتے ہوئے ہمارا دماغ کافی تیزی سے کام کرنے لگتا ہے اور ہم خبردار ہو جاتے ہیں کہ اس وقت خواب دیکھ رہے ہیں۔ اکثر یہ انکشاف ہمارے کندھوں سے بھاری بوجھ ہٹا دیتا ہے کیونکہ ہم یہ جان چکے ہوتے ہیں کہ ہمیں جس مصیبت کا سامنا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لوسڈ ڈریم میں ہم دائیں بائیں، آگے پیچھے اپنی مرضی سے دیکھ سکتے ہیں، حیران کن بات یہ کہ خواب میں دائیں بائیں دیکھنے سے حقیقتاََ بند پپوٹوں کے پیچھے ہماری آنکھیں بھی دائیں بائیں حرکت کرتی ہیں۔ اسٹیفن لا برگ اپنی کتاب میں اس بات کی تصدیق اس طرح کرتے ہیں: “میں یہ بات اپنے تجربے سے جانتا تھا کہ میں لوسڈ ڈریم میں اپنی مرضی سے کسی بھی سمت میں دیکھ سکتا تھا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ میں لوسڈ ڈریم کے دوران اپنی آنکھوں کی حرکت سے سگنل دے سکتا ہوں۔”
ان کی کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس خواب کے دوران ہمارے محسوسات اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ درمیان میں آنکھ کھل جائے تو بھی ہمارا جسم ان احساسات کو یاد کرسکتا ہے۔جیسے کبھی ہم جاگنے کے بعد اپنے دل کی دھڑکن کو تیز پاتے ہیں۔
لوسڈ ڈریم کی کیفیت میں ہم کچھ خواب ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں جو حقیقی زندگی میں پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ مذہبی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں سچے اور جھوٹے خوابوں اور تعبیر کے حوالے سے قصائص کے علاوہ کئی ایسے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو خالصتاََ مذہبی نوعیت کے ہیں۔ قرآن میں انبیا اور دوسری شخصیات کے خوابوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کی ایک مثال سورۂ یوسف ہے جس میں مصر کے بادشاہ اور اس کے خواب کا ذکر ہے۔ بادشاہ نے دیکھا کہ سات دبلی پتلی گائیں، سات صحت مند گائیوں کو کھا رہی تھیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک۔ اس خواب کی تعبیر اللہ کے پیغمبر حضرت یوسف نے بتائی تھی کہ اتنا عرصہ مصر میں اجناس کی فراوانی ہوگی اور پھر قحط پڑے گا۔
خوابوں کی دنیا سے متعلق صدیوں پہلے لکھی گئی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے اس کی اچھی یا بری تعبیر کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی شخص نے خواب کس وقت دیکھا۔ عراق کے مشہور تابعی ابنِ سیرین کو خوابوں کی تعبیر بتانے کے ایک ماہر کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ان سے منسوب ایک قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے کا وقت اس کی تعبیر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس دو آدمی آئے اور اپنا خواب سنایا۔ اتفاق سے دونوں کا خواب ایک ہی تھا جس میں انھوں نے خود کو اذان دیتے ہوئے پایا تھا۔ ابن سیرین نے ان میں سے ایک آدمی کو خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ تم حج کرو گے، اور دوسرے کو کہا کہ تم چور ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کے خواب کی تعبیر اس کے خواب دیکھے جانے کے وقت پر انحصار کرتی ہے۔ کچھ مذہبی حوالہ جات اور روایات کے مطابق رات کے آخری پہر میں نظر آنے والے خوابوں کے سچا ہونے کا مکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
الغرض، خواب رات کی چند تصویری جھلکیاں نہیں ہوتے بلکہ اکثر یہ ہمارے مستقبل کی سرگوشیاں ہوتے ہیں۔