تحریر: ملک شفقت اللہ
کرتار پور راہداری منصوبے کا افتتاح ہو چکا ہے اور سکھ برادری کو دربار تک رسائی کا موقع میسر آچکا ہے۔ عمران خان نے کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس پر عمل بھی کیا۔
نوجوت سنگھ سدھو ہمارے وزیرِ اعظم کے اچھے دوست ہیں اور کرتار پور بارڈر کھولے جانے پر بہت خوش بھی ہیں۔ بھارت میں انہیں عمران خان کی دوستی خاصی مہنگی پڑ رہی ہے اور اب کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر سنی دیول اور منموہن سنگھ نے بھی بھارت میں سب کو گویا اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بھارت میں حکومت ہندوتوا کے متوالوں کی ہے جو ہر طرح کے ہتھکنڈوں سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے کرتار پور راہداری منصوبے کا افتتاح کیا جس کے جواب میں بھارتی عدالت میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس حوالے سے پراپیگنڈے کرتے ہوئے ایک جگہ کچھ زمین مسلمانوں کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں مسجد تعمیر کر لی جائے۔ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی یہ کوشش بی جے پی کواب نہیں تو مستقبل میں ضرور منہگی پڑے گی۔
کرتار پور کے حوالے سے بابا فرید اور بابا گرو نانک پر 9 نومبر کو ایک سیمینار اورینٹل کالج لاہور کے زیرِاہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کا مقصد کرتار پور اور بابا گرو نانک کی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہاں تمام اقلیتوں اور بالخصوص سکھ برادری سے یگانگت اور بھائی چارہ کو فروغ دینا تھا۔ اس موقع پر شرکا نے بابا گرو نانک اور بابا فرید کی پنجابی زبان کے حوالے سے خدمات اور اصلاحی و ادبی کاوشوں پربھی روشنی ڈالی۔ سیمینار کی صدارت ڈاکٹر اختر جعفری نے کی جو ایک محقق، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ مہمانوں میں سویڈن سے آئے ہوئے کالم نگار، لکھاری اور سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے مشیر ڈاکٹر عارف محمود کسانہ، ڈاکٹرعباد ندیم نے شرکت کی۔ اس سیمینار کی میزبان اورینٹل کالج کے شعبۂ پنجابی زبان کی چیئرپرسن ڈاکٹر نبیلہ رحمان تھیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اس سیمینار کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی جب کہ ڈاکٹر عباد نعیم نے بابا گرو نانک کی آپ بیتی پر ایک سیر حاصل مقالہ پیش کیا۔
اس سیمینار میں شرکت کے لیے برطانیہ سے آئی ہوئی گورمیت کور نے بھی بابا گرو نانک کی تعلیمات اور سکھوں کی ان سے عقیدت اور مذہبی خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے ان امور پر بھی بات کی جو گورد وارہ گرو نانک سے لے کر یونیورسٹی کے قیام تک اہمیت رکھتے ہیں۔ عارف محمود کسانہ نے اس موقع پر پیغام دیا کہ ہمیں اپنے بزرگوں کی تعلیمات کی ترویج اور ان کے افکار کو اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھنا چاہیے جس سے یہ بتانا مقصود تھاکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں آئین کی رُو سے ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی بھی حاصل ہے۔ یہ راہداری اور اس سے جڑے منصوبوں کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے وہ بتاتا ہے کہ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی مذہبی رواداری اور امن پسندی کا کتنا چرچا ہوا ہے۔
صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر اختر جعفری صاحب نے جو پہلو سامنے رکھا وہ نہایت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک مثبت چہرہ دنیا کے سامنے ہے۔ تاہم حکومت کو اپنی پالیسیوں اور اس افتتاح اور اس سے جڑے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بعض خدشات کو بھی مدنظر رکھنا۔
کرتار پور راہداری کے بعد اب اس سے جڑے مستقبل کے منصوبوں پر بات چیت اور کام کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس سے یقیناً عمران خان اور موجودہ حکومت نے دنیا سے اپنے ملک اور اس قوم کا تعارف مذاہب کا احترام کرنے والوں کے طور پر کروایا ہے، مگر اب ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ بھارت دنیا میں ہمارے اس امیج کو متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور اس کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے خارجہ امور کے ماہرین اور خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں سے مشاورت اور ان کی تجاویز کو اہمیت دے اور اس ضمن میں خدشات کو زیرِ بحث لائے تاکہ بھارتی پروپیگنڈے کا بروقت اور مؤثر جواب دیا جاسکے۔